ماروی سرمد،خلیل الرحمٰن قمر اور میری بے وقوفی۔۔فراست محمود

فراست اب تم ماروی سرمد کو ڈیفینڈ کر رہے ہو
میں نے پوچھا کیسے؟
میرے دوست نے کہا کہ میں نے ماروی کو  گالی دی، اور تم خاموش ہو گئے۔
دوسرے دوست نے کہا” فراست آپ ماروی کو سپورٹ کیوں کر رہے ہو.
میں نے پوچھا کہ ایک لفظ بھی بتاؤ جو میں نے اس کے حق میں بولا یا لکھا ہے؟
اس نے کہا کہ تم نے اس کے خلاف بھی تو نہیں لکھا اور خلیل الرحمٰن قمر کی بات کو گالی سمیت قبول نہیں کیا تو اس کا سیدھا مطلب ہے کہ تم اس (ماروی) کے حمایتی ہو۔
یہ سماج جہل کی زد میں ہے یہاں بات کرنا حرام ہے۔
جائیں تو کدھر جائیں،بولیں تو کیا بولیں،لکھیں تو کیا لکھیں اور کیسے لکھیں؟۔
بزرگ کہتے تھے کہ دریا کے بہاؤ کے خلاف تیرنے کی کوشش یا بے وقوف کرتے ہیں یا بہادر۔
اپنے “پڑھے لکھے اور باشعور” معاشرے میں رہتے ہوئے بہاؤ کے خلاف چلنا یقیناً پہلی طرح کے لوگوں یعنی بے وقوفوں میں ہی شمار ہوگا۔اور مجھ سے اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی یہ بیوقوفی ہو ہی جاتی ہے۔میں اپنی طرف سے ہر چیز کو حقیقت کے آئینوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور گرداب میں پھنس جاتا ہوں نہ تیرکر واپس کنارے پہ پہنچ پاتا ہوں اور نہ منزل کی جانب سفر جاری رکھ پانا ممکن رہتا ہے مخالف دھارا اپنی رفتار میں اتنا تیز ہوتا ہے کہ ہاتھ پاؤں مارنے کی سکت ختم ہوتی اور سانس ڈوبتی محسوس ہوتی ہے۔
سوچوں پہ پہرے ہیں زخم بڑے گہرے ہیں
لکھنے سے قاصر ہوں بولنے سے عاجز ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

خلیل الرحمٰن ہو یا ماروی سرمد دونوں ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں ہمیں نہ دونوں کے کردار سے غرض ہے نہ دونوں کی نجی زندگی سے۔البتہ خلیل کو علمی و ادبی لحاظ سے ماروی کی نسبت فوقیت ضرورحاصل ہے اور میں خود اس کے لکھے ڈرامے ” میرے پاس تم ہو” کے حق میں باقاعدہ ایک تحریر لکھ کر خلیل الرحمٰن قمر صاحب کو مبارکباد بھی دے چکا ہوں۔میری خلیل الرحمٰن صاحب سے اس سے پہلے نہ کوئی ذاتی رانجش نہ انا نہ بغض نہ حسد کچھ بھی نہیں ہے۔کیونکہ میں اس کے لیول کا ہوں نہیں جو مذکورہ کوئی جنگ بھی اس سے کروں۔
یہاں ذکر صرف ایک ٹی وی پروگرام کے نتیجے میں ہونے والی گفتگو کے متعلق ہے جو کہ خلیل الرحمٰن بہت خوبصورت طریقے سے بیان کر رہے تھے اور اپنا مدعا سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک فریق مخالف کی بے جا مداخلت سے خلیل صاحب فرطِ جذبات میں ایسے بپھرے کہ اپنے خوبصورت مدعے کو بھی ساتھ بہا لے گئے اور جیتی ہوئی گفتگو کو متنازع بنا دیا۔
اور یوں اس لفظوں کی جنگ نے پاکستانی قوم کو دو نہیں تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔اسّی فیصد لوگوں نے خلیل الرحمٰن قمر کی بات کو گالی سمیت ناصرف قبول کر لیا ہے بلکہ خلیل الرحمٰن کو باقاعدہ اسلامی و اخلاقی اقدار کا محافظ مان کر ساتھ کھڑے ہیں جب کہ دس فیصد لوگ ماروی کے حق میں جب کہ دس فیصد میرے جیسے لوگ خلیل الرحمٰن کے روئیے اور گالی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
خلیل الرحمٰن،ماروی سرمد،عامر لیاقت،حسن نثار،منصور خان،حامد میر یہ سب لوگ ہمیں کیا اخلاقیات یا روایات کا سبق سکھائیں گے سب ہی ننگے ہیں۔
باقی رہی بات کہ میں نے ماروی کے خلاف کچھ نہیں لکھا تو اب لکھ رہا ہوں ماروی بد تمیز عورت تھی اور بد تمیز ہی ہے اور میں اس کو بد تمیز ہی مانتا ہوں۔گالی چاہے عورت مرد کو دے یا مرد عورت کو دونوں صورتوں میں گالی دینے والا ہی غلط ہو گا۔
میرے خیال میں یہ جذبات میں کی گئی غلطی تھی اور اب اس جذباتی غلطی کو خلیل الرحمٰن قمر صاحب اسلامی اور اخلاقی پردے کی آڑ میں دبانے کے چکر میں ہیں۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ غصہ آنا فطری عمل ہے اور غصے میں انسان سے غلطی ہو جاتی ہے اس لئے خلیل الرحمٰن نے بھی غصے میں ہی گالی دی ہے تو بھائی آپ کی یہ دلیل مان لیتے ہیں کہ گالی غصے میں ہی دی ہو گی مگر غصہ تو وقتی تھا غصے ختم ہونے کے بعد اس گالی کا ازالہ بھی تو بنتا ہےنا۔(نہیں بھائی غصہ نہ کریں ،نہیں دل تو ازالہ رہنے دیں).
خلیل الرحمٰن قمر نے پروگرام کے بعد کہا کہ مجھے میری بیوی نے کہا تھا “کہ اگر تم اس گھٹیا عورت سے ہار کے آئے تو میں تمہیں گھر نہیں آنے دوں گی ” تو کیا پتہ خلیل صاحب نے گھر میں داخل ہونے کے لئے یہ سب کیا ہو۔
اگر آپ دلیل فتح گالی ہی کو سمجھتے ہیں تو آپ خود اس بات کا تعین کر لیں کہ آپ کس مقام اور کتنی اونچائی پہ کھڑے ہیں۔
ویسے تاریخ میں دوسری بار گالی کی خصوصیات بتائی جا رہی ہیں۔
خلیل الرحمٰن قمر زندہ باد۔
میں نے یہ نعرہ کیوں مارا ہے یہ آپ کو پتہ ہے نا۔
(میں نے کوشش کی ہے کہ سیدھی سی بات لکھوں اس لئے اس تحریر سے خدارا اپنے مطلب کے معنی اخذ کرنے سے پرہیز ہی فرمائیے گا اور اخلاقی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اختلاف کیجئے گا کیونکہ نقطہء نظر سے اختلاف کرنا ہر بندے کا حق ہے).

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply