مرضی تو تمہاری ہی ہے ،لیکن۔۔۔نجم صفدر حسین

سرِفہرست تو یہ کہ   عورت مارچ تمام خواتین کا نمائندہ ہرگز نہیں، یہ صرف ایک مخصوص کمیونٹی یا مائنڈ سیٹ کی حامل خواتین کا شغل میلہ ہے جنہیں اپنے ہی طرز کے مردوں کا ساتھ حاصل ہے، اور کیونکہ  اس طبقے کی  ملکی و غیر ملکی اعلی عہدیداران، حکومتی نمائندوں، سرکاری اعلی افسران، سیاسی جماعتوں اور بالخصوص میڈیا  تک  خاصی پہنچ  ہے تو بس انہیں ہوّا بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

باقی رہے انکے مطالبات تو انکے پیش کردہ مطالبات سے کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں، تقریباً تمام مطالبات ہی جائز ہیں، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً ان تمام معاملات پر ہی ریاست یا دین نے پہلے سے قانون سازی کر رکھی ہے، لیکن جیسے ہمارے ہاں ہر چیز ہی تباہ حال ہے ویسے ہی یہ قوانین بھی ہیں کہ قانون تو موجود ہے لیکن عمل درآمد کروانے والا کوئی نہیں، اور اس معاملے میں مرد بھی تو برابر کے مظلوم ہیں۔

خواتین مارچ سے مجھ سمیت جن جن لوگوں کا اختلاف ہے وہ بس دو باتوں پر ہے۔۔
پہلا یہ  کہ آج سے پہلے تک ہمارے ملک میں جرم کو لسانی، فرقہ وارانہ، اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا تھا، کہ میری قوم، میرے علاقے، میرے فرقے کے بندے کے ساتھ جرم ہوا ہے تو وہ جرم ہے، لیکن وہی حرکت اس نے کسی دوسرے فرقے، علاقے، یا قوم والے کے ساتھ کی ہے تو یہ جرم نہیں بس خطا ہے جسے درگزر کردینا چاہیے۔
لیکن اب عورت مارچ والوں نے ایک نئی تقسیم کا آغاز کردیا ہے، کہ جرم اگر عورت کی جنس کے ساتھ ہورہا ہے تو وہ جرم ہے اسکے لیے آواز بھی اٹھائی جائیگی، احتجاج بھی ہوگا، ٹی وی پروگرامز بھی ہوں گے، سیمینار اور کانفرنسز بھی منعقد ہوں گی، لیکن وہی یا ویسا جرم اگر مردوں کی جنس کے ساتھ ہو تو مکمل خاموشی۔

مثال کے طور پر عورت مارچ والے جنسی زیادتی پر آواز اٹھا رہے  ہیں، بالکل ٹھیک مطالبہ ہے ہم بھی انکے ساتھ ہیں لیکن ایک تو جب ایسے مجرم کو پھانسی ہوتی ہے تو سب سے زیادہ انہی  کے پیٹ میں درد اٹھتا ہے، پھر انہیں انسانیت یاد آجاتی ہے اور دوسرا کیا جنسی جرائم صرف خواتین کے ساتھ ہورہے ہیں، کیا ننھے بچوں کے ساتھ بھی یہ جرم نہیں ہورہا، کیا غریب گھروں کے معصوم بچے جو چھوٹی چھوٹی عمر میں اپنی ماں بہن کو پالنے کے لیے کسی ورکشاپ، ہوٹل وغیرہ پر “چھوٹا” بن کر محنت مزدوری شروع کردیتے ہیں کیا وہ بھی روز اسی عذاب سے نہیں گزرتے، تو انکی شنوائی کون کرے گا، انکے لیے مارچ کب ہوں گے۔؟

جہیز مانگنا بغیرتی ہے کے نعرے تو لگ رہے ہیں لیکن کوئی اس چیز کی مخالفت نہیں کررہا کہ  شادی سے قبل لڑکے والوں سے سکیورٹی کے نام پر پیسے یا پراپرٹی لینا، مختلف رسم و رواج کے نام پر لاکھوں کے فضول خرچے کروانا وہ بھی تو غلط ہے وہ کیوں نہیں نظر آرہا؟

دوسرا بظاہر عورت مارچ کے تمام مطالبات درست ہیں، اگر بات اس تک محدود رہے تو ہمارے ملک میں موجود ہر ہر انسان چاہے وہ مذہبی ہو یا جس بھی مکتبہ فکر سے وہ انہیں سپورٹ کرے گا لیکن
میرا جسم میری مرضی، کھانا خود گرم کرو، لو بیٹھ گئی ٹھیک سے، نکاح ختم کرو، میرے کپڑے میری مرضی، ڈوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں ہر باندھ لو اور اسکے علاوہ بینرز پر لکھے ان گنت فحش نعروں کی کیا تُک بنتی ہے، کیا منتظمین پر یہ  بات لاگو نہیں ہوتی  کہ وہ ایسے بینرز اٹھائے مارچ میں شامل افراد سے سختی سے نمٹ کر واضح پیغام دیں کہ ہمارے مقاصد ہمارے مطالبات کی طرح مکمل نیک ہیں، یہ اس طرح کی گندی سوچ والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست بھی اپنا کردار ادا کرے، مارچ کو اجازت ضرور دے ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں یہاں سب کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی بات کہہ  سکیں، لیکن مارچ میں ایسے فحش نعرے لگانے والوں کو فی الفور گرفتار کرکے انکے خلاف بھی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے مقدمات دائر کیے جائیں، کیونکہ یہ بھی تو اپنی طرز کی انتہاء پسندی ہی  ہے ،جو یہاں رچی جاتی ہے۔
اور اسی انتہاء پسندی کی ایک جھلک ہم نے پچھلے دنوں معروف رائٹر خلیل الرحمٰن اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم ماروی سرمد صاحبہ کے جھگڑے میں بھی دیکھی، خلیل الرحمٰن قمر صاحب کے الفاظ اور لہجہ انتہائی قابل مذمت ہے، انہیں لائیو پروگرام میں ایسی گندی زبان ہرگز استعمال نہیں کرنی چاہیے تھی، لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ لاہور اور اسلام آباد دونوں کی ہائیکورٹس نے عورت مارچ کے خلاف دائر کی گئی پٹیشنز کو یہ کہہ  کر خارج کیا تھا کہ خواتین کو انکے آئینی حق سے ہرگز محروم نہیں کیا جاسکتا، مارچ کرنا ریلی نکالنا انکا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا، لیکن معزز جج صاحبان کے واضح الفاظ تھے کہ “میرا جسم میری مرضی” جیسے فحش نعروں کی ہرگز اجازت نہیں دی جائیگی، لیکن اس طرف کے انتہاء پسندوں کو خلیل الرحمٰن قمر کی گالیاں تو نظر آرہی ہیں، وہ انہیں تو بُرا بھلا کہہ  رہے ہیں، انکی کردار کشی تو ہورہی ہے، لائیو پروگرام میں پہلے ریٹنگ کے لیے انہیں بلا کر پھر انکا بائیکاٹ کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، انکے کنٹریکٹ منسوخ کیے جارہے ہیں، لیکن ماروی سرمد صاحبہ کی جانب سے خلیل الرحمٰن قمر کی بات کو ٹوک کر انہیں بھڑکانے کے لیے بار بار “میرا جسم میری مرضی” کے نعرے لگانا نظر نہیں آرہا اور نہ ہی لاہور پریس کلب میں وہ طوفان بدتمیزی مچاتا عورتوں کا گروہ انہیں نظر آتا ہے جو میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگا رہا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply