کیا ہم منحوس دور میں جی رہے ہیں؟۔۔یاسر پیرزادہ

ہماری نسل کے لوگ جو ستّر کی دہائی میں پیدا ہوئے اور اسّی کی دہائی میں جن کا لڑکپن گزرا، یہی منحوس جملہ سُن کر بڑے ہوئے کہ اب وہ بات نہیں رہی۔ سن ساٹھ اور ستّر کے جو قصے ہم نے اپنے بڑوں سے سُن رکھے ہیں وہ ہمارا دل جلانے کے لیے کافی ہیں، مثلاً میرے ایک بزرگ دوست بتاتے ہیں کہ لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں کی ’نائٹ لائف‘ بہت شاندار ہوا کرتی تھی، بالکل ویسی جیسی کسی میٹرو پولیٹن شہر کی ہونی چاہئے، لاہور کے مال روڈ پر ایک تھری بیلز نائٹ کلب ہوا کرتا تھا، کلب کی نشانی یہ تھی کہ اِس کے باہر تین بڑی بڑی گھنٹیاں لگی ہوئی تھیں، اِس سے ذرا آگے ریگل چوک کی طرف ہوٹل کیسینو تھا، یہ کوئی جوا خانہ نہیں تھا مگر یہاں ہر شام رقص ہوا کرتا تھا، اسی طرح مال روڈ پر ہی ریگل بس اسٹینڈ کے پیچھے اسٹینڈرڈ ہوٹل ہوتا تھا جو کیبرے ڈانس کے لیے مشہور تھا۔ ہاں ایک میٹرو پول ہوٹل بھی تھا جو اُس جگہ واقع تھا جہاں آج واپڈا ہاؤس ہے، اِس جگہ چھوٹی چھوٹی یک منزلہ عمارتیں تھیں جن میں سے ایک یہ ہوٹل تھا، یہاں بھی ہر شام رقص کی محفل ہوتی تھی، یہی حال فلیٹیز ہوٹل کا تھا جہاں ہالی وڈ کی اداکارہ ایوا گارڈنر اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے ٹھہری تھی، آج بھی اس کے نام کا سویٹ وہاں موجود ہے۔ یہ ہلکی سی جھلک صرف لاہور کے مال روڈ کی ہے۔ اِس سنہری دور کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ آپ پاکستانی پاسپورٹ پر پوری دنیا گھوم سکتے تھے، میرے والد صاحب نے اپنا لمبریٹا اسکوٹر بیچ کر چند ہزار روپوں میں پاکستان سے امریکہ تک کا سفر کیا جس میں یورپ کا بائی روڈ سفر بھی شامل ہے، آج آپ اتنے پیسوں میں بمشکل سانگلہ ہل ہی جا سکتے ہیں۔ اُس زمانے میں کوئی ویزا درکار تھا، نہ امیگریشن کی جھنجھٹ ہوا کرتی تھی، ہپی ازم کا دور تھا، کوئی ٹوکنے والا نہیں تھا، آج کل تو ہر شخص دوسرے کو مشکوک سمجھتا ہے اور رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کر دی ہے جس کی موجودگی میں لوگ آپس میں گفتگو ہی نہیں کرتے۔ کہاں ہپی ازم اور کہاں یہ موبائل ازم!

پھر ہم نے ستّر سے اسّی کی دہائی میں چھلانگ لگائی، پہلے ملک میں مارشل لا لگا اور پھر ہمارے ہمسائے میں جنگ شروع ہو گئی، ہم بھی اِس جنگ میں کود گئے، ایسی آگ بھڑکی کہ اگلی کئی دہائیوں تک بجھائی نہ جا سکی، اِس جنگ نے ہمارے معاشرے پر جو اثرات مرتب کیے ہم آج تک اُن سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ ملک میں ہیروئن، کلاشنکوف اور انتہا پسند لٹریچر آیا، یہ لٹریچر پڑھ کر ہم جوان ہوئے، ایک عجیب و غریب جنونی ذہن کے ساتھ، جس میں کوئی تنقیدی شعور تھا اور نہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت۔ خیر، خدا خدا کرکے مارشل لاختم ہوا، پھر افغان جنگ بھی اپنے انجام کو پہنچی، ہم نے سوچا اب کچھ سکھ کا سانس ملے گا مگر یہ خوش فہمی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ مشکل سے ایک دہائی بغیر کسی عذاب کے گزری مگر 1999میں دوبارہ مارشل لا لگ گیا اور پھر وہ واقعہ ہوا جس نے دنیا ہمیشہ کے لیے بدل کرکے رکھ دی، نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہو گیا، جس کے نتیجے میں 2001میں پھر ہمارے ہمسائے میں جنگ شروع ہو گئی اور یہ خطہ پوری دنیا کی فوجوں کا اکھاڑہ بن گیا۔ کچھ عرصہ ڈالروں کی ریل پیل رہی مگر پھر ایسی دہشت گردی شروع ہوئی کہ جس نے نہ صرف ہماری نسل کے لوگوں بلکہ بعد میں پیدا ہونے والوں کو بھی عجیب ذہنی مریض بنا دیا، کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ کب کہاں کس جگہ دھماکہ ہو جائے اور کسی کا پیارا اس میں مارا جائے، مائیں بچوں کو اسکول یوں بھیجتی تھیں جیسے جنگ پر بھیج رہی ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ دور بھی ختم ہوا، انیس سال بعد امریکہ ایک معاہدہ کرکے افغانستان سے نکلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ 2020شروع ہوا تو یوں لگا جیسے ہماری نسل کا منحوس دور ختم ہو گیا ہے اور اب شاید ہم سکھ کا سانس لے پائیں گے مگر نہیں، اب وہ ہوا ہے جس کا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا، ایک ایسی عالمی وبا پھیلی ہے جس نے پوری دنیا کو دہشت زدہ کر دیا ہے، بیشتر یورپ مکمل بند ہو چکا ہے، امریکہ اور کینیڈا بند ہونے کے قریب ہیں، عالمی منڈی میں افرا تفری کی صورتحال ہے، لوگ ان دیکھے مستقبل سے خوفزدہ ہو کر خوراک ذخیرہ کرنے میں لگے ہیں، وہ قومیں جن کی خوش مزاجی، اخلاقیات اور ایثار کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے اب وہی لوگ بازاروں میں ایک دوسرے سے آٹے کے تھیلے کے لیے گتھم گتھا ہیں، ہوائی اڈے بند ہو رہے ہیں، اسٹا ک مارکٹیں بیٹھ چکی ہیں، کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کل کیا ہوگا۔

یہ بات درست ہے کہ ہر دور کے اپنے مثبت اور منفی پہلو ہوتے ہیں، جیسے تیس اور چالیس کی دہائی میں پیدا ہونے والوں نے دوسری عالمی جنگ میں آنکھ کھولی اور پھر سن سینتالیس کا خون خوار بٹوارہ دیکھا، لیکن اِن لوگوں کی یہ خوش قسمتی ضرور تھی کہ انہوں نے تاریخ میں (نا چاہتے ہوئے بھی) کوئی نہ کوئی حصہ ضرور ڈالا، اِس دور میں ایک ایسے معاشرے میں رہنے کا تجربہ کیا جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اکٹھے رہتے تھے، پھر انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی، علیحدہ ملک حاصل کرکے ایک بالکل مختلف قسم کا تجربہ کیا، اسی دور میں اردو ادب نے اپنا عروج دیکھا، سن تیس، چالیس اور پچاس کے عشرے میں جو ادب تخلیق کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے برعکس ہم جس منحوس دور میں پروان چڑھے اس میں کوئی تاریخ بنتی دیکھی اور نہ آزادی کے پائے کا کوئی انقلاب دیکھا، ادب، شاعری اور فلسفے میں بھی کوئی جان پیدا نہیں کی، بس ایک کے بعد دوسرا آمر آیا اور پھر ایک کے بعد دوسری افتاد آئی، ہم فقط تماشائی بنے بیٹھے رہے لیکن اِس میں خود کو ملامت کرنے والی بھی کوئی بات نہیں کیونکہ اِس پر ہمارا بس نہیں، تاریخ میں اکثر واقعات یوں کروٹ بدلتے ہیں کہ درمیان کی کچھ دہائیوں میں زندگی بے معنی لگتی ہے، ہم ایسے ہی دور کی پیداوار ہیں، اسی لیے یہ منحوس فقرہ سنتے ہوئے جوان ہوئے کہ اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی!

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply