میرے پاس تم ہو” ایک فیمنسٹ ڈرامہ۔۔سید علی نقوی

ویسے تو خلیل الرحمٰن قمر کا کوئی ڈرامہ یا فلم اس قابل نہیں کہ اس پر بات کی جا سکے لیکن بے حیائی اور مرد کی مظلومیت کے نام پر جو طوفان اس آدمی نے اٹھایا ہے دل کر رہا ہے کہ “میرے پاس تم ہو” کے کرداروں کی روشنی میں اس آدمی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے اس ڈرامے میں ایک آدمی تو ہے دانش جس کا کردار ہمایوں سعید نے ادا کیا اگر اداکاری کو دیکھیں تو ہمایوں سعید ایک بیلو ایوریج (یعنی مناسب سے نیچے کا) اداکار ہے اور اس کردار میں مزید عامیانہ دکھ رہا تھا لیکن یہاں موضوع ہمایوں سعید یا انکی اداکاری نہیں بلکہ وہ دانش نامی کردار ہے جو انہوں نے ادا کیا۔دانش بیوقوفی کی حد تک شریف دکھایا گیا ہے جو کہ آجکل نا پید ہے کہ وہ ایک معمولی کلرک ٹائپ ہوتے ہوئے بھی دس لاکھ کی رشوت لینے سے انکار صرف اس لیے کرتا ہے کہ مرتے ہوئے باپ نے اسکو اس طرح کے کاموں سے روکا تھا، اسکو معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ اسکی بیوی اسے دھوکا دے رہی ہے لیکن وہ اسکو کھلی چھوٹ دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ دانش سے جھوٹ بول کر ایک دن اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد جاتی ہے اور واپسی پر وہ اسے پکڑ بھی لیتاہے، لیکن کچھ نہیں کہتا۔۔ کہانی آگے بڑھتی ہے یہاں تک کہ اس کی بیوی اسے اور اسکے بیٹے کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور وہ اسے جانے دیتا ہے اسکے بعد دانش جو کہ ایک غریب آدمی تھا پانچ مہینے میں کروڑ پتی نہ سہی لکھ پتی ضرور بن جاتا ہے لیکن بیوی کی بے وفائی سے اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ انتقال کر جاتا ہے، یہ تو ہوگیا مختصر سا تعارف دانش یعنی مین ہیرو کا۔۔

خلیل الرحمٰن قمر کے مطابق یہ اچھا مرد ہے کیونکہ اس نے عورت کو اسکی تمام بے وفائی اور زیادتی کے باوجود شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا جبکہ خلیل الرحمٰن قمر خود اس اچھے مرد کی تقلید پر کوئی یقین نہیں رکھتے کہ ایک عورت کے صرف انکی بات کاٹنے پر وہ اسکو اُلو کی پٹھی، کتے کی بچی، Bitch اور نا جانے کیا کیا کہہ دیتے ہیں یعنی دانش کا کردار ایک ایسا کردار ہے کہ جس کو اس کا لکھنے والا رائیٹر بھی حقیقی نہیں مانتا۔

اصل مدعا جو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک عورت ہے جس کا نام مہوش ہے وہ ایک لالچی عورت ہے کہ جس نے پیسوں کے لیے اپنے انتہائی پیار کرنے والے شوہر کو چھوڑ دیا کہ جس سے اسکا ایک بیٹا بھی ہے لیکن اسکو منہ کی کھانی پڑی اور اس کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔
لیکن میں بات کرنا چاہتا ہوں دو سائیڈ کے کرداروں کی ایک شہوار اور ایک اسکی بیوی شہوار کا کردار معروف اداکار عدنان صدیقی نے نبھایا اور اسکی بیوی کا کردار سویرا ندیم نے۔
آئیے ذرا خلیل قمر جو بیانیہ مرد کے بارے میں بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسکا جائزہ انہی کے لکھے ہوئے کردار شہوار کو سامنے رکھتے ہوئے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شہوار ایک ارب کھرب پتی شادی شدہ مرد کہ جس کی بیوی زیادہ تر ملک سے باہر رہتی ہے وہ ایک شادی شدہ لڑکی (مہوش) کو نوکری پر رکھتا ہے اور اس پر بہت مہربان ہے اسکو اور اسکے شوہر کو اپنے گھر دعوتوں پر بلاتا ہے مہنگے مہنگے تحائف دیتا ہے اور ہوتا یہ ہے کہ آہستہ آہستہ وہ اسکے دام میں آہی جاتی ہے معاملہ آگے بڑھتا ہے لڑکی کے شوہر کو آئیڈیا ہے کہ کچھ ہے جو اس سے چھپایا جا رہا ہے لیکن یہی شہوار لڑکی کو حوصلہ دیتا ہے کہ تمہارے ٹٹ پونجیے  شوہر کی کیا اوقات ہے کہ وہ تمہیں میرے ہوتے ہوئے کچھ کہہ سکے آخرکار معاملہ کھل جاتا ہے اور شہوار مہوش کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے دانش کو پچاس ملین کی آفر کرتا ہے جو وہ ٹھکرا دیتا ہے اور مہوش کو چھوڑنے پر بھی تیار ہوجاتا ہے، مہوش شہوار کے ساتھ چلی جاتی ہے خوب گرم گرم ڈائیلاگ سننے کو ملتے ہیں دونوں خوب مزے کرتے دکھائی دیتے ہیں کچھ عرصے بعد مہوش شہوار سے شادی کا مطالبہ کرتی ہے لیکن وہ لیت و لعل سے کام لیتا ہے لیکن آخرکار مان جاتا ہے جس دن شادی ہونا ہوتی ہے اسی دن ایکدم سویرا ندیم کی انٹری  ہوتی ہے اور یکدم سے کھیل ہی پلٹ جاتا ہے شہوار کی بیوی آتے ہی اسکو اندر کرا دیتی ہے اور مہوش کہیں کی نہیں رہتی شہوار کا کیریکٹر ایکدم سے ختم کر دیا جاتا ہے اور اگر غور کریں تو قمر صاحب جو بیانیہ آجکل بیچ رہے ہیں اس بیانیے کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اگر ہم ذرا سا شہوار احمد نامی انہی کے لکھے کردار پر غور کریں تو کچھ سوالات جنم لیتے ہیں۔

خلیل الرحمٰن قمر سے کوئی یہ پوچھے کہ آپ نے جو یہ راگ الاپا ہوا ہے کہ مرد یا باپ کے حقوق پر کیوں بات نہیں ہوتی تو شہوار احمد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا وہ ایک مرد نہیں ہے؟ مہوش اگر غلط روش پر چل پڑی ہے تو کس کے آسرے ایک مرد کے اور ایک ایسا مرد کہ جو خود شادی شدہ ہے، باپ ہے، شوہر ہے، وہی باپ اور شوہر کہ جس کی مظلومیت کی دہائی دیتے دیتے آپ تھک نہیں رہے مہوش کو اپنے شوہر سے نفرت کرانے، اسے ورغلانے اور اس کو بغاوت کرنے کا حوصلہ شہوار احمد کی دین ہے یہ مرد ہی ہے کہ جس نے اپنی معاشرتی حیثیت کو استعمال کر کے ایک ہنستا بستا گھر برباد کر دیا لیکن قمر صاحب نے اس کردار کو اس طرح ایکدم سے ختم کر دیا جیسے وہ تھا ہی نہیں پورا ڈرامہ یہ ثابت کرنے میں گزار دیا گیا کہ عورت بیوفائی کر رہی ہے لیکن شہوار پر فوکس نہیں جانے دیا گیا۔۔ در حقیقت یہ شہوار اس معاشرے کے وہ نوے فیصد خلیل الرحمٰن قمر ہیں جن کو باہر نکلی ہر عورت مال لگتی ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر اسکو حاصل کر کے ہی رہتے ہیں.۔

آئیے اب ذرا اسی ڈرامہ کے ایک اور کردار کی بات کر لیتے ہیں شہوار کی بیوی کے کردار کی یہ بھی ایک عورت ہے کہ جو اپنے شوہر کی سب کرتوتوں سے واقف ہے اس وقت ڈرامہ میں داخل ہوتی ہے کہ جب اسکا شوہر دوسری شادی کر رہا ہے لیکن اسکے آتے ہی سب بدل جاتا ہے وہ اپنے شوہر کو تو اندر کرا دیتی ہے لیکن اس لڑکی کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرتی ہے کہ نہ صرف اسکو جانے دیتی ہے بلکہ ایک کثیر رقم بھی اسکو یہ کہہ کر دیتی کہ تمہاری جیل یہ معاشرہ ہے یہ رقم رکھ لو کیونکہ شاید بغیر پیسوں کے یہ جیل مزید سخت ہوجائے گی۔
اس گھٹیا کہانی پر بات کرنا بہت کوفت آمیز ہے لیکن قمر صاحب کے کردار انہی کا منہ چڑھا رہے ہیں۔۔

سوال یہ ہے کہ مہوش کو تو آپ نے بدکردار ثابت کر دیا لیکن شہوار پر آپ بات کیوں نہیں کرتے جبکہ دانش کو آپ ولی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اگر ایک مرد دانش ہے اور اسکی زندگی ایک عورت کی وجہ سے جہنم بنی تو اس عورت کا کیا وہ محض ذاتی فعل تھا یا اس میں کسی مرد کا بھی حصہ تھا تو جواب یہ ہے کہ ایک مرد نے ہی اسُ عورت کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ اگر اپنے شوہر سے بیوفائی کر بھی لے گی تو اسکی زندگی پر اس کے خوشگوار اثرات ہی پڑیں گے بلکہ اسکی زندگی حسین ہوجائے گی۔ڈرامے کا ماحول یہی بتا رہا ہے اس آدمی کی ان دونوں کی زندگی میں انٹری سے پہلے یہ دونوں ایک خوشگوار زندگی گزار رہے تھے، قمر صاحب آپ نے دانش کی شرافت کی تو خوب تشہیر کی لیکن آپ نے شہوار کو ایک سائیڈ اور غیر اہم کیریکٹر کے طور پر چھپا رہنے دیا کیوں؟؟ کیوں آپ یہ نہیں بتا رہے کہ مہوش کا قصور صرف ایک ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے بیوفائی کی لیکن شہوار نہ صرف اپنی بیوی سے بیوفائی کر رہا ہے بلکہ اپنی دولت اور معاشرتی حیثیت کے بل بوتے پر سفید پوش لڑکیوں کو سبز باغ بھی دکھاتا ہے، انکے گھر برباد کرتا ہے تو زیادہ مکروہ کون ہے؟ جبکہ اسی ڈرامے میں موجود سویرا ندیم نہ صرف یہ کہ اپنے اس بدکردار شوہر پر رحم نہیں کرتی جبکہ شوہر کی معشوقہ پر مہربان بھی ہے جو اسی کا گھر برباد کرنے چلی تھی۔

آپ میں سے جس جس نے یہ ڈرامہ دیکھا ہے وہ اس نظر سے اگر دیکھنے کی کوشش کرے تو کہانی بالکل الٹ جاتی ہے اور سیدھی خلیل الرحمٰن قمر کے منہ پر جا پڑتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اس معاشرے میں مرد صرف ایک بار ساتھ سونے کے لیے عورت کے ساتھ شادی سے لیکر ہر وہ وعدہ کر لیتا ہے کہ جس کی وہ حقیقت تک نہیں جانتا کچھ عورتوں نے جب یہ بھانپ لیا کہ اگر جسم دے کر بہت ساری ایسی مراعات انجوائے کی جا سکتی ہیں کہ جن کا حصول کسی بھی لیگل رشتے میں ممکن نہیں تو اس نے یہ راستہ جو اسکو مرد نے ہی دکھایا اسکو اپنا لیا۔۔کون ہے جو اس بات سے انکار کر سکے کہ یہ اس معاشرے کا پیسے والا مرد عورت کو کیا سمجھتا ہے؟ آپ جو مرد کی مظلومیت کا پرچم لے کر باہر نکلے ہیں آپ بتا سکتے   ہیں  کہ مرد ایسے دیکھے کہ جن کا منہ کسی عورت نے تیزاب سے صرف اس لیے جلا دیا ہو کہ وہ اسکو لفٹ نہیں کراتا؟ کتنے مرد ہیں کہ جن کی شادی قرآن سے ہوئی ہے؟ کونسا مرد ہے کہ جس کی بہنوں نے اسے جائیداد سے محروم کر دیا ہے؟ اس معاشرے میں اگر ایک مرد کو جنسی عمل کے لیے ایک سے زیادہ عورتیں میسر ہو جائیں تو یہ مرد کے لیے فینٹسی جبکہ عورت کے لیے گینگ ریپ بن جاتا ہے۔

آپ کے خیال میں “میرا جسم میری مرضی” ایک واہیات نعرہ ہے جبکہ سچ پوچھیں تو ہر مرد کی خواہش یہی ہے کہ عورت کے جسم پر اسکی مرضی چلے آپکو عورت کی مرضی سے تو جو مسئلہ ہے ہم جانتے ہی ہیں لیکن اصل مرچیں اس بات کی ہیں کہ عورت کے اس اختیار کے بعد آپ کہیں کے نہیں رہیں گے کیونکہ آپکا کُل اختیار اس عورت پر ہی چل سکتا ہے کہ جو بد نصیب آپ سے کسی بھی لحاظ کے رشتے میں بندھ گئی ہے چاہے وہ ماں ہو بہن ہو بیوی ہو بیٹی ہو معشوقہ ہو کولیگ ہو کلاس فیلو ہو یا جو بھی ہو اس کی سب سے بڑی مثال اس دن دیکھنے کو ملی کہ جب اسی خلیل الرحمٰن قمر کو عامر لیاقت نے اس سے کہیں زیادہ ذلیل کیا کہ جتنا وہ ماروی سرمد کے ہاتھوں ہوئے تھے لیکن ایک لفظ نہ بولے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایک تو عامر لیاقت نہ صرف مرد ہے بلکہ بدتمیز ترین مرد ہے اور یہ مجھے میری وہ اوقات دکھائے گا جو مجھ سے دیکھی نہیں جائے گی لہذا چپ رہنا ہی بہتر ہے لیکن یہی خلیل الرحمٰن قمر جب ماروی سرمد کے سامنے بیٹھے تھے تو انکے آبگینوں کو شٹ اپ جیسے معمولی لفظ سے ٹھیس پہنچ گئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں خلیلیوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ وہ ملک ہے کہ جہاں اگر کسی کی جوان بہن، بیوی یا بیٹی مر جائے تو گھر والے اسکی قبر کا پہرہ اس وقت تک دیتے ہی کہ جب تک انہیں یہ یقین نہ ہو جائے کہ اب لاش سڑ گل گئی ہوگی اور ایسا وہ اس لیے کرتے ہیں کہ کوئی مظلوم خلیلیا اس جوان عورت کی لاش نکال کر اپنی وہ پیاس نہ بجھا لے جو وہ کسی زندہ عورت سے نہیں بجھا پا رہا، یہاں پر کچھ خلیلیے وہ بھی ہیں جو عورت کی بدکاری، بے حیائی اور بے وفائی کا بدلہ گدھی، بکری، کتیا اور نہ جانے کس کس مادہ جانور سے بکثرت لیتے ہیں یہاں کے کئی خلیلیوں کو لگتا ہے کہ اگر وہ کسی بھی طرح گدھی کے ساتھ جنسی ملاپ کر سکیں تو یہ انکے عضو مردانہ کی لمبائی اور چوڑائی میں اضافے کا سبب ہوگا جب اتنے اعلیٰ افکار ہوں تو عورت مارچ کے ہر پلے کارڈ سے شہوت ہی ٹپکتی نظر آئے گی اور ہر وہ عورت کہ جو کسی بھی وجہ سے چاہے اپنے فالج زدہ باپ یا شوہر کی دوائی لینے ہی باہر نکلی ہو گشتی ہی لگے گی۔
مطالبہ عورت کو مرد سمجھنے کا نہیں فرد سمجھنے کا ہے جو ظاہر ہے کسی انسان کی سمجھ میں تو آ سکتا ہے کسی ایسے جانور کی نہیں کہ جس میں آنکھوں کی جگہ ایکسرے مشین اور دماغ کہ جگہ کموڈ فکس ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میرے پاس تم ہو” ایک فیمنسٹ ڈرامہ۔۔سید علی نقوی

  1. واہ واہ مخترم
    آپ نے اپنے بڑے لکھاری ہونے کا بے مثال مشاہدہ پیش کیا۔??????

Leave a Reply