• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزادی!مجھے بعض اوقات مغالطہ بہت اچھا لگتا ہے۔۔اسد مفتی

آزادی!مجھے بعض اوقات مغالطہ بہت اچھا لگتا ہے۔۔اسد مفتی

کشورِ حسین شاد باد کو آزاد ہوکر 72برس بیت چکے ہیں،ان برسوں میں ہم چاہے کچھ بھی نہ ہوئے ہوں،لیکن آزاد ضرور ہوگئے ہیں،کوئی بھی ایسا میدان نہیں ہے،جس میں آزاد نہ ہوئے ہوں،دوسرے ملک جب آزاد ہوتے ہیں،تو انہیں سیاسی آزادی حاصل ہوتی ہے۔لیکن ہم آزاد ہوئے توہم نے زندگی کا ہر گوشہ آزاد کرلیا ہے۔ہم معاشی،ثقافتی،مذہبی،اخلاقی اور ادبی میدان میں آزاد ہیں،یہاں تک کہ سینما اور ٹی وی کے میدان میں بھی ہمیں آزادی حاصل ہے۔رہا سوال صحافت کا تو ہماری صحافت بھی مکمل آزاد ہے۔
سیاست میں ہم جتنے آزاد ہیں،اتنا آزاد دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک نہیں ہے،سیاست میں ہم غیر ملکی غلامی سے ہی آزاد نہیں ہوئے ہیں،بلکہ ہر پالیسی سے بھی آزاد ہوگئے ہیں،یہاں تک کہ اپنے فیصلے کرنے سے بھی آزاد ہوگئے ہیں،ایسا کوئی اصول،قائدہ اور اخلاقیات نہیں جس سے ہم آزاد نہ ہوئے ہوں،ایسا کوئی اصول آدرش،منطق،عذر اور جواز نہیں جس سے ہم آزاد نہ ہوئے ہوں،ہمارے بڑے سے بڑے راہنما کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ جہاں ہے وہیں رہے گا،کہ وہ آزاد ہے۔جس پارٹی کا نمک کھا یا ہے،اسی کا ساتھ نبھائے گا،یا اب تک جس کی ممانعت کرتا رہا ہے اس کی مخالفت کرتا رہے گا،کہ وہ آزاد ہے کوئی بڑے سے بڑا نجومی یا جوتشی بھی پتہ نہیں چلا سکتا کہ ہمارا لیڈر کب قلابازی کھائے گا،کب یوٹرن لے گا،کب فوج کا ساتھ دے گا،کب خیمہ بدل لے گا کہ وہ آزاد ہے۔۔۔وہ جسے آج گالی دے رہا ہے،شاید کل اُسے گلے لگا رہا ہے اور پرسوں اُس کا گلا کاٹ دے۔۔۔
مطلب یہ کہ ہماری سیاست اور سیاستدان،ہماری فوج اور اس کا سپہ سالار ان سب پر کوئی پابندی نہیں ہے،ہمارے آزاد ملک میں جتنی آزاد ہماری سیاست اور افواج ہے،اتنی آزادی کسی اور شعبے میں نہیں،ہمارے سیاسی راہنما اور آمر ملک کے مفاد کے خلاف جو بھی کرتے ہیں،نہ انہیں کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی خطرہ۔۔وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں،اسے کرنے کی انہیں پوری آزادی ہے۔کس کی مجال ہے جو ان کی آزادی میں رکاوٹ بنے،ہمارے سیاسی اور فوجی لیڈر آزادی سے کام نہ کرنے کے اتنے عادی ہیں کہ ملک کی آزادی بھلے ہی خطرے میں پڑ جائے،بھلے ہی آدھا ملک گنوا دیاجائے،لیکن وہ اپنی آزادی کو ہر گز خطرے میں نہیں ڈالتے،جس ملک کے لیڈران کرام اتنے آزاد ہیں،کہ انہیں آزادی کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا،تو مان لینا چاہیے کہ ملک حقیقت میں آزاد ہے،ہماری اس آزادی کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک کا سرمایہ بھی آزاد ہے،اور سرمایہ داری بھی۔۔پیسے اور سرمائے کے معاملے میں جو آزادی چور کو حاصل ہے،وہی جیب کترے اور سمگلر کو بھی ملی ہوئی ہے۔ہمارے ملک کا سرمایہ آزادی سے ادھر اُدھر گھومتا ہے۔اسے پرہیز ہے تو صرف غریبوں سے،مزدوروں سے،کسانوں سے۔۔لیڈروں سے لیکر غنڈوں،بدمعاشوں تک کی گود میں بیٹھنے سے قطعی نہیں شرماتا۔۔۔بنکوں سے اربوں روپے معاف کروانے والوں سے نہیں جھجھکتا۔جو جتنا بڑا سمگلر،جتنا بڑا بنک کرپٹ ہے،وہ اتنا ہی پیسے والا ہے،ہمارے وطنِ عزیز میں چور چوری کرنے کے لیے،ڈاکو ڈاکہ ڈالنے کے لیے،سمگلر سمگلنگ کرنے کے لیے،تاجر کالا دھندا کرنے کے لیے،تو افسر رشوت لینے کے لیے آزاد ہیں۔۔۔آپ چاہیں تو دوا میں زہر ملائیں،یا دالوں مسالوں میں اینٹ پتھر یا آٹے میں ریت۔اس آزاد ملک میں آپ کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں،اتنہا یہ ہے کہ ملک پر قابض ہونے کے لیے فوج بھی آزاد ہے،جرنیل بھی اپنی جرنیلی چھوڑ کر پراپرٹی ڈیلر بننے کے لیے آزاد ہے۔
آزادی کی کتنی ہی ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں،لیکن میں ہوں کہ اپنی “آزادی”کو کوس رہا ہوں،اپنے نظامِ زندگی کو کوس رہا ہوں،جس میں خود غرضی،لالچ،جھوٹ،فریب،استحصال،بنی نوع انسان کا جلال و قتال اور انتقام و عداوت روزمرہ کا معمول ہے۔
ملک شاد باد کو قائم ہوئے 72برس بیت گئے،اس دوران پانچ دریاؤں کے پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا،آدھی صدی سے زائد بیت گئی،ہم نے بہت کچھ دیکھا اور سُنا لیکن،جو حاصل ہے وہ کیا ہے؟۔۔دشمنی،جنگیں،اسلحہ،میزائل،ایٹم بم،ناداری،افلاس،استحصال،مذہبی جنونیت،عسکریت پسندی،رشوت،چوری،ڈاکے،اجتماعی خود کشی اور قتل و غارت۔۔
اسی تناظر میں جب میں اپنی امن پسندی،عقل پرستی،سیکولر ازم،خیر سگالی،اخوت،عدم تشدد،روشن خیالی،اور خوشحالی کی خواہش کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے نئے ملک ہالینڈ کی یاد آتی ہے۔میں سوچتا ہوں کہ پاکستان میں بھی ہالینڈ کی طرح جمہوریت رواداری،امن وسلامتی،سیکولرازم،بھائی چارہ،حقیقت پسندی،وقار،انسانی عظمت اور دیانتداری کی فضا کیوں سازگار نہیں ہوسکتی؟
آج جب ملکِ عزیز میں جرائم،جہالت،بھوک،لوٹ کھسوٹ،دکھ درد اور تاریکیوں کا راج ہے ان حالات میں سیکولرازم،افہام و تفہیم،عدم تشدد،بھائی چارہ،خوشحالی،شرافت،عظمت،عروج،ترقی،دیانتداری،وقار،شائستگی،حقیقت پسندی،روشن خیالی،ترقی پسندی،امن پسندی کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ جاتی ہے،آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حالتِ جہاد میں رہنے کے بجائے ناداری،افلاس،جہالت،جر ائم اور مذہبی جنونیت کے کیخلاف جہاد شروع کریں،لیکن سماج میں تبدیلی لانے کے بجائے حالات کو جوں کا توں رہنے دینے میں ہی عافیت محسوس کی جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اربابِ اختیارگزشتہ چھیاسٹھ برسوں سے “فراہم کیے جائیں گے،اقدامات کیے جائیں گے،گامزن کیا جائے گا،حاصل کریں گے،آمدنی میں اضافہ ہوگا،توقع کرتے ہیں،صحت مندانہ ہوگی،حاصل کیا جائے گا،لایا جائے گا،توجہ دی جائے گی،سہولتیں دی جائیں گی،یقینی بنایا جائے گا،اقدام اٹھائے جائیں گے،شروع کیے جائیں گے،کاروائی کی جائے گی،خاتمہ کریں گے،پوری کریں گے،قائم کیے جائیں گے،”۔۔۔وغیرہ وغیرہ قسم کے راگ الاپے جارہے ہیں۔۔
مندرجہ بالا یہ وہ جملے اور وعدے ہیں جو ہروزیر یا حکومتی عہدہ دار گاہے گاہے دہراتا رہتا ہے۔
میں اور میرے جیسے لوگ زندگی کو اپنی ڈگر پر لانے کی سعی کرتے رہے ہیں،اور کرتے رہیں گے،تاکہ انسانیت امن اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو،کہ ہم میں زندگی کو حسین سے حسین تر بنانے اور دیکھنے کی آرزو اور اس سے لطف اندوز ہونے کی تمنا ہر حال میں باقی رہتی ہے۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظامِ گلشن
منتشر ہوتو مرو،شور مچاتے کیوں ہو؟

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply