طاہر چوہدری کے قانونی مشورے

سوال:پولیس بغیر کسی وجہ کے کسی شخص کو پکڑ کر تھانے لے جاتی ہے۔کوئی پرچہ درج نہیں ہوتا۔پیسے لے کر چھوڑ دیتی ہے۔قانون کیا کہتا ہے؟
جواب:کوئی پولیس افسر یا اہلکار کسی کو غیر قانونی حراست میں رکھتا ہے تو اس کیخلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 342،34 کے تحت کارروائی ہوگی۔ایک سال تک قید کی سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔پولیس افسر یا اہلکار کیخلاف پولیس آرڈر2002 کے سیکشن 155سی کے تحت بھی کارروائی ہوگی۔
حراست کے بعد 24 گھنٹے کے اندر ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازمی ہے۔ورنہ پولیس کسی بھی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھنے کے جرم کی مرتکب ہوگی۔

سوال:میری بیوی نے نکاح نامے میں یہ شرط لکھوائی تھی کہ شادی کے بعد میں اس کے ساتھ اسکے والدین کے گھر ہی رہوں گا۔شادی کے کچھ عرصے بعد ہمارا تنازع  ہوا۔ہم ایک سال سے الگ ہیں۔بیوی نے اپنے خرچے کا کیس کیا ہے۔کیا میں یہ جواب دے سکتا ہوں کہ میرے ساتھ آکر میرے گھر میں رہے تو خرچہ اٹھانے کیلئے تیار ہوں،ورنہ نہیں؟ رہنمائی کریں۔
جواب:نکاح نامہ د ولوگوں کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔اس میں لکھی گئی شرائط پر اسی طرح عمل کرنا ہوگا جس طرح کسی بھی معاہدے پر عمل ہوتا ہے۔آپ نے نکاح کے وقت اس شرط کو قبول کیا تھا تو اب  آپ کو اس پر عمل بھی کرنا ہوگا۔صلح صفائی سے منا لیں۔ورنہ آپ کی بیوی کا کیس مضبوط ہے۔آپ کو اس کا گزرے 3 سال اور آئندہ کا بھی خرچہ وغیرہ دینا ہوگا۔

اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمارے فلاں جاننے والے نے پولیس تشدد کے خوف سے پولیس حراست میں جرم کا اعتراف کر لیا تھا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے یہ جرم کیا نہیں تھا۔پولیس کی مار سے بچنے کیلئے قبول کیا۔قانون کیا کہتا ہے۔
جواب:پہلی بات تو یہ کہ پولیس کسی صورت ملزم یا مجرم پر تشدد نہیں کرسکتی۔ایسا کرنا جرم ہے۔آپ کے سوال کا جواب یہ کہ پولیس کے سامنے اعتراف جرم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔قانون اس اعتراف کو نہیں مانتا۔ملزم کا وہی اعتراف جرم قابل قبول ہوگا جو وہ جج کے سامنے کرے گا۔یہاں بھی جج اس بات کو یقینی بنائے گا کہ پولیس کو کمرہ عدالت سے باہر نکالے۔تاکہ ملزم پر دباؤ یا خوف کا اثر ختم ہو اور وہ اپنی مرضی سے بیان دے۔

سوال:میری بیوی اپنے والد کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوگئی۔کچھ عرصہ بعد اسکے والد بھی انتقال کرگئے۔مجھے اپنی بیوی کی وراثتی جائیداد سے حصہ ملے گا؟

جواب:اگر اپ کے بچے ہیں تو ان بچوں کو اپنی ماں کی وراثتی جائیداد سے حصہ ملے گا۔اپ بچوں کی طرف سے جائیداد کا حصہ لینے کیلئے دعوی دائر کراکتے ہیں۔بچے نہیں ہیں تو آپ کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال:ہماری علاقے میں لڑائی ہوئی۔مخالف پارٹی نے ہمارے خلاف ایف ائی ار کٹوا دی۔ہمارے دو لوگوں کو بھی زخم آئے تھے۔پولیس نے ہماری درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی۔کیا کریں؟
جواب:اس طرح کی صورتحال میں پولیس کراس ورشن درج کرنے کی پابند ہوتی ہے۔یہ کراس ورشن مخالف پارٹی کا موقف اور اسکے نقصان کی تفصیلات پر مشتمل ہوتا ہے۔اسے بھی ایف آئی آر کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔اگر پولیس آپ کا کراس ورشن ایف آئی آر کا حصہ نہیں بنا رہی تو آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22 اے 6 کے تحت جسٹس آف پیس (سیشن جج) کو درخواست دے سکتے ہیں۔جسٹس آف پیس پولیس کو آپ کا کراس ورشن درج کرنے کا حکم دے گا۔ یہ کراس ورشن آپ کی مخالف پارٹی کیخلاف ایف آئی آر ہوگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply