سوال ۔۔ مختار پارس

میرے پاس تمہارے سوالوں کا کوئی جواب نہیں۔ تمہارے سوال مجھے تحلیل کر دیتے ہیں۔ میں کبھی ہوا بن کر کسی ٹہنی سے لٹک جاتا ہوں اور کبھی خوشبو بن کر گلِ بیتاب کو مخمور کر دیتا ہوں۔ سوال میرے دل کی دھڑکن کو بادل کی گرج بنا دیتے ہیں اور سمندر کے نمک کو آنکھوں میں بہا دیتے ہیں۔ ہستی سے نیستی تک کے سفر کو سمجھ نہیں پایا تو کیا بتاؤں۔ اتنا بھی یقین نہیں کہ میں ہوں بھی یا نہیں؛ جہاں میں ہوں، اگر میں وہاں نہ ہوا، تو میں کیا منہ دکھاؤں گا میرے مولا۔ اس لیے مجھ سے کچھ نہیں پوچھو۔ پہلے مجھے خود سے ہم کلام ہونے کی اجازت دے دو۔ مجھے خود سے پوچھنے دو کہ میں کہاں ہوں۔ مجھے کوئی جواب مل گیا تو ضرور بتاؤں گا۔
سوال صرف نشانِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ منزل نہیں ہوتے۔ منزلوں کی طرف جانے والے ان نشانوں کو بغیر دیکھے گزر جاتے ہیں اور اپنے پیچھے آنے والوں کےلیے سوال چھوڑ جاتے ہیں۔ خدا نے بھی سوال کسی جواب کو سننے کےلیے نہیں کیے۔ پہلے پوچھا کہ کیا ہم نے تیرے لیے تیرا سینہ نہیں کھول دیا؟ پھر سوال کیا کہ کیا اس نے تمہیں یکتا نہیں بنایا اور آغوش میں نہیں لیا؟ پھر استفسار کیا کہ دیکھا نہیں کہ ہاتھی والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ پھر سوال ہوا کہ کیا اسے نہیں پتا کہ وہ دیکھ رہا ہے؟ ان سوالوں کا جواب صرف’ ہاں’ تھا مگر خدا کا مقصد ہاں میں جواب سننا نہیں تھا۔ وہ تو صرف یہ چاہتا تھا کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاؤں کہ  مقصدِ زیست ‘ ہاں’ میں پنہاں ہے یا ‘ نہیں’ میں۔ جس نے ہاں کی، وہ پابند ہو گیا؛ جس نے نہیں کی، اسے مہلت مل گئی۔ جو نشانِ راہ پر بیٹھ گیا، بکھر گیا اور جو سر اٹھا کر منزل کی جانب بڑھ گیا، نکھر گیا۔
نگاہِ یار کا شاخسانہ ہے یا حیاتِ جاوداں کا درماں کہ ساحل پر اب کوئی لہریں سر نہیں پٹختیں۔ عرصہِ دراز سے سوال و جواب، منطق و استدلال، دلیل اور استغراق چھوڑ دیے ہیں۔ اب نہ حزن و ملال ہراساں کرتا ہے اور نہ تبسم و تکریم کی خواہشیں تلملاتی ہیں۔ میں اب سمندر نہیں رہا کہ اب سوال نہیں رہے۔ میرے پُرسکون پانیوں پر اب صرف پورے چاند کا عکس لرزتا ہے جسے صرف میں دیکھ سکتا ہوں۔ مجھے کسی جواب سے سروکار نہیں۔ مجھے تو غرض اس نخشب سے ہے جس کا طلسم مجھے پانی اور اسے چاند کر دیتا ہے۔ ماہِ تمام کبھی انگشت سے دولخت ہو کر دوبام نظر آتا ہے اور کبھی اقصیٰ کے میناروں پر سرعام نظر آتا ہے۔ جو عیاں ہو، اس پر سوال نہیں بنتے؛ جو خفتہ ہو، اس کو جواب نہیں دیتے۔
موسیٰ نے جب مصر کے محل میں آنکھ کھولی ہو گی تو اسے کون نظر آیا ہو گا، خدا یا فرعون؟ اگر اسے خدا نظر آیا تھا تو پھر اس نے کوہِ طور پر چہرے سے پردہ ہٹانے کو کیوں کہا تھا۔ موسیٰ یہ سوال نہ کرتا تو نہ تجلی پہاڑ کو سرمہ کرتی اور نہ موسیٰ کی زبان میں لکنت آتی۔ ہم بھی اپنی تہذیب و تمدن کے عہدِ موسیٰ میں جی رہے ہیں۔ معجزے رونما ہوتے ہیں تو ہم سمجھ نہیں پاتے۔ خدا ہمیں ہر آنکھ میں سے دیکھ رہا ہے، وہ کبھی لفظوں میں سنائی دیتا ہے کبھی دل کی دھڑکنوں میں۔ ہو سکتا ہے وہ کسی غریب کی کٹیا میں بیٹھا ہو۔ مگر ہم اسے محلوں اور میناروں میں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ پھر جب وہ اچانک نظر آتا ہے تو ہمیں سہارے کےلیے لفظ نہیں ملتے۔ معاملہ یقین کا ہو تو سوال اس کی ضد ہے۔ سوال سامری کو جنم دیتے ہیں اور سامری اورسوالوں کو جنم دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ ابتداء و ابتلاء ہمیں کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔
لاکھوں سال کے انسانی زندگی کے تجربے کے بعد بھی انسان نے کوئی نیا سوال نہیں کیا۔ کب، کہاں، کیوں اور کیسے کی زنجیریں اسے کچھ اور سوچنے ہی نہیں دیتیں۔ ہر شخص پیدا ہو کر وہی سوال پوچھتا ہے جو اس سے پہلے والوں نے پوچھے تھے۔ نہ درسگاہیں اس کے تجسس کو نیاپن دے سکی ہیں اور نہ قلم و قرطاس سے اس کو تشفی ہوئی ہے۔ زندگی خود ہی ایک دن اس کو اس کے سوالوں کا جواب دے دیتی ہے۔ عموماً لڑکپن میں پوچھے جانے والے سوالوں کا جواب بزرگی میں ملتا ہے۔ آخری عمر میں جا کر احساس ہوتا ہے کہ وہ سب کارِ زیاں تھا جو تلاشِ گلِ نورستہ میں وحشت کی نظر ہو گیا۔ خوشی اور مسرت کے چند لمحے زندگی کا حاصل قرار پاتے ہیں اور ان کا زر و جواہر سے اور کسی خوبرو سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ روزِ اول سے قناعت کا جو سبق انسان کو ملا، اس نے اسے کبھی یاد نہ کیا۔ ہر شخص نے یہ بات اپنے تجربے سے ہی سیکھی۔ کسی نے، کسی دوسرے سے کچھ نہیں سیکھا۔ کسی گاؤں میں کسی برگد کے نیچے رہٹ کے پاس بیٹھا پُرسکون چہرے والا شخص کسی دارلحکومت کی سو منزلہ جھلملاتی عمارت کے بالائی حصے میں بیٹھے اربوں کے فیصلے کرنے کی عجلت میں مبتلا پریشان چہرے والے ‘ سی ای او’ کو جوہرِ مراد تک پہنچنے کا راز بتا بھی دے تو اس پر کون یقین کرے گا۔ مگر حق یہ ہے کہ جہاں سکھ ملے، وہاں سوال کرنے کی بجاۓ سر جھکا دینا چاہیۓ اور سکھ وہیں ملے گا جہاں سرکو جھکنا چاہیے۔
خطا، رضا اور سزا کو عقل کے پیمانوں سے ناپنے والا پوچھتا رہ جاۓ گا۔ جو حق پر ہے اسے حقیقت تک پہنچنے میں دشواری نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سارے راستے راست کے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ انسان خدا بننے کی کوشش نہ کرے۔ کسی کو اپنی مرضی میں مقید نہیں کیا کرتے۔ ہر شخص نے اپنا راستہ ڈھونڈ کر اسی برگد کے درخت کے نیچے رہٹ کے پاس جا کر بیٹھنا ہے۔ شام ہو گی تو سارے پرندے لوٹ آئیں گے۔ اس لیے سوال نہیں کرو، شام کا انتظار کرو۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply