سفر ہے شرط۔۔اشفاق احمد

ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک لازم واقعہ بچپن میں ہوا۔ بچپن میں آس پاس کے بڑے بڑے پہاڑوں اور بیابانوں کے پیچھے اترتے آسمان کو دیکھ کر ہمیں یہ گمان ہوا تھا کہ پہاڑ کا سرا یا حد نظر تک پھیلے بیاباں کی آخری نوک ہی دنیا کی آخری سرحد ہے۔ جلد ہی یہ گمان غلط ثابت ہوا جب اس پار سے کسی اپنے کی آمد ہوئی  اور اس نے وہاں کی خبر دی تو اندازہ ہوا کہ جہاں کی وسعت کچھ بڑھ کر ہے۔
مان لیجیے کہ اسی دن ہمارے ننھے ذہنوں میں جستجو کا دیا جلا اور کسی نہ کسی طور ہم سب نے سفر کی نیت باندھ لی تھی اور تب ہی سے ہم اس جہاں کی وسعت ماپنے میں مگن ہیں۔ تب ہم سب محو سفر ہوئے اور آج جس کیفیت میں ہیں یہ اسی سفر کی روداد ہے۔ جو بول رہا ہے وہ اسی سفر کی روداد سنا رہا ہے اور جو سن رہا ہے وہ بھی بس اسی کی روداد سن رہا ہے۔ نام کوئی  بھی رکھ لیجیے لیکن ہے سب سفر۔ کچھ من چلوں کا دم گھٹا تو زاد راہ لے کر نکل کھڑے ہوئے اور نئی  “دنیاؤں” میں جا بسے۔ دنیاؤں سے یاد آیا کہ یہ احساس کی زبان بھی عجیب ہے۔ سائنس کا مکتب ہمیں ایک ہی دنیا کی خبر دیتا ہے لیکن جب ہم احساسات کی زبان میں بات کرتے ہیں تو مفہوم ہی بدل جاتا ہے اور الگ الگ دنیائیں سامنے آجاتی ہیں۔ جو اندر کی دنیا سے شروع ہو کر آس پاس کی چھوٹی سی سمٹی دنیا سے ہوتے ہوتے ایک بڑی دنیا میں ضم ہو جاتی ہیں۔ یہ بڑی دنیا خود سے نہیں بنی صاحب بلکہ اس کا خمیر ہم میں سے ہر ایک کے اندر سے اٹھا ہے۔ سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ اندر کا طوفان یونہی بیکار نہیں جاتا بلکہ کسی نہ کسی صورت باہر کی دنیا کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہے۔

کسی بھی ایک دنیا تک محدود رہنا ہی تو دکھ ہے۔ جو اس سفر کا رخ یکسر اندر کی طرف موڑ دیتے ہیں وہ باہر کی دنیاؤں میں رچی بسی رعنائیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور جو اس کا رخ کلی طور پر باہر کی طرف موڑ دیتے ہیں ان کے تو کچھ الگ ہی دکھ ہیں صاحب۔ اندر کی دنیا کو نظر انداز کرکے باہر کی مسافتوں پر نکلنا پیچھے ایسا خلا چھوڑ جاتا ہے کہ پھر ایسے لوگ باہر کی دنیاوں میں بس خود کو ہی ڈھونڈتے رہ جاتے ہیں۔ جہاں جہاں بھی رشتوں اور رویوں میں مصنوعیت ہمیں نظر آتی ہے وہ اسی خلا کی چغلی کھا رہی ہوتی ہے۔

اس سفر میں جو کہانی بنتی ہے اس کے تو کیا ہی کہنے۔۔ ہم میں سے ہر ایک کی بس ایک ہی کہانی ہے۔ ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ کسی کی کہانی ایک ہی دنیا لیے ہوتی ہے اور کسی کی کہانی میں بہت سی دنیاؤں کا ذکر ہوتا ہے۔ جو ایک ہی دنیا کو لے کر جیے ان کی کہانی میں بھی حسرتیں اور جو بہت سی دنیاوں کو لے کر جیے ان کی کہانی بھی حسرتوں سے بھری۔ ہاں البتہ جو اندر اور باہر کسی حد تک یکساں جیے انکے ہاں رنگوں ، محبتوں اور درد کی ان گنت یادیں رقصاں رہتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مختصر سا ہی تو سفر ہے صاحب۔ ہم سب نے یہی کہانی یہاں ادھوری چھوڑ کر نئے جہانوں کے لیے روانہ ہو جانا ہے ،جہاں کے پیمانے یکسر جدا ہیں۔
تو کیا یہ اچھی بات نہیں کہ ہم ان تمام دنیاؤں سے اچھی اچھی چیزیں، محبتیں ، رنگ اور سب سے بڑھ کر درد چن کر چلتے بنیں۔ آپ سوچیں گے کہ درد ہی ساتھ میں کیوں؟ تو صاحب عرض ہے کہ درد تو لازم ہے۔ اس کے بنا کہانی میں رنگ کیسے جمے گا؟ درد ہو، لازم ہو ۔۔۔۔ بس میٹھا ہو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply