مبارک ہو، بالآخر حلقہ این۔ اے 120 کو گمشدہ لواحقین مل ہی گئے۔ کچھ عرصہ پہلے اس کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ گلی محلے جوہڑ بنے نظر آتے تھے۔ گلے میں بجلی کی تاروں کے ہار لٹکائے، سڑکیں اپنی قسمت کو روتے نظر آتی تھیں۔ حالات اب بھی وہی ہیں، بس بھلا ہو این ۔اے 120 کی سیٹ خالی کروانے والوں کا جنہوں نے عوام کو ایک موقع اور دیا کہ اب اگر بدل سکتے ہو تو بدل ڈالو اپنی قسمت اور پھر ضمنی الیکشن کمپین شروع ہو گئی۔ ہمیشہ کی طرح ن لیگ نے سیٹ کیلئے اپنا گھر ہی چنا۔ بادشاہت میں تو پھر تخت اپنوں کو ہی ملتا ہے؛ تو یہ روایت برقرار رکھی گئی۔ دوسری جانب نیا پاکستان بنانے والے “پرانے ہتھیاروں” سمیت میدان میں اترے اور پھر دن رات دے دھنا دھن۔ اب یہ دے دھنا دھن کچھ لوگوں نے تو پیٹرول اور پیسے کی صورت میں کیا اور کچھ نے پھلوں اوردیہاڑیوں میں اضافے کی صورت میں۔ سرکاری مشینری بھی خوب استعمال میں لائی گئی اور این۔ اے 120 کے مختلف علاقوں میں جذباتی مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ میرے والد کو کیوں نکالا، ان کا کیا قصور تھا۔ وہیں پھر ان سے وعدے بھی لیے گئے کہ اس نااہلی کا جواب لو گے۔ عوام ہماری چونکہ رحم دل ہے، محبت کی ماری ہے تو مریم نواز کی جذباتی تقاریر پر دل پسیج گیا ہو گا اور پھر والدہ بھی تو علیل ہیں۔ اللہ انہیں صحت عطا کریں اور وہ واپس آ کر اپنے نااہل سرتاج کے “بزنس” ۔۔۔۔۔ اوہ معذرت ۔۔۔۔۔ سیاست کو آگے بڑھائیں۔ ویسے تو محترمہ کلثوم نواز ایک مہرے سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس مہرے کو کیسے اور کہاں چلنا ہے، یہ تو شطرنج کھیلنے والے بادشاہ سلامت بہتر جانتے ہیں۔
اس ضمنی الیکشن کی کمپین سے مستقبل کی سیاسی شخصیت کا نظارہ کروانا بھی مقصود تھا ۔جو لوگوں نے بہرحال بڑی دلجمعی سے دیکھا اور ساتھ دینے کے خوب وعدے بھی کئے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس الیکشن کمپین سے حمزہ شہباز کو الگ کیا گیا۔ وجہ کچھ بھی ہو، این ۔اے 120 تیس سالوں سے ن لیگ کا گڑھ رہا ہے ،تو بھلا پھر تیر اور بلا کہاں تک چلتا۔
“شیر اک واری فیر نہی چوتھی واری فیر”، یہ مریم نواز کے الفاظ تھے۔ لیکن 2013 کی نسبت جو ووٹوں کی تعداد اس بار ہے وہ بہت کم ہے اور یہی بات ن لیگ کیلئے لمحہ فکریہ ثابت بھی ہے۔ اس سے ایک بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں میں سیاست کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ میں بہتری آئی ہے۔ اس بار لوگ دیوانہ وار شیر کیلئے نہیں نکلے اور جو ووٹر ن لیگ کیلئے نکلے انہوں نے ایک چیز تو واضح کر دی ہے کہ آئندہ مستقبل میں وہ مریم نواز کو سیاست کے میدان میں اپنا لیڈر اور وزیرِ اعظم بنانے پر آمادہ ہیں۔ بقول مریم نواز اب وہ این ۔اے 120 کے مسائل کو ایک ایک کر کے حل کریں گی۔ اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ والدہ کی علالت کے باعث اب مریم نواز ہی ن لیگ کی کرتا دھرتا ہیں۔ اپنی فاتحانہ فاتحانہ تقریر میں انہوں نے کہا کہ سیاست کے میدان میں نظر آنے والی قوتیں اور جو نظر نہیں آ رہیں یہ ان کی بھی شکست ہے۔ اور یہ کہ مخالفین کا وار انہوں نے این ۔اے 120 کی فتح کی صورت میں سینے پر سجا لیا ہے۔ کمال ہے کہ یہ کون سی قوتیں ہیں جن کو مریم نواز للکار رہی ہیں اور کس کی شہہ پر؟ اور آخر الیکشن کمیشن نے کیا سوچ کر نااہل کئے جانے والے وزیرِ اعظم کی پارٹی کے حلقہ این۔ اے 120 کے امیدوار کے کاغذاتِ نامزدگی قبول کئے۔ اس کے علاوہ ن لیگ نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ پارٹی کے لوگوں کو منہ پر کالے کپڑے ڈال کر غائب کیا گیا۔
اب پتہ نہیں کون سی عمرو عیار کی ایسی زنبیل نکل آئی جس میں ن لیگیوں کو الیکشن سے ایک رات پہلے ہی غائب کر دیا گیا اور کیا ہی کمال کی بات ہے کہ پارٹی کے عہدیداروں نے ایف آئی آر تک نہ کٹوائی۔ یہاں ایک بات اور بھی قابلِ غور ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ این۔ اے 120 میں 43 امیدواروں کو کھڑا کیا گیا حالانکہ اپوزیشن جماعتوں کو مل کر کرپٹ لوگوں کو سیاست سے باہر کرنا چاہیئے تھا۔ شاید یہ امیدوار ووٹوں کو توڑنے کیلئے استعمال ہوئے لیکن ووٹ تو کیا ہی ٹوٹتے ،الٹا اکثر امیدوار اپنی ضمانتیں ہی ضبط کروا بیٹھے۔ کیا یہ ووٹ توڑنے سے زیادہ ووٹروں کو کنفیوژکرنے کی کوشش تو نہیں تھی۔ بھئی، اگر ایک بیلٹ پیپر پر 43 نشان ہونگے تو اپنا امیدوار ڈھونڈنے میں وقت تو لگے گا اور باہر دھوپ میں کھڑے ووٹر طویل وقت لگنے سے خود ہی گھروں کو چلے جائیں گے۔ چلیں چھوڑیں، دلِ متجسس کو تو ایسے ہی قیافے لگانے کی عادت سی پڑ گئی ہے۔
اس ضمنی الیکشن سے سیاست کی جو تازہ ترین تصویر سامنے آئی ہے اس میں مریم نواز پارٹی کی آئندہ صدر اور ملک کی وزیرِ اعظم نظر آ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پانامہ اقامہ کے فیصلے نے عمران خان کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا دے کر ضمنی الیکشن کے نتائج میں پی ٹی آئی کو دوسرے نمبر پر لا کھڑا کیا۔ یہیں پی پی پی کی مقبولیت کا گراف بھی بہت حد تک نیچے آیا ہے اور وجہ شاید زرداری صاحب کی عدم توجہ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پیپلز پارٹی میراتھن ریس کے کھلاڑی کی طرح اپنی تمامتر توانائیاں آخری مرحلے کیلئے بچائے ہوئے ہے؟ اب وقت ہے کہ تمام سیاسی قوتیں عوامی امنگوں کی ترجمانی کریں ورنہ “مجھے کیوں نکالا” کی معصومانہ صدا زیادہ عرصہ تک دلوں کو موم کرنے میں کامیاب نہیں رہ پائے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں