یہ گرد بیٹھ جائے تو۔۔عبدالحنان

یہ گرد بیٹھ جائے تو معلوم کر سکوں
آنکھیں نہیں رہیں،کہ تماشا نہیں رہا

عباس تابش کے اس شعر کے مصداق ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے دیکھ رہا ہوں۔ ہر طرف ایک ہنگامہ سا برپا ہے۔ ہر کوئی تنور گرم دیکھ کر اس میں روٹیاں لگانے کے لیے لپک لپک کر آ رہا ہے۔ اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جا رہا ہے۔ میڈیا، اینکرز، شوبز سٹار اور ایکٹویسٹ اس معاملے کی آرڑمیں اپنے فالورز بڑھانے اور ریٹنگ کے نئے ریکارڈ بڑھانے کے لیے باجماعت خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد والے واقعے میں کود پڑے ہیں۔ ہر کوئی پچھلے ایک ہفتہ سے اپنے اپنے مورچے سنھبالے مخالفین پر لفظی گولہ باری برسائے جا رہا ہے۔ طرفین سے ابھی تک سفید جھنڈا کسی نے بھی نہیں لہرایا اور نہ ہی کسی باشعور شخصیت نے آگے بڑھ کر صلح کی کوشش کی ہے۔ ابھی تک جو بھی آگے بڑھا ہے وہ اپنے مفادات اور بغض میں مبتلا ہوا ہاتھ میں لٹھ لے کر نکلا ہے۔ چاہے وہ خلیل الرحمن قمر کی طرف سے فلم میں نہ لی جانے والی اداکارہ مائرہ خان، ان کے مخالف ڈرامہ نویس ہوں، این جی اوز میں کام کرنے والوں پر مشتمل خواتین و حضرات ہوں یا پھر روشن خیالی کے علم بردار افراد ہوں۔ ان سب نے یک زبان ہو کر جنبشِ انگوٹھے سے خلیل الرحمن کو ہی غلط گردانا ہے۔ کسی ایک نے بھی ماروی سرمد کے اس فعل کی مذمت نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کوئی باشعور شخص باہر نکلتا اور دونوں جانب والوں سے کہتا تمہارے بڑوں نے غلط کیا ہے۔ خلیل اور ماروی دونوں کی ہی زبان انتہائی بیہودہ اور قابل مذمت تھی۔ لیکن کسی نے صرف ماروی کو غلط کہا تو کسی نے خلیل کو ہی غلط گنا۔ بہت کم لوگ اس معاملے میں دونوں طرف والوں کی مذمت کرتے نظر آئے ہیں۔ یہ بھی صرف وہ شخصیات تھیں جن کا دونوں طرف والوں سے کوئی ذاتی یا کسی بھی طرح کا دوسرا مفاد منسلک نہیں ہے۔

میں اس انتظار میں تھا کب زمانے کے بیل کی گردش رکے تو میں بات کروں۔ ایک ہفتے سے میرے کان اور آنکھیں یہ سب کچھ سننے اور دیکھنے کو ترس رہی ہیں کب خلیل الرحمن قمر کی بھرپور مذمت کرنے والے لوگ ماروی سرمد کو بھی اسی طرح برا بھلا کہیں گے۔ جیسے وہ خلیل الرحمن قمر کی مذمت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں لگے ہوئے ہیں۔
دوسری طرف جو لوگ ماروی سرمد کو غلط کہہ رہے ہیں ان میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے خلیل الرحمن کو غلط نہیں کہا ہو گا۔ کیونکہ ماروی کی مذمت کرنے والے تو پہلے ہی خلیل الرحمن کو ناپسند کرتے ہیں شدید نرگسیت میں مبتلا ہونے پر اس پر تنقید میں ہر اوّل دستہ میں شمار ہوتے ہیں۔ نہ ہی ان کا ماروی سے اور نہ ہی خلیل الرحمن قمر سے کسی طرح کا مفاد منسلک ہے۔
دوسری طرف ماروی سرمد کو ہیروئن بنانے والوں میں سب کے ہی خلیل الرحمن قمر پر تنقید سے مفادات منسلک ہیں۔ کسی کو فلم سے نکالا کسی ڈرامہ نویس کا ڈرامہ اس کے سامنے بری طرح پٹ چکا ہے۔ کسی کو اس کی بڑھتی ہوئی شہرت سے خطرہ ہے تو کسی کو اپنے پروگرام کی ریٹنگ بڑھانی تھی۔ کیونکہ ریٹنگ میٹر تو کچھ مخصوص علاقوں میں لگے ہوئے ہیں۔

ایسا کوئی شخص جس کا تعلق میڈیا سے ہو یا شوبز سے ہو اور وہ خلیل الرحمن قمر کے ساتھ کام کررہا ہو اور اُس نے آکر اس پر تنقید کی ہو تو راقم ایسے لوگوں کا دیدار ضرور کرنا چاہے گا۔ پاکستان کی شوبز انڈسٹری کے سب سے کامیاب اداکار ہمایوں سعید، اداکارہ مہوش حیات ہے اور کامیاب ڈائریکٹر ندیم بیگ ہیں(یہاں کامیابی کے تناسب کے لحاظ سے بات ہو رہی ہے)۔ یہ تینوں لوگ خلیل الرحمن قمر کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ شاید سب سے زیادہ ان تینوں نے ہی خلیل صاحب کے ساتھ کام کیا ہے۔
مزا تو تب تھا جب یہ لوگ بھی خلیل الرحمن قمر کی مخالفت میں آگے آتے، ان پر تنقید کرتے۔ ۔ لیکن نہیں آئے کیونکہ ان کا مفاد خلیل صاحب کے ساتھ منسلک ہے۔ خلیل صاحبِ کی ناکامی ان کی ناکامی ہے۔ جن کا مفاد نہیں یا جن کی ذاتی خلش ہو اُس کے لیے تو بولنا بہت آسان ہوتا ہے اور وہ تو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اپنے مفادات منسلک ہونے پر ہم لوگ انصاف نہیں کر پاتے۔ ہم صرف تعصب کی عینک سے ہر واقعہ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

راقم خواتین کے حقوق کا مکمل احترام کرنے والا ہے۔ اور کسی طرح کے بھی مارچ پر قدغن لگانے کے سخت خلاف ہے۔ جہاں تک خواتین کو حقوق نہ ملنے کی بات ہے۔ یہ سب تو معاشرے کے ناسور ہیں جو ایسا کر رہے ہیں۔ کیونکہ اسلام نے تو خواتین کو مکمل حقوق عطا کئیے ہیں۔ دیکھا گیا ہے پاکستان میں خواتین کو آج بھی جن علاقوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ وہ علاقہ زیادہ تر وڈیروں اور نوابوں کے تصرف میں ہیں۔ لیکن کبھی کوئی انہیں غلط کہتا نظر نہیں آتا۔ خود کو روشن خیالی کا داعی کہلانے والی سیاسی جماعتیں انہیں ٹکٹیں دے کر باقاعدہ اسمبلی منبر بنواتی آ رہی ہیں۔ اس پر بڑھ کر افسوس تو تب ہوتا ہے جب وہی ارکان اسمبلی خواتین کو زندہ درگور کرنے والے واقعات کا یہ کہہ کر دفاع کرتے ہیں کہ یہ تو قبائلی روایات ہیں۔ لیکن تب کہیں کوئی طوفان نہیں اٹھتا۔ جب سندھ میں عورتوں کو جائیداد سے محروم یا پھر جائیداد خاندان سے باہر جانے کے خوف سے یہی روشن خیال جماعتوں والے عورتوں کی شادیاں قرآن سے کرواتے تھے۔ تب انہیں عورتوں کے حقوق کیوں نہیں یاد آئے۔ سندھ میں وڈیروں کا نظام آج بھی چل رہا ہے اور وہی وڈیروں کو اسمبلی میں لایا جاتا ہے۔ عورتوں کو تعلیم سے محروم بھی انہی لوگوں کے علاقوں میں زیادہ رکھا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد پھر بلاول بھٹو زرداری ہمیں بتاتے ہیں کسی کو بھی خواتین کو سیاست اور احتجاج پر dictate کرنے کی اجازت نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر جانب ایک عجیب تماشا لگا ہے،اور عوام بے بس۔۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply