• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • لمبے ہتھ قنون دے تے ماڑے دے گل پھاہ۔۔۔ رانا اورنگزیب

لمبے ہتھ قنون دے تے ماڑے دے گل پھاہ۔۔۔ رانا اورنگزیب

قانون کیا ہے ؟ یہ زندگی گزارنے کیلئے ایک معاہدہ ہے۔وکی پیڈیا پر قانون کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے(قانون دراصل اجتماعی اصولوں پر مشتمل ایک ایسا نظام ہوتا ہے کہ جس کو کسی ادارے (عموماً حکومت) کی جانب سے کسی معاشرے کو منظم کرنے اور اس کو قابو (control) کرنے کے لیے نافذ کیا جاتا ہے اور اس ہی پر اس معاشرے کے اجتماعی رویوں کا دارومدار ہوتا ہے) قانون کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔بہت سی شقیں ہوتی ہیں اور تہہ در تہہ قانون کے اوپر نیچے قانون ہی قانون ہوتا ہے۔ کبھی جب انسان جنگل میں جانوروں کے ساتھ رہتا تھا تو وہاں جنگل کا قانون ہوتا ہوگا اور جنگل کا قانون تو صرف ایک ہی قسم کا تھا اور اس میں کوئی شق نہ شامل کی جاسکتی تھی نہ کی جاسکی۔

آہستہ آہستہ انسان نے جنگل چھوڑا اور شہر بسائے، بستیاں آباد کیں۔جنگل سے نکلتے ہوئے انسان اپنی جمع پونجی اور قیمتی اشیاء کے ساتھ ساتھ قانون بھی اٹھا لایا۔جنگل میں صرف طاقت کا قانون چلتا ہے، چونکہ یہ قدرتی ہے تو قدرت اس میں توازن قائم رکھتی ہے۔جتنے جانور طاقتوروں کی خوراک بنتے ہیں اتنے ہی قدرت جنگل میں اور پیدا کردیتی ہے۔جب سے روئے زمین پر زندگی شروع ہوئی فطرت اور قدرت نے کسی چیز کو قانون توڑنے نہیں دیا ۔ہائے مگر حضرت انسان ،نہ فطرت کے قانون محفوظ ہیں اس سے نہ انسان کے اپنے بنائے ۔یار لوگ کہتے ہیں قانون بنایا ہی توڑنے کیلئے جاتا ہے۔ معلوم دنیا میں بھی ہزاروں سال سے جنگل کا قانون رائج ہے۔طاقتور کا ہر جگہ ہی سات بیس کا سو ہوتا ہے۔ عالمی برادری میں بھی جنگل کا قانون ہی چل رہا ہے۔ سنا ہے اک عالمی عدالت بھی ہے مگر اس کے فیصلے بھی کمزوروں کے خلاف ہی لکھے اور منوائے جاتے ہیں ۔طاقتور تو اس کی آواز بھی نہیں سنتے۔ایک اقوام متحدہ بھی ہے جہاں سے آج تک ایک بھی فیصلہ کمزور کے حق میں نہیں منوایا جا سکا۔جب میں عالمی منظر نامے پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے بے اختیار پاکستان کے دیہات کی کہانیاں یاد آتی ہیں۔

فرض کریں امریکہ چوہدری گاما ہے تو برطانیہ چوہدری شیرو ہے۔ اسرائیل چوہدریوں کا منشی ہے تو انڈیا کاما۔چائنا دوسرے پنڈ کا چوہدری ہے اور روس تیسرے پنڈ کا، مگر سب سے اکھڑ بدتمیز اور ہتھ چھٹ چوہدری گاما ہی ہے، جس کی بھینس تو منشی نے چوری کروائی مگر پکڑا گیا بیچارہ دتہ ماچھی۔ایسے ہی چوہدری کو جو سلام نہ کرے چوہدری اس پر نوجوانوں کو نشہ سپلائی کرنے کا الزام لگا کے” لمیا” کر لیتا ہے۔ بات قانون کی ہو رہی تھی تو جناب پاکستان میں بھی قانون موجود ہے ۔جی ہاں، وہی جنگل کا قانون۔کہتے ہیں قانون اندھا ہوتا ہے مگر طاقتور کیلئے۔ کمزور تو قانون کو کئی میل دور سے ہی نظر آجاتا ہے۔قانون کے ہاتھ بھی ہوتے ہیں جو سنا ہے بہت لمبے ہوتے ہیں ،مگر جہاں یہ ہاتھ طاقتور کی طرف بڑھتے ہیں انکی لمبائی بھی کام نہیں آتی۔قانون کو نافذ کرنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہوتے ہیں جو قانون کو اپنے ہاتھ میں رکھتے اور کسی دوسرے کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہی ادارے قانون کے لمبے ہاتھوں کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔قانون اندھا ہوتا ہے مگر جن کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ اندھے نہیں ہوتے۔

 قانون نافذ کرنے کیلئے بناۓ گئے ادارے پتا نہیں کہاں نافذ کرتے ہیں۔ قانون توڑا بھی جاسکتا ہے مگر قانون توڑنے سے پہلے دیکھ لیں کہ آپ کا کوئی چاچا تایا وزیر ہے یا نہیں ،ورنہ قانون تو نہیں ٹوٹے گا اور تم ٹوٹ جاٶ گے۔قانون بنانے کیلئے خبر نہیں کیسا مادہ استعمال کیا جاتا ہے کہ جو طاقت کے سامنے بالکل نرم موم کی طرح جبکہ کمزور کیلئے فولاد سے زیادہ مضبوط ثابت ہوتا ہے۔ قانون کے سامنے بے سہارا و کمزور انسان جتنا بے بس ہوتا ہے۔طاقتور اور صاحب حیثیت کے سامنے قانون بھی اتنا ہی بےبس نظر آتا ہے۔قانون لوگوں کی حفاظت کیلئے بنایا جاتا ہے اور قانون کی حفاظت لوگوں کے سپرد کی جاتی ہے، اب سمجھ نہیں آتی کہ قانون انسان کی حفاظت کرتا ہے یا انسان قانون کی؟ سنا ہے کسی زمانے میں قانون کا ایسا راج بھی رہا ہے کہ جس کی گردن میں پھندا پورا آتا تھا وہی سزا پاتا تھا ۔یہ گزرے زمانے کی کہانی ہے جو آج بھی ہو بہو دہرائی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاید تاریخ کی طرح قانون بھی خود کو دہراتا ہو۔ قانون کو پڑھنے والے قانون دان کہلواتے ہیں ،۔اور کالے کوٹ میں گھومتے ہیں۔ہر جگہ سرخ رنگ خطرے کی نشانی کے طور پر مستعمل ہے مگر وطن عزیز میں کالا کوٹ خطرے کی نشانی بنتا جارہا ہے۔قانون دان بھی مچھر دانی جیسی ہی کوئی چیز ہوتی ہے جیسے مچھر دانی میں مچھر نہیں گھس سکتا ایسے ہی قانون دان کے نزدیک قانون نہیں جاسکتا۔ قانون چاہے جج کے روپ میں ہو یا پولیس کے روپ میں مگر قانون دان کے سامنے قانون دم مارنے کی جرات نہیں کرتا ورنہ کسی  صورت میں دم لینے کے قابل نہیں رہتا۔ جیسے عام لوگ مچھر سے بچنے کیلئے مچھر دانی کا استعمال کرتے ہیں ایسے ہی قانون شکن قانون سے بچنے کیلئے قانون دان کا استعمال کرتے ہیں۔ قانون دانوں کا سب سے بہتر استعمال 2008میں ہوا تھا اس کے بعد قانون دان قانون سے خالی ہوکے قانون کیلئے ہی خطرہ بن چکے ہیں۔

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply