شیزوفرینیا ۔ جین (27) ۔۔وہاراامباکر

اندر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی چیز کا حکم دیا جا رہا ہو۔ کچھ دکھائی دیتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ انفارمیشن کو تنظیم دینے کی صلاحیت ختم ہونے لگتی ہے۔ کوئی کام کر سکنے کی صلاحیت ختم ہوتی جاتی ہے۔ سوچ منہدم ہونے لگتی ہے۔ ذہن ملبے کا ڈھیر بننے لگتا ہے۔ نئے الفاظ، خوف، پریشانیاں ابھرنے لگتی ہیں۔ شیزوفرینیا ۔۔۔ جس کو “ایڈوانس سطح کا پاگل پن” (ڈیمنشیا پریکوس) کہا جاتا تھا، ایک ہولناک ذہنی بیماری ہے۔ دوسری جینیاتی بیماریوں کی طرح یہ بھی ویسا مرض ہے جو کچھ خاندانوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے اور کبھی ایسے لوگوں میں بھی جن کی کوئی فیملی ہسٹری نہیں ہوتی۔ ماہرینِ جینیات ان پیٹرنز سے معنی نکالنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس کا ماڈل نہیں بنا پا رہے تھے۔ آخر کیوں ایک ہی بیماری خاندانوں میں بھی چلتی ہے اور کبھی ان سے باہر بھی نظر آتی ہے۔

اس پر پہلے سراغ جڑواں کی سٹڈی سے ملنا شروع ہوئے۔ اگر کسی کے آئیڈنٹیکل جڑواں کو شیزوفرینیا ہے تو دوسرے کو ہونے کا امکان تیس سے پچاس فیصد ہے۔ اگر کسی کے فریٹرنل جڑواں کو شیزوفرینیا ہے تو ہونے کا امکان دس سے بیس فیصد ہے۔ اور اگر اس کی تعریف میں کم نوعیت کے ڈس آرڈر شامل کر دئے جائیں تو آئیڈنٹیکل جڑواں میں یہ تناسب اسی فیصد کے قریب تک جا پہنچتا ہے۔

اس کا تعلق جینیات سے ہونے کے اتنے اچھے نشانات ہونے کے باوجود 1970 اور 1980 کی دہائی میں ماہرینِ نفسیات اس کی وجہ جنسی فرسٹریشن قرار دیتے رہے۔ “اس کی وجہ ایسی ماں ہے جو بچوں کو ٹوکتی رہتی ہے اور اس کی اپنی شخصیت نہیں بن پاتی”۔ یہ 1974 میں سائیکٹریسٹ سلوانو آریٹی نے بتایا۔ اس کے پیچھے کوئی شواہد نہیں تھے لیکن ان کی کتابیں اس وقت کے ماحول کے مطابق مقبول رہیں، انعامات جیتتی رہیں جس میں سائنس کی بہترین کتاب کے لئے نیشنل بُک ایوارڈ بھی شامل تھا۔

انسانی جینیات پر ہونے والی ایک کے بعد دوسری سٹڈی پاگل پن کی سائنس کے پاگل پن کو ٹھیک کر رہی تھی۔ شیزوفرینیا اور بائی پولر شخصیت جیسی بیماریوں کی خاندانی ہسٹری اس کی جینیاتی وجوہات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ سوال یہ تھا کہ کہاں اور کونسے جین؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیسویں صدی کے آخر میں ڈی این اے سیکونس کرنے کے دلچسپ طریقے آ چکے تھے جن کو نیکسٹ جنریشن سیکونسنگ کہا جاتا تھا۔ ڈی این اے کو ٹکڑوں میں توڑ کر بیک وقت الگ الگ سیکونس کرنا اور ان کو کمپیوٹر کے ذریعے ری اسمبل کرنا۔ اس سے پورے جینوم کو بھی یا صرف پروٹین بنانے والے جینوم کو پڑھا جا سکتا تھا۔ مطلبوبہ جین کا شکار اس طریقے سے کیا جا سکتا تھا۔

اگر فیملی میں کسی کو یہ بیماری ہے اور باقی سب کو نہیں تو جین کی تلاش اتنی مشکل نہیں تھی۔ فیملی کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ موازنے میں میوٹیشن نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی تھی۔ جس ممبر کو یہ عارضہ ہے، اس میں کہاں پر کس چیز کا فرق ہے؟ 2013 میں اس مرض کے شکار ایسے 623 نوجوانوں کی سٹڈی مکمل ہوئی جن کے والدین یا بہن بھائی میں سے کسی کو یہ عارضہ نہیں تھا۔ ان میں سے پیٹرن نکلنے لگے۔

اوسطاً، ہر بچے میں ایک ایسی میوٹیشن تھی جو اس کے والدین میں نہ تھی۔ ان میں سے اسی فیصد ان جگہوں پر تھی جو والد کی طرف سے آتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ سپرمیوجینیسس کے عمل کے دوران ہوا تھا۔ اس میں بڑا فیکٹر والد کی عمر کا تھا۔ زیادہ عمر کے والد میں ایسا ہونے کا امکان زیادہ تھا۔

یہ ایک جگہ پر ہونے والی میوٹیشن نہیں تھی۔ ان میں سے زیدہ تر میوٹیشنز کا تعلق ان جینز سے تھا جو نیورون کے درمیان جوڑ پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ میوٹیٹ ہونے والی کئی جینز وہی تھیں جو آٹزم اور بائی پولر بیماری کی سٹڈی میں بھی ملی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیزوفرینا، جو خاندانوں میں منتقل ہوتا ہے، اس کی سٹڈی اس سے زیادہ مشکل تھی۔ پہلی میں بھوسے میں سے سوئی تلاش کرنا تھی جبکہ اس معاملے میں بھوسے میں سے بھوسا۔ یعنی کونسا ایسا حصہ ہے جس کا تعلق وراثت سے ہے۔ پہلے میں فرق تلاش کرنا تھا، دوسرے میں مماثلت والا خاص علاقہ۔ اس میں حائل مشکلات کے باوجود سائنسدان اس کی تلاش کئی جینیاتی تکنیک کو ملا کر کر رہے ہیں۔ ابھی تک کا تجزیہ بتاتا ہے کہ کم از کم 108 ایسے حصے ہیں جن کا تعلق شیزوفرینا سے ہے۔ ان میں سے چند کی شناخت ہو چکی ہے۔

اہم چیز کیا ہے؟ کوئی بھی ایک جین ایسی نہیں جو اس میں رسک کا بتاتی ہے۔ چھاتی کے کینسر میں ایک ایسی جین ہے جو یہ بتا دیتی ہے کہ امکان 70 سے 80 فیصد ہے، جبکہ شیزوفرینا میں جینوم میں بکھرے کئی چھوٹے اور عام ویری انٹ ایسے ہیں جو مل جائیں تو ایسا ہوتا ہے۔

شیزوفرینیا وراثتی بیماری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس جین ایسی خاص کمبی نیشن میں ہیں تو اس کے ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ جڑواں کی سٹڈی سے آسانی سے پتا لگ جاتا ہے کہ یہ امکان پچاس فیصد تک بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف، یہ اگلی نسل میں وراثت میں منتقل آسانی سے نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگلی نسل میں والد اور والدہ کے جینز مکس ہونے کے سبب اس کا امکان بہت کم ہو جاتا ہے کہ یہ ویسے ہی اگلی نسل تک پہنچ جائے۔

اگر کسی خاندان میں جین ویری ایشن کم ہو، وہاں اگلی نسلوں میں اس کے دہرائے جانے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب اگر شیزوفرینیا کی جینیاتی تشخیص کا ٹیسٹ بنانا ہو تو وہ کیسا ہو گا؟

اس کے لئے پہلے تو ہمیں اس میں ملوث تمام جینز کا کتابچہ بنانا پڑے گا۔ (یہ ہیومن جینومکس کے لیئے بہت بڑا پراجیکٹ ہے)۔ لیکن یہ کتابچہ بھی کافی نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ کئی دوسری میوٹیشنز کے ساتھ ملکر اس بیماری کی وجہ بنے گا۔ ہمیں تمام کمبی نیشن کی شناخت کرنا ہو گی تا کہ رِسک کی پیشگوئی کی جا سکے۔

اس سے اگلی چیز یہ ہے کہ اس کی penetrance نامکمل ہے۔ یعنی ایک جین سیٹ ہوتے ہوئے سو فیصد امکان نہیں کہ ایسا ہو۔ دوسرا یہ کہ اس کا اظہار ہو جانے کی صورت میں شدت میں ویری ایشن ہے۔ کیا ایک جین یا ان کا کمبی نیشن کسی ایک میں شیزوفرینا، دوسرے میں بائی پولر اور تیسرے میں کم درجے کا ہائیپومینیا پیدا کرتا ہے؟ کیا کسی ویری انٹ کو کوئی میوٹیشن کا ساتھ درکا ہے یا کوئی ٹرگر چاہیے جو یہ بیماری ظاہر کر دیتا ہو؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جینیاتی تشخیص کے معمے میں ایک اور مسئلہ ہے اور وہ ان سب سے اہم ہے۔

پاگل پن یا غیرمعمولی تخلیقی صلاحیت؟ کے ریڈفیلڈ جیمیسن نے تاریخ میں ایسے لوگوں کی فہرست بنائی۔ بائرن، وین گو، ورجینیا وولف، رابرٹ لوول، این سیکسٹن جیسے آرٹسٹ، جان نیش، کیونڈش اور نیوٹن جیسے سائنسدان، موزارٹ اور بیتھوون جیسے موسیقار، ڈیرپشن کی وجہ سے خودکشی کرنے والے لیکن دنیا کو اپنے فن سے محظوظ کرنے والے رابن ولیمز۔۔

ہانس ایسپرجر نے آٹزم کی ایک قسم (ایسپرجر سنڈروم) کا شکار ہونے والوں کو “چھوٹے پروفیسر” کہا۔ دنیا سے کٹے ہوئے، معاشرتی تعلقات بنانے میں مشکلات کا شکار، کئی بار ٹھیک طرح سے بول نہیں سکتے۔ لیکن سات سیکنڈ میں اٹھارہ کا فیکٹوریل بتا سکتے ہیں یا پیانو پر مشکل ترین دھن بجا سکتے ہیں۔

جان نیش کون تھے؟ دنیا کو نیش تھیورم جیسا تحفہ دینے والے عظیم ریاضی دان یا پاگل؟ جب ہم فینو ٹائپ (شخص) کو الگ نہیں کر سکتے تو جین کو کیسے کر سکتے ہیں؟ شیزوفرینیا اور بائی پولر میں شناخت ہونے والے جین کے کچھ ویری انٹ بالکل وہی ہیں جو کچھ خاص صلاحیتوں کو بڑھانے والے۔

جیسا کہ ایڈورڈ میچ نے کہا تھا، “میری مشکلات میرا اور میرے آرٹ کا حصہ ہیں۔ یہ چلی گئیں تو میرا آرٹ تباہ ہو جائے گا”۔

شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر جیسے امراض لوگوں کیلئے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ ہم میں سے کوئی اپنے لئے یا اپنی فیملی میں کسی کے لئے ایسا نہیں چاہے گا۔ لیکن ان کی جینیاتی تشخیص کا امکان ہمیں غیریقینیت، خطرے اور انتخاب کے بنیادی سوالات کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔ ہمارے بس میں ہو تو ہم مصائب ختم کرنا چاہیں گے۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیسے بتائیں کہ دن اور رات کی حد کہاں پر ہے؟ شام کب ڈھلتی ہے؟ کسی ایک حالت میں بیماری کہلائی جانے والی خاصیت کسی دوسری حالت میں غیرمعمولی صلاحیت بن جاتی ہے۔ زمین کے ایک حصے پر اندھیرے کا مطلب ہی کسی اور برِاعظم میں روشن صبح ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس پس منظر میں اگست 1990 میں نیچر میگیزین میں شائع ہونے مضموں میں ایک نئی ٹیکنالوجی کی پیدائش کا اعلان کیا گیا۔ اس نے جینیاتی تشخیص کے اخلاقی سوالات کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا دی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply