میرا جسم میری مرضی۔۔ساجد ڈاڈی

“میرا جسم میری مرضی ” یہ کوئی جدید نعرہ نہیں ہے بس ببانگ دہل اس کا اظہار دور حاضر کا خاصہ ہے۔انسانی تاریخ میں جب کبھی کسی نے اپنے جسم کا استعمال سماجی و معاشرتی روایت سے ہٹ کر کیا ہوگا تو اس کے ذہن میں کارفرما وجہ صرف یہ ہی رہی ہوگی کہ میرا جسم میری مرضی۔

ویسے تو اس نعرے کے معاشرے پر پڑنے والے  اثرات پر طویل بحث کی جاسکتی ہے لیکن میرا موضوع گفتگو ماروی سرمد کا صرف ایک جملہ ہے “ہم چاہیں تو بچے پیدا کریں،ہم چاہیں تو اپنے شوہر سے تعلق قائم کریں۔

اگر تو جملہ یوں ہوتا کہ میاں بیوی چاہیں تو تعلق قائم کریں،چاہیں تو بچے پیدا کریں توپھر اعتراض کی کوئی وجہ نہیں تھی لیکن یہاں عورت کو جہاں ایک قدم آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار ہے وہیں مرد کو ایک قدم مزید پیچھے کرنے کی بھی تمنا ہے کیونکہ مرد کی خواہش کو تو محترمہ نے پس پشت ہی رکھا ہے۔

اس جملے میں براہ راست اس رشتے میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جو کسی بھی سماج و معاشرے کی بنیاد ہوتا ہےاورجب بنیاد ہی کو ہلانے کی کوشش کی جائیگی تو سماج اور معاشرے کی عمارت بھی ڈھیر ہوجائیگی۔شادی جیسے مقدس رشتے،حقوق اور ذمہ داریوں پر قران و حدیث سے تو بے شمار دلائل دیئے جاسکتے ہیں لیکن چونکہ یہ لوگ مذہب کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے لہذا مذہبی دلائل کو ابھی ایک طرف رکھتے ہیں۔

جب کوئی  مرد اور عورت شادی کرتے ہیں تو درحقیقت وہ اس بات کا اقرار اور عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنی بقیہ زندگی اپنے شریک حیات کے نام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی خواہشات کے تابع ہوجاتے ہیں۔مرد ، عورت کو اس کے تمام حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ قبول کرتا ہے اور عورت بھی مرد کو اسی طرح قبول کرتی ہے۔اب جبکہ ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا معاہدہ ہوچکا تو پھر یقینی ہے کہ تمام معاملات باہمی رضامندی کے ساتھ انجام دیئے جائیں گے اور کسی معاملے پر اختلاف کی صورت میں کوئی ایک فریق لازمی سرتسلیم خم کرے گا، بصورت دیگر معاملات خراب ہوکر اس نہج پر پہنچ جائیں گے، جہاں معاہدے کی پاسداری ممکن نہ رہیگی اور نتیجہ طلاق کی صورت میں برآمد ہوگا۔طلاق کو کسی بھی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا چاہے پھر وہ معاشرہ مشرقی ہو یا مغربی۔طلاق جیسے ناپسندیدہ عمل کے بعد بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔بچوں کی ذہنی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں منفی رجحانات میں اضافہ ہوتا ہے۔خواہشوں کی تکمیل کے لئے غیر قانونی راستے اختیار کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اور پھر انہی بچوں نے بڑے ہوکر سوسائٹی میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتاہے۔اب جب سوسائٹی کا اثاثہ اس طرح کے بچے ہوں تو پھر آپ خود ہی اندازہ لگالیجیے کہ معاشرہ کس ڈگر پر چل رہا ہوگا۔

اب اگر ماروی صاحبہ کی منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر ہر فریق اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرے گا۔شوہر نان نفقے پر اپنی مرضی کرے گا تو بیوی گھریلو ذمہ داریوں پر اپنی مرضی مسلط کرے گی۔اب ذرا سوچیے کہ کیا اس صورتحال میں جہاں دو جسم عملی طور پر یک جان ہوتے ہیں وہاں اگر اس طرح فریقین اپنی اپنی مرضی مسلط کرنے کا عہد کرلیں تو پھر کونسا گھر ہے جو قائم رہ سکے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال یہ نہیں ہے کہ آپ کے مطالبات کے حوالے سے  مذہب کی تعلیمات کیا ہیں سوال یہ ہے کہ آپ کے مطالبات کو اگر عملی جامہ پہنا بھی دیا جائے تو انسانوں کی عملی زندگی پر پڑنے والے اثرات کی تباہ کاریوں کا سدباب آپ کیسے کرینگے؟

Facebook Comments

ساجد ڈاڈی
فیس بک پر "اقبال جرم" کے نام سے موجود ہیں۔سیاسی معاملات پر اپنا نقطہ نظر برملا پیش کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply