جین کا منشور، تیرہ نکات میں ۔جین(29)۔۔وہاراامباکر

جینوم پر کنٹرول کے بعد کی دنیا کیسے ہو گی؟ یہ ہماری کمزوریوں اور خواہشات کا ایک امتحان ہے ۔ جو ہم جینوم میں پڑھتے ہیں اور جو اس میں لکھنا چاہتے ہیں، یہ ہماری کمزوریاں، امنگیں اور آرزوئیں ہی تو ہیں۔ جینوم کو پڑھنا انسانی فطرت ہے۔ اور جینوم ہی تو انسانی فطرت ہے۔

اس کے ساتھ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ اس کا مکمل آئین تو اگلی کسی جنریشن کا کام ہو گا لیکن تاریخ سے سائنسی، فلسفانہ اور اخلاقی سبق کو دیکھ کر ہم کچھ ابتدا کر سکتے ہیں۔

ایک۔ جین وراثت کا بنیادی یونٹ ہے۔
اس میں انفارمیشن ہے جو جانداروں کو بناتی ہے، برقرار رکھتی ہے اور مرمت کرتی ہیں۔ جین دوسرے جین کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں۔ ماحول سے اِن پٹ لیتے ہیں۔ اس میں ٹرگر اور امکان کے اضافے سے جاندار کی فارم اور فنکنشن طے ہوتا ہے۔

دو۔ جینیاتی کوڈ یونیورسل ہے۔
نیلی وہیل سے لے کر خوردبینی بیکٹیریا تک کوڈ ایک ہی ہے۔ اور یہ بالکل ٹھیک ٹھیک معلوم کر لیا جائے گا۔ انسانی جین کے کوڈ میں کوئی الگ سے سپیشل چیز نہیں ہے۔

تین۔ جینز فارم، فنکشن اور قسمت پر اثرانداز ہوتے ہیں لیکن یہ ون ٹو ون نہیں۔
زیادہ تر خصائص میں ایک سے زیادہ جینز کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بہت سے میں جین، ماحول اور امکان کا۔ زیادہ تر انٹر ایکشنز کسی سسٹمیٹک طریقے سے نہیں یعنی جینوم کا ایسے واقعات سے ملاپ ہے، جو بنیادی طور پر غیریقنی ہیں۔ کچھ جینز صرف رجحان پر اثر کرتی ہیں۔ ایک جین کی میوٹیش اور ویری ایشن کی وجہ سے جاندار پر ہونے والے اثر کی ٹھیک ٹھیک پیشگوئی کرنا جینز کے صرف چھوٹے سے سب سیٹ کے لئے ممکن ہے۔

چار۔ جینز میں تنوع کا مطلب خاصیت، شکل اور رویے میں تنوع ہے۔
جب ہم عام گفتگو میں “قد کی جین” یا “آنکھ کے رنگ کی جین” کی بات کرتے ہیں تو ہم ایک ویری ایشن کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ویری ایشن جینوم کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ہے۔ ہم چونکہ لوگوں کو ان کے درمیان فرق سے پہچانتے ہیں، اس لئے ہمارے ذہن میں یہ تصور بنتا ہے کہ یہ بہت بڑا ہو گا۔ ڈنمارک کے چھ فٹ قد کے شخص اور ڈیمبا کے چار فٹ قد کے شخص میں ایک ہی اناٹومی، فزیولوجی اور بائیوکیمسٹری ہے۔ یہاں تک کہ انسان کے دو ویری انٹ جو الگ انتہاوٗں پر ہیں۔ یعنی نر اور مادہ۔ ان کی جینز میں 99.688 فیصد جین شئیر ہوتی ہیں۔

پانچ۔ جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلاں شے کی جین مل گئی تو یہ اس وجہ سے ممکن ہے اگر اس کی تعریف بہت تنگ پیرائے میں کی جائے۔
خون کی ٹائپ کی جین بتائی جا سکتی ہے یا اس طرح کی دوسری بائیولوجیکل خاصیتوں کی کیونکہ یہ خود میں بڑی واضح تعریف رکھتی ہیں۔ لیکن بائیولوجی میں ایک پرانی غلطی تعریف اور فیچر کو گڈمڈ کرنا ہے۔ مثال: اگر ہم “خوبصورتی” کی تعریف صرف یہ کریں کہ نیلی آنکھ والے خوبصورت ہیں تو ہاں، ہمیں خوبصورتی کی جین مل جائے گی۔ اگر ہم ذہانت کی تعریف ایک خاص طرح کے ٹیسٹ کے سکور کی بنا پر کریں تو ہاں، ذہانت کی جین بھی مل جائے گی۔ جینوم انسانی تصور کا آئینہ ہے۔

چھ۔ بغیر تناظر کا تعین کئے ہوئے، فطرت اور تربیت کے مقابلے کی بات کرنا بے تکی بات ہے۔
فطرت کا اثر زیادہ ہے یا ماحول کا؟ اس کا تعلق ہے کہ کس فیچر اور فنکشن کی بات ہو رہی ہے۔ مثلاً، صرف ایک جین کسی کی جنس کا تعین کر دیتی ہے۔ کئی مردانہ یا زنانہ خاصیتوں میں جین اور ماحول کا انٹرسیکشن ہے۔ جبکہ ایک معاشرے میں مردانگی یا نسوانیت کو دیکھا کیسے جاتا ہے؟ اس کا تعلق معاشرتی یادداشت، تاریخ اور کلچر سے ہے۔

سات۔ انسانوں کی ہر نسل میں ویری انٹ ہوں گے، میوٹنٹ ہوں گے، وہ لوگ جو سب سے مختلف ہوں گے۔ ایسا ہونا ہماری بائیولوجی کا لازم حصہ ہے۔
کوئی میوٹیشن ایبنارمل قطعی طور پر نہیں، صرف شماریاتی طور پر ہے۔ اس کا مطلب صرف ایسے ویری انٹ کا ہونا ہے جو عام نہیں۔ لوگوں کو ایک سا کرنے اور “نارمل” کر دینے کی خواہش کا توازن اس بائیولوجیکل حقیقت سے کرنا انتہائی ضروری ہے تا کہ تنوع برقرار رہے۔ ایبنارمل برقرار رہے۔ سب کے نارمل ہو جانے کا مطلب ارتقا ختم ہو جانا ہے۔ فطری جدتوں کا ختم ہو جانا ہے۔

آٹھ۔ بہت سی بیماریوں ۔۔ جن میں سے کئی ایسی ہیں جن کا تعلق غذا، حالات، ماحول اور امکان سے سمجھا جاتا رہا ہے ۔۔ کا بڑا تعلق جینز سے ہے۔
ان میں سے بہت سی بیماریاں پولی جینک ہیں۔ یعنی کئی جینز ملکر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہ جینز میں لکھی ہیں لیکن آسانی سے آگے منتقل نہیں ہوتیں، جس کی وجہ والد اور والدہ کی جینز کا مکس ہو جانا ہے۔ ایسی بیماریوں جو ایک جین کی وجہ سے ہوں، نایاب ہوتی ہیں لیکن جب ایسی سب بیماریوں کو جمع کریں تو یہ عام ہیں۔ ایسی دس ہزار بیماریاں شناخت ہو چکی ہیں۔ سو سے دو سو میں سے ایک بچہ آبادی مونوجینیٹک بیماری کا شکار ہوتا ہے۔

نو۔ ہر جینیاتی بیماری جاندار کے جینوم اور ماحول کے درمیان غیرمطابقت ہے۔
کئی معاملات میں بہترین مداخلت میڈیکل نہیں، ماحول کو فارم کے مطابق فِٹ کرنا ہے۔ مثلاً ڈوارفزم (قد بہت چھوٹا رہ جانا) کی صورت میں گھر کا ڈیزائن، ایسپرجر سنڈروم کی صورت میں تعلیم کے طریقے میں ترمیم۔ اگرچہ کئی معاملات میں ایسا ممکن نہیں۔

دس۔ ایسی غیرمعمولی کیس بھی ہیں جہاں پر جینیاتی غیرموافقت اتنی زیادہ ہو کہ غیرمعمولی اقدامات لینا پڑیں۔ اور جینیاتی چناو یا جینیاتی مداخلت کا جواز ہو۔
جب تک ہم مداخلت کے اور جینیاتی ترمیم کے بہت سے غیرارادی نتائج کو نہیں سمجھتے، اس وقت تک ایسے کیس کو استثنا کے طور پر لیتے ہوئے احتیاط سے انتخاب کر کے غیرمعمولی تکلیف کو روکا جا سکتا ہے۔

گیارہ۔ جینوم یا جینز میں کچھ ایسا نہیں جو انہیں کیمیکل اور بائیولوجیکل ترمیم سے روکے۔
عام نقطہ نظر یہ ہے کہ زیادہ تر انسانی خاصیتیں ماحول اور جین کے پیچیدہ تعاملات کا نتیجہ ہیں۔ یہ بالکل درست ہے۔ لیکن اگرچہ یہ پیچیدگی جین کو مکمل قابو میں لینے سے روکتی ہیں، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ بڑے سکیل پر جینیاتی مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ ایسے ماسٹر ریگولیٹر جو درجنوں جین کنٹرول کرتے ہیں انسانی بائیولوجی میں عام ہیں۔ ایک ایپی جینیٹک موڈیفائیر ایک سوئچ کے ذریعے سینکڑوں جینز کی حالت بدلنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جینوم ایسے مقامات سے بھرا پڑا ہے۔

بارہ۔ احتیاط کی مثلث ۔ غیرمعمولی تکلیف، جین کا یقنی اثر اور معقول مداخلت ۔ ابھی تک ہمیں حد میں رکھ رہے ہیں۔
جس طرح ہم اس مثلث کی تعریف کو ڈیفائن کریں گے، ویسے ہمیں نئے بائیولوجیکل، کلچرل اور سوشل اصول و قواعد درکار ہوں گے تا کہ ہم طے کر سکیں کہ کیا محفوظ ہے، کیا کرنے کا کب جواز ہے۔

تیرہ۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے کیونکہ جینوم اپنے آپ کو دہراتا ہے اور جینوم اپنے آپ کو دہراتا ہے کیونکہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
ہماری تمنائیں، امنگیں اور خواب انسانی تاریخ کی راہنمائی کرتے ہیں اور کم از کم اس کا کچھ حصہ ہمارے جینوم میں لکھا ہوا ہے۔ اور انسانی تاریخ نے اس جینوم کا انتخاب کیا ہے جس میں یہ تمنائیں، امنگیں اور خواب موجود تھے۔ منطق کا یہ دائرہ خود اپنے آپ کو پورا کرتا ہے اور ہماری نوع کی بے مثال کامیابی اور طاقت کی وجہ ہے اور ہمارے کردار کے سب سے گھناونے پہلو کی بھی۔ اپنے سے یہ توقع رکھنا کہ ہم اس منطق کے مدار سے فرار ہو پائیں گے اور اپنی فطرت میں کوئی بنی بنیادی تبدیلی کر پائیں گے، بنیادی طور پر ناممکن بھی ہے اور ضرررساں بھی۔ لیکن اس کو پہچاننا اور خود اپنے بارے میں تشکیک۔۔ یہ کمزور کو مضبوط کی مرضی سے بچاتی ہے۔ عام سے کچھ مختلف لوگوں کو عام لوگوں کے ہاتھوں ختم ہو جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔

اور شاید یہ شک، غور و فکر، اپنے سے مختلف سے ہمدردی، اپنی فطرت سے بغاوت اور ہماری اخلاقی خوبصورتی۔ اکیس ہزار جینز پر مشتمل ہمارے جینوم میں انمٹ حروف میں لکھی ہوئی ہے۔

شاید یہی ہمیں انسان بناتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply