جزیرہ ۔ ایسٹر آئی لینڈ (2) ۔۔وہارا امباکر

ایسٹر آئی لینڈ ایک مثلث کی شکل میں قریب قریب واقع تین آتش فشاں پر مشتمل ہے جو سمندر سے باہر نکلتے ہیں۔ جب سے انسان یہاں آباد ہوئے، یہ خاموش ہیں۔ سب سے پرانے آتش فشاں پوئیکے سے آخری بار آتش فشانی عمل چھ لاکھ سال قبل ہوا تھا جبکہ نئے آتش فشاں رانو کو میں ہونے والی ٹیریکاوا ارپشن دو لاکھ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس سے نکلنے والے لاوا یہاں کے پچانوے فیصد رقبہ کور کرتا ہے۔ چھیاسٹھ مربع میل کے جزیرے کی سطح پولینیشیا کے دوسرے جزائر کے مقابلے میں ہموار ہے۔ پیدل پورے جزیرے میں جایا جا سکتا ہے۔ آتش فشانی مٹی کی وجہ سے زمین زرخیز ہے۔ موسم دوسرے جزائر کے مقابلے میں کم گرم ہے اور خوشگوار ہے۔ یہ کبھی جنت نظیر ہو گا۔ باقی دنیا کے مسائل سے لاتعلق۔ لیکن یہاں پر پولینیشیا آنے والوں کو کچھ منفرد مسائل کا سامنا رہا ہو گا۔

پولینیشیا سے آنے والی کئی فصلیں، جیسا کہ ناریل یہاں نہیں اگ سکے ہوں گے۔ سمندر سرد ہونے کی وجہ سے کورل ریف نہیں جس کی وجہ سے اس کے ساحلوں پر مچھلیاں کم ہیں۔ تیز ہوا چلنے کی وجہ سے پکنے سے پہلے دانے گرنے کی وجہ سے زرعی پیداوار میں کمی ہوتی ہے۔ سالانہ بارش 1300 ملی میٹر ہے جو باقی دنیا کی اوسط سے تو کم نہیں لیکن پولینیشیا کے دوسرے جزائر سے کم ہے۔ یہ آتش فشانی مٹی میں جذب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے پانی کے ذرائع محدود ہیں۔ ایک ندی، کچھ تالاب۔ کنویں کھود کر اور کچھ چشموں سے پینے، پکانے اور زراعت کے لئے پانی حاصل تو کر لیا گیا لیکن یہ محنت طلب کام تھا۔

مچھلی پکڑنے کے کانٹے، پتھر کی کلہاڑیاں، ہارپون اور دوسرے اوزار پولینیشیا سے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ زبان پولیشین ہے اور بارہ دفن شدہ ڈھانچوں سے حاصل شدہ ڈی این اے کا تجزیہ بتاتا ہے کہ نو بیس پئیر کی ڈیلیشن اور تین میں ایک خاص فرق وہی ہے جو پولیشین لوگوں کی صاف نشانی ہے۔ کیلا، اروی، گنا، شکرقندی اور شہتوت کی کاشت کی جاتی رہی اور واحد پالتو جانور مرغی رہا۔ یہ بھی پولینیشین کلچر کی غمازی تھی۔

پولینیشیا کے جزائر میں انسانوں کا پھیلاوٗ ڈرامائی طور پر 1200 قبلِ مسیح کے بعد ہوا۔ سمندری سفر کرنے والے اور زراعت کرنے والے لوگ بحرالکاہل کے جزیروں میں پھیلنے لگے۔ نیو گنی سے نکل کر فیجی، ساموا، ٹونگا تک آئے۔ ان کے پاس قطب نما یا دھات کے اوزار یا لکھائی نہیں تھی لیکن یہ ماہر ملاح تھے جو سمت شناسی اور کشتی رانی کا فن جانتے تھے۔ برتن، اوزار، گھروں اور عبادت گاہوں کی باقیات، خوراک کا کچرا اور انسانی ڈھانچے اس پورے سفر کا راستہ اور وقت بتا دیتے ہیں۔ سن 1200 تک اس وسیع و عریض سمندر میں تمام قابلِ رہائش جزائر آباد کر لئے گئے تھے جس میں نیوزی لینڈ، ہوائی اور ایسٹر آئی لینڈ شامل تھے۔

ایک وقت میں مورخین کا اندازہ تھا کہ یہ دریافتیں حادثاتی تھیں۔ مچھیروں کی کشتیاں راہ بھٹک کر پہنچ گئی لیکن اب یہ واضح ہے کہ دریافتیں اور پھر آبادکاری بڑی تفصیلی پلاننگ کے ساتھ ہوئیں۔ اس رخ پر سفر کئے گئے جو سمندری کرنٹ نہیں۔ ہوا کا سفر کے لئے موافق ہونے کا انتظار کیا گیا۔ فصلیں اور جانور ساتھ لے جائے گئے۔ نئی کالونی میں جا کر آباد ہونے کا سازوسامان رکھا گیا۔

پولینیشین کشتیوں (ہوکولیا) پر 1999 میں منگاریوا جزیرہ سے ایسٹر آئی لینڈ کا سفر سترہ روز میں کیا گیا۔ ہمارے لئے یہ تصور مشکل ہے کہ نو میل چوڑے کو سوائے اتفاقی حادثے کے، اور کیسے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خشکی کے باسی ہیں۔ سمندری پرندوں کی اڑان خشکی کا پتہ سو میل دور سے دے دیتی ہے۔ ان سمندری مہم جووٗں کے لئے دریافت کا قطر دو سو میل تھا۔

ایسٹر آئی لینڈ سن 900 میں آباد ہوا۔ یہ تاریخ چلائی جانے والی لکڑی کے اور کھائی جانے والی ڈولفن کی ہڈیوں کے تجزیے سے نکالی گئی ہیں۔ اناکینا کے ساحل پر آرکیولوجیکل تہہ اس کا بتاتی ہے۔ ہڈیوں سے تاریخ ڈھونڈنے کا یہ کام ایکسلیریٹر ماس سپیکٹروسکوپی سے کیا گیا۔ سب سے پہلے یہاں کے مقامی پرندے کھائے گئے۔ یہ جلد ہی ختم ہو گئے۔ ڈولفن کو شکار کرنے کے لئے کشتیاں بھی جلد ختم ہو گئیں۔ یہ آثار آرکیولوجیکل تہوں سے ملتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب یورپی یہاں پہنچے تو لوگ زراعت پر گزارا کرتے تھے۔ سمندری پرندے، خشکی کے پرندے اور ڈولفن ابتدائی رہائشیوں کو میسر تھیں لیکن یہ بعد میں ختم ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی غذا میں کاربوہائیڈریٹ زیادہ تھا۔ صاف پانی کے ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے گنے کے رس کا استعمال صورتحال مزید خراب کرتا تھا۔ دانتوں کی بیماریاں ان کو کسی بھی دوسری تہذیب کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھیں۔ چودہ سال کی عمر میں کیڑا لگے دانت ملے ہیں جبکہ بیس سے تیس سال کی عمر میں ہر ایک کے دانتوں کو کیڑا لگ چکا ہوتا تھا۔

یہاں کی آبادی نکالنے کے لئے گھروں کی بنیادیں گن کر تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ اپنے عروج کے وقت پندرہ سے تیس ہزار کے درمیان تھی۔ زراعت کے لئے ندی پر پتھروں سے باندھے گئے بند، کھاد بنانے کے لئے گڑھے اور 1323 مرغی خانے یہاں کے لوگوں کا طرزِ زندگی بتاتے ہیں۔ بڑے پتھر رکھ کر تیز ہوا سے فصلوں کو محفوظ رکھا جاتا تھا۔ پتھریلے باغات کی زراعت کا منفرد طریقہ یہاں کے موسم کی وجہ سے تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پولینیشیا کے باقی جزائر کی طرح یہاں کا روایتی معاشرہ بھی چیف اور عوام میں تقسیم تھا۔ یہ فرق گھروں کی تعمیر دیکھ کر واضح ہے۔ یہاں کی زمین گیارہ یا بارہ علاقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ہر علاقہ ایک قبیلے کا تھا۔ یہ بانٹ اس طریقے سے ہوئے تھی جیسا کسی پیزا کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں۔ ہر علاقے کا اپنا چیف تھا۔ اپنا بڑا پلیٹ فارم تھا اور اپنے مجسمے تھے۔ پلیٹ فارم اور مجسمے بنانا قبائل کے درمیان ہونے والی پرامن مقابلہ بازی تھی۔ کبھی یہ زبردست لڑائی کا رخ بھی لے لیتی تھی۔ لیکن مذہبی، معاشرتی اور سیاسی اتحاد بڑی حد تک رہا تھا۔ یہ مقامی لوگوں کی زبانی روایات سے بھی پتا لگتا ہے اور آرکیولوجیکل شواہد بھی اس کو سپورٹ کرتے ہیں۔ پتھروں کا میٹیریل کسی کے علاقے میں تھا۔ پلیٹ فارم کا کسی اور میں، مچھلیاں پکڑنے کے لئے ساحل شمال میں تھا۔ اور یہی جگہ زراعت کے لئے اچھی نہیں تھی۔ لکڑی، کورل، سرخ گیرو، شہتوت کی چھال (جس سے لباس بنایا جاتا تھا) بھی مختلف علاقوں میں یکساں نہیں تھے۔

آج ہم اس چیز کو عام سمجھ لیتے ہیں کہ مختلف علاقوں سے گزرتے راستے پر سفر معمولی چیز ہے۔ لیکن تاریخ میں ایسا نہیں رہا۔ اجازت کے لئے صلح صفائی، معاملہ کرنا اور ایک علاقے کے وسائل کو دوسرے کا استعمال کرنا پیچیدہ معاشرت مانگتا ہے جو قدیم معاشروں میں کم ہی نظر آتی ہے۔

یہ اس جزیرے کا پس منظر تھا جس کے رہائشیوں نے حیران کن تعمیرات اپنے زورِ بازو سے کیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply