اَت خدا دا ویر۔۔سہیل وڑائچ

آپ نے چھوڑا کس کو ہے؟ بیورو کریٹس کو پکڑا، بزنس مینوں کو پکڑا، سیاست دانوں کو پکڑا، آ جا کے صحافی باقی بچے تھے آپ نے ان میں سے ایک کو پکڑ کر دل کی یہ مراد بھی پوری کرلی۔ تاریخ کی پوری صدی کا جائزہ لیں تو پندرہ سولہ ماہ میں کبھی اتنی گرفتاریاں، مقدمات اور الزامات بروئے کار نہیں آئے ہوں گے جو آپ روبہ عمل لے آئے ہیں۔

نواز شریف کو پکڑا، اس کا ایئر کنڈیشنر بند کیا، گھر کی روٹی بند کی، وہ نہ ٹوٹا بیمار ہو گیا تو آپ کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اسے باہر بھیجنے کے لئے منتیں ترلے کئے، وہ باہر چلا گیا اسے آپ نے خود بھیجا مگر اب آپ کہتے ہیں کہ اسے فوراً واپس لانا ہے۔ اگر یہی کچھ کرنا تھا تو بھیجا ہی کیوں تھا، جیل ڈالنے کا شوق تھا تو اسے جیل میں ہی مرنے دیتے، ڈر کیوں گئے؟

زرداری کو پکڑا، اربوں روپے کی کہانیاں سنائیں، عدالتوں نے ضمانت دی، نہ اربوں روپے سامنے آئے، نہ ایک دمڑی کی ریکوری کر سکے، زرداری اب بھی کراچی میں بیٹھا آپ کے سینے پر مونگ دَل رہا ہے۔ بیوروکریٹس کی سن لیں، فواد حسن فواد کو ولن کے طور پر پیش کیا گیا، اب خود ہی اسے اگلے گریڈ میں ترقی دی ہے، وہ ضمانت پر رہا بھی ہو چکا ہے، کوئی ایک مقدمہ ثابت نہیں ہو سکا، نہ کسی الزام پر سزا ملی۔

احد چیمہ کو اس قدر رگڑا لگایا، بال کی کھال اتاری گئی، اسے وعدہ معاف بنانے کی کہانیاں شائع کروائی گئیں مگر ابھی تک کیا ہوا ہے، ڈھاک کے وہی تین پات۔ اس ملک کے ہر شخص کے خلاف الزام لگ سکتا ہے، کوئی بھی گرفتار ہو سکتا ہے، کسی پر بھی شک کیا جا سکتا ہے، بس ایک ہی شخص ان تمام باتوں سے بالاتر ہے، وہ چاہے تو اپنے ہی ساتھیوں پر الزامات کے طومار باندھ دے، چاہے تو ملزم کو بےگناہ قرار دے دے اور چاہے تو بےگناہ کو ملزم قرار دے دے، وہ جو چاہے کرے، اسے ہر طرح کی آزادی ہے۔ ایسی صورتحال پر پنجابی کا یہ قول صادق آتا ہے’’اَت خدا دا وَیر‘‘۔

آپ بہت اونچے اور بڑے ہیں، تنقید کا کوئی لفظ یا اصلاح کی کوئی تجویز آپ تک پہنچ نہیں پاتی، آپ کے ارد گرد ایسے ’’چمچوں اور برائون صاحبوں‘‘ کا گھیرا ہے جو آپ تک حق اور سچ کی کوئی آواز پہنچنے ہی نہیں دیتے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ احتساب کے نام پر جس کو چاہیں عتاب کا نشانہ بنا سکتے ہیں مگر آپ کو علم نہیں کہ احتساب کا نام اس قدر بدنام ہو چکا ہے کہ جس کو بھی نیب گرفتار کرتی ہے وہ نیب کا ملزم بنتے ہی تاریخ میں ہیرو کا درجہ پا لیتا ہے۔

وہ دن گئے جب احتساب کو کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے عزت حاصل تھی، اب تو احتساب کا ادارہ کسی کے ہاتھ کی لاٹھی اور کسی کی جیب کی گھڑی بن چکا ہے۔ اب یہ ادارہ کسی قانون پر نہیں بلکہ کسی کے چشمِ ابرو پر چلتا ہے، اس لئے اب اس ادارے کے احکامات کی کوئی قانونی یا اخلاقی حیثیت نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتقامی ادارہ ہے جس کا مقصد صرف اور صرف مخالف آوازوں کو دبانا ہے۔

مانا کہ سب آپ کو مانتے ہیں، سر تسلیمِ خم کہ کئی دہائیوں کے بعد سب آپ کے ساتھ ایک صفحے پر ہیں، یہ بھی درست کہ آپ کو 5 سال کا مینڈیٹ حاصل ہے، یہ بھی قبول کہ آپ کو اپوزیشن کی طرف سے کوئی بڑا چیلنج درپیش نہیں، یہ بھی سچ کہ مغربی دنیا افغانستان امن معاہدے کی وجہ سے یہاں کے اندرونی معاملات پر اغماض برتے گی، یہ کہنا بھی صحیح کہ تحریک انصاف کے اندرون و بیرون ملک حامی تاحال آپ کے غلط یا صحیح ہر اقدام پر تالیاں بجاتے ہیں.

یہ بھی پتھر پر لکیر کہ عوام ابھی تک آپ کو صاف اور شفاف مانتے ہیں، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ آپ کو ابھی اور وقت ملنا چاہئے مگر جناب والا! دوسرا رخ یہ بھی کہتا ہے کہ ابھی تک ریاست اور حکومت کا سرکش گھوڑا آپ کے قابو میں نہیں آ رہا، گورننس کا کوئی کارنامہ یا ملک میں بنیادی تبدیلی لانے والی کوئی پالیسی نہ تو سامنے آئی ہے اور نہ ہی زیر غور ہے۔

تمام تر کوششوں کے باوجود مہنگائی بڑھتی سے بڑھتی جا رہی ہے، ڈالر کی شرح تبادلہ اب بھی پریشان کن ہے، معیشت کے خوش رنگ ہونے کا دور دور تک امکان نہیں، بزنس مین کا ملک کی معاشی فضا پر اعتماد تاحال بحال نہیں ہو سکا، بلدیاتی ادارے توڑنے کے بعد ابھی تک نئے الیکشن کی داغ بیل تک نہیں ڈالی گئی، ملک کی برسر اقتدار جماعت پی ٹی آئی اندرونی اختلاف کی وجہ سے موثر تنظیم کی حامل نہیں، پی ٹی آئی کی تنظیم کسی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

ترازو کے پلڑوں میں خامیاں زیادہ اور خوبیاں کم ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت اپنی کارکردگی میں اضافہ کرکے ترازو کا پلڑا اپنی مثبت خوبیوں کے حق میں جھکا لے مگر ہو الٹا رہا ہے۔ احتساب اور انتقام کے نام پر پکڑ دھکڑ سے معاشرتی یگانگت کے بجائے نفرت، غصہ اور ردِ عمل پھیل رہا ہے، اس طرح کے جذبے حکومتوں کے لئے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔

یاد رکھنا چاہئے کہ سروں کے مینار تعمیر کرنے سے آپ وقتی طور پر فتح یاب ہو جاتے ہیں لیکن اس پُرتشدد رویے کا ردِعمل بھی پُرتشدد ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اَت، خدا دا وَیر ہوتا ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ، عام آدمی ہو یا لیڈر اس کو معاملات آخری انتہا تک نہیں لے جانے چاہئیں کہ کہیں قہرِ خداوندی کو دعوت نہ دیدے۔

محسوس یوں ہو رہا ہے کہ سیاست، معیشت اور صحافت کے معاملات بند گلی کی طرف جا رہے ہیں، سیاسی جماعتیں شدید مایوسی اور ڈپریشن میں ہیں، معیشت گھٹن کا شکار ہے اور ہر خاص و عام معاشی صورتحال سے پریشان ہے، اب صحافت کی آزاد آوازوں کے ذریعے لوگوں کی فرسٹریشن کسی حد تک دور ہو جاتی تھی.

صحافت کا گلا گھونٹ کر لوگوں کو گونگا، بہرا اور اندھا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا لازمی ردِعمل ہوگا۔ کاش حکومت، نیب اور ادارے ہوش کے ناخن لیں، معاشرے میں انارکی، ڈپریشن اور انتقام کی آگ بڑھانے کے بجائے محبت، یگانگت اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے، گرفتاریاں بہت ہو چکیں، سزائیں بہت ہو چکیں، الزامات بھی بہت لگ چکے، اب حکومت آسانیاں دے، معیشت، سیاست اور صحافت کو آزاد کرے، وگرنہ ’’اَت خدا دا ویر…‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply