بریک لیس لوگ۔۔جاوید چوہدری

یہ بہت خطرناک ہے‘غدار ہے لیکن میں نہیں ہوں“ نوجوان نے ساتھی کی طرف اشارہ کیا اور زبردست قہقہہ لگایا‘ دوسرا نوجوان پریشانی میں اسے کہنی مارنے لگا اور میں حیرت سے کبھی ایک کو دیکھتا تھا اور کبھی دوسرے کو‘ ہم مال میں کھڑے تھے‘ میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر اے ٹی ایم فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھااور دونوں نوجوان آگئے‘ وہ سیلفی لینا چاہتے تھے‘ سیلفی دنیا کی واحد واہیات چیز ہے جسے میں ناپسند کرنے کے باوجود کسی کو انکار نہیں کرتا۔

مجھے کوئی بھی کسی بھی وقت روک لے میں رک جاتا ہوں اور جب تک وہ مطمئن نہ ہو جائے میں وہاں کھڑا رہتا ہوں‘ لوگ پبلک ٹوائلٹس تک میں اس سہولت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور

میں پریشر کے باوجود منہ پر سمائل چپکاکر موبائل فون کے کیمرے میں دیکھتا رہتا ہوں‘آپ میری فیاضی ملاحظہ کیجیے‘ میں نے کئی مرتبہ ”یوری نیر“پر کھڑے ہو کر بھی سیلفی بنوائی ہے۔میں اتنا فیاض کیوں ہوں؟ اس کی وجہ بالی ووڈ کے اداکار بومن ایرانی ہیں‘ آپ کو منا بھائی ایم بی بی ایس کا ڈاکٹر آستھانہ اور تھری ایڈیٹس کا پروفیسر وائرس یاد ہو گا‘ یہ دونوں کردار بومن ایرانی نے نبھائے تھے‘ یہ قدرتی اداکار ہیں اور کمال اداکار ہیں لیکن ان کی کہانی ان کی اداکاری سے کہیں زیادہ جان دار‘ کہیں زیادہ انسپائرنگ ہے‘ یہ 35 سال کی عمر تک فٹ پاتھ کے چھوٹے سے فوٹو گرافر تھے‘ پانچ دس روپے کے لیے فوٹو بناتے تھے‘ یہ فوٹو گرافی سے پہلے نالائق طالب علم اور مکمل ناکام شخص بھی تھے‘ یہ سات سال تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کرتے رہے‘ پیسے اکٹھے ہو گئے تو یہ اپنی بیوی اور بچوں کو چھٹیوں کے لیے شملہ لے گئے‘ یہ خاندان کی پہلی چھٹیاں اور پہلا ہل سٹیشن تھا‘ بچے اور بیگم جذباتی ہو رہے تھے‘ رقم کم تھی لہٰذا یہ خاندان کو سستے ہوٹل میں لے گئے‘ ہوٹل فضول سے بھی کہیں زیادہ فضول نکلا‘ کمرے میں زیرو کا بلب لگا تھا‘ باتھ روم میں پانی لیک کر رہا تھا اور بیڈز سے بدبو آ رہی تھی۔

خاندان نے وہ رات بہت اذیت میں گزاری‘ صبح اٹھ کر بومن ایرانی نے فیصلہ کیا میری زندگی میں زیرو کا یہ بلب دوبارہ نہیں آئے گا‘ یہ خاندان کولے کر ممبئی واپس آ گئے اور دن رات ایک کر دیا‘ انڈیا میں اس وقت باکسنگ کا انٹرنیشنل کپ ہو رہا تھا‘ یہ میچ کے مفت فوٹو گرافر بن گئے‘ یہ دن رات ہر وقت رِنگ کے دائیں بائیں رہتے تھے‘ یہ کمٹمنٹ ایسوسی ایشن کے دروازے پر دستک دیتی رہی‘ انتظامیہ کو ان پر رحم آ گیا‘ پہلی اسائنمنٹ ناروے کے باکسر نے دی۔

بومن ایرانی نے مکے کے ساتھ اس کے چہرے سے گرتے پسینے کے قطروں کی تصویر بنانی تھی‘ یہ عام کیمرے کے ساتھ ناممکن کام تھا لیکن بومن ایرانی نے یہ کر دیا‘ یہ تصویریں ناروے کے میگزینز میں شائع ہوئیں‘ انہیں تین سو ڈالر معاوضہ ملا اور یہ تین سو ڈالر انہیں کام یابی کی سیڑھی پر لے آئے‘ یہ 42سال کی عمر میں فلموں کی دنیا میں آئے اور کمال کر دیا‘ منا بھائی ایم بی بی ایس ان کی پانچویں فلم تھی‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی انہیں اس فلم کے بعد بیسٹ پرفارمنس ایوارڈملا۔

بومن ایرانی نے ایوارڈ وصول کرنے جانا تھا لیکن ان کے پاس پہننے کے لیے سوٹ نہیں تھا لہٰذا زندگی کا پہلا سوٹ انہیں ارشد وارثی نے گفٹ کیا تھا‘ مجھے ان کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ بومن ایرانی نے اس انٹرویو میں مشہور ہونے والے نئے لوگوں کو مشورہ دیا ”میں زندگی بھر لوگوں کی تصویریں بناتا رہا لیکن میرے ساتھ کوئی تصویر نہیں بنواتا تھا پھر مالک نے کرم کیا اور مجھے اس قابل بنا دیا‘ میں اس لیول پر بڑی مشکل سے پہنچا ہوں چناں چہ میں کسی کو ناں نہیں کہتا۔

لوگ سارا دن میرے ساتھ تصویریں بناتے رہتے ہیں میں ان کے ساتھ دھوپ‘ برسات اور ٹھنڈ میں کھڑا رہتا ہوں‘ کسی کو انکار نہیں کرتا کیوں کہ یہ مالک کا خاص کرم ہے‘ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جن کے ساتھ لوگ تصویر بنوانا چاہتے ہیں‘ مالک نے ہمیں ان میں شامل کر دیا‘ یہ اس کا کرم‘ اس کی مہربانی ہے چناں چہ میں تصویر سے انکار کو تکبر سمجھتا ہوں‘ میں اسے کفران نعمت سمجھتا ہوں اور مالک کو تکبر پسند نہیں“ بومن ایرانی کے یہ لفظ میرے دل پر نقش ہو گئے اور میں کوشش کرتا ہوں میں بھی ان پر جتنا ہو سکے پورا اتروں۔

میں دو نوں جوانوں کی طرف واپس آتا ہوں‘ وہ دونوں سیلفی لینے کے لیے آئے‘ میں نے اپنی مسکراہٹ پیش کر دی‘ تصویر بن گئی تو ایک نوجوان دوسرے نوجوان کی طرف اشارہ کر کے بولا ”یہ پی ٹی ایم کا ورکر ہے لیکن میں نہیں ہوں“ میں نے ہنس کر ٹال دیا‘ وہ دوبارہ بولا ”یہ غدار ہے‘ یہ بڑا خطرناک ہے“ میں نے ہنس کر کہا ”میں اور آپ یہ فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں“۔ نوجوان باز نہ آیا اور بولا ”یہ بہت خطرناک ہے‘ آپ نہیں جانتے“۔

دوسرا نوجوان بار بار پہلے کو کہنی مار رہا تھا مگر اس کے بریکس فیل ہو چکے تھے اور وہ مسلسل اپنے دوست کی بے عزتی کرتا جا رہا تھا‘ میں نے ”خطرناک“ نوجوان کی طرف دیکھا اور اس سے پوچھا ”کیا یہ آپ کے دوست ہیں“ وہ بولا ”جی سر“ میں نے پوچھا ”کتنے عرصے سے دوست ہیں“ وہ بولا ”پانچ چھ سال سے“ میں نے اس سے عرض کیا ”جناب پھر آپ اپنا دوست تبدیل کرلیں‘ یہ شخص آپ کا دوست نہیں دشمن ہے“ دوسرا نوجوان حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا۔

میں نے عرض کیا ”دوستوں کو دوسروں کے سامنے دوستوں کی عزت میں اضافہ کرنا چاہیے جب کہ یہ میرے سامنے آپ کی بے عزتی بھی کر رہا ہے اور آپ کو مشکوک بھی بنا رہا ہے‘ یہ کام تو دشمن کرتے ہیں“ دوسرا نوجوان تھوڑا سا شرمندہ ہوا اور بولا ”ہم دونوں فرینک ہیں‘ میں مذاق کر رہا تھا“ میں نے ہنس کر جواب دیا ”فرینک نیس میں بھی دوستوں کی کردار کشی نہیں کی جاتی‘ اس کی جگہ اگر آپ کا کوئی دشمن ہوتا تو کیا آپ اس کے ساتھ اس نوعیت کے مذاق کی جرات کرتے؟ہرگز نہ کرتے چناں چہ انسان کو دوستوں کے معاملے میں دشمنوں سے زیادہ محتاط ہونا چاہیے“ میں یہ کہہ کر وہاں سے نکل آیا لیکن وہ دونوں میرے ذہن سے نہیں نکل سکے۔

ہم مجموعی طور پر اس رویے کا شکار ہیں‘ آپ کسی محفل میں بیٹھ جائیں آپ کو دوست دوستوں کو بے عزت کرتے نظر آئیں گے‘یہ ان کا مذاق بھی اڑائیں گے اور ان کے عیب بھی سرعام بیان کریں گے‘ پنجاب اس سلسلے میں بدترین صوبہ ہے‘ ہم پنجابی لوگ دوست کو جب تک گالی نہ دے لیں ہمارا حق دوستی ادا نہیں ہوتا‘ آپ کسی گلی میں کھڑے ہو جائیں‘ آپ کو کوئی نہ کوئی شخص کسی نہ کسی دوست کو ”اوئے تو۔۔۔۔کہاں تھا (نوٹ: خالی جگہ ہمشیرہ کا ذکر ہے) کہتا ہوا مل جائے گا۔

پنجابی دنیا کی واحد زبان ہے جس میں میٹھی اور کڑوی دو قسم کی گالیاں ہیں مثلاً ہم پیار سے کسی کوبھی کنجر یا حرامی کہہ سکتے ہیں‘ پنجاب کے ننانوے فیصد والدین اپنے بچوں کو اکثر یہ خطاب دیتے رہتے ہیں اور بچوں کو بھی جب والد پر بہت پیار آتا ہے تو وہ بھی والد محترم کو کنجر کہہ دیتے ہیں‘ آپ اگر اسی طرح بہن اور ماں کی گالی کو پنجابی سے نکال دیں تو یہ زبان مکمل بیوہ ہو جائے گی‘ میں مدت سے اس عظیم انسان کو تلاش کر رہا ہوں جس نے ہمیں بتایا تھا‘ہم اگر کسی انسان سے مخلص ہیں تو پھر ہمیں اس کے منہ پر اس کی مذمت کرنی چاہیے اور پیٹھ پیچھے تعریف۔

دنیا میں اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ آپ دوست کے سامنے دوستی کے سارے پردے چاق کر دیں اور تنہائی میں اس کے آنسو پونچھتے رہیں! دوستی ہمارا واحد رشتہ ہے جو ہم خود منتخب کرتے ہیں‘ باقی رشتے ہمیں قدرت سے ملتے ہیں لیکن ہم اس میں بھی احتیاط نہیں کرتے‘ ہم دوستی کے نام پر بھی اپنی دم پر پٹاخے باندھ لیتے ہیں اور ہم اپنی بے عزتی ساتھ لے کر گلیوں میں چلنے پھرنے لگتے ہیں۔میرے پاس چند ماہ قبل آئس لینڈ سے ایک صاحب تشریف لائے‘ وہ باریش اور پابند صوم وصلوٰۃ تھے۔

وہ غلطی سے اپنے ایک دوست کو بھی ساتھ لے آئے تھے‘ دوست نے بیٹھتے ہی دوست کے کپڑے اتارنا شروع کر دیے‘ میں باریش شخص کو عزت سے حاجی صاحب کہہ رہا تھا اور ان کا دوست ہر بار یہ سن کر قہقہہ لگاتا تھا اور کہتا تھا ”چودھری صاحب یہ بڑا۔۔۔۔۔ ہے‘ آپ اس کو نہیں جانتے (خالی جگہ پر دوبارہ ہمشیرہ کا ذکر ہے) وہ بار بار بات کاٹ کر کہتا تھا آپ اس سے پوچھیں اس نے داڑھی کیوں رکھی تھی اور یہ آئس لینڈ کیوں گیاتھا؟ میں برداشت کرتا رہا جب برداشت جواب دے گئی تو میں نے اپنے بیٹے کو بلا لیا۔

اسے دونوں کے سامنے بٹھایا اور اس سے کہا ”تم ان دونوں کو اچھی طرح دیکھ لو‘ ان کی شکلیں حفظ کر لو اور پھر میری بات پلے باندھ لو‘ جو شخص دوسروں کے سامنے آپ کی عزت کا خیال نہیں رکھتا وہ آپ کا دوست نہیں ہو سکتا‘ وہ دشمن سے بھی بدتر ہے‘زندگی میں اس سے پرہیز کرو اور جتنا جلدی ہو سکے اس سے جان چھڑا لو‘ دوسرا انسان جب کسی شخص کو اپنے ساتھ لے کر کسی شخص کے پاس جاتا ہے تو ساتھ جانے والے کو اس کی عزت میں اضافہ کرنا چاہیے۔

اسے اس کی بے عزتی کا باعث نہیں بننا چاہیے چناں چہ جب بھی کسی شخص کو ساتھ لے کر چلو تو پہلے یہ دیکھ لو کیا اس کے منہ میں بریک ہے‘یہ کہیں آپ کی بے عزتی کا باعث تو نہیں بن جائے گا اور وہ شخص اگر بریک لیس ہے اور وہ اگر ماں بہن کی گالی کو فرینک نیس سمجھتا ہے تو پھر اس کے ساتھ مسجد بھی نہ جاؤ کیوں کہ وہ تمہاری عبادت کو بھی عبادت نہیں رہنے دے گا‘ وہ اسے بھی مذاق بنا دے گا“میرے مہمان ناراض ہو گئے لیکن سوال یہ ہے کیا میں نے غلط کہا تھا؟ یہ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاوید چوہدری

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply