ہمارے مذہبی مدارس اور مذہبی گروہوں میں یہ بات کافی پائی جاتی ہے کہ مذہب میں سوال و جواب نہیں ہوتے اور جو کوئی بھی تعلیم دی جائے، کسی بھی عالم کی طرف سے، وہ بے چوں و چرا ماننی ہوتی ہے اور کوئی عقلی سوال نہیں کیا جاسکتا، تو اس رویہ کو اندھی تقلید کہا جاتا ہے۔
یہ کیوں ہے؟ کہاں سے پیدا ہوئی؟ اس سوال کا جواب ہماری سب سے مقدس مذہبی کتاب قرآن مجید کو پڑھ کر تو نہیں مل سکتا، کیونکہ اس کا مصنف جو کہ کائنات کا اکلوتا مالک ہے، اس نے اپنی کتاب اتاری تاکہ لوگوں کی تربیت کی جاسکے تو وہ تو لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتا ہوا نظر آتا ہے، اپنی کتاب میں اور لوگوں سے اپنی عقل کا استعمال کرنے کا بار بار کہتا ہے۔ قرآن کریم میں کائنات کے پروردگار نے یہ الفاظ ٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونٌَ تقریباً پچاس دفع استعمال کیے ہیں ایک تحقیق کے مطابق اور اس کے معنی ہیں “جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں” ۔
مثال کے طور پر سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر ۱۶۴ ملاحظہ ہو:
“إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ”
ترجمہ: “بے شک آسمانوں اور زمین کی خلقت، رات اور دن کی آمدوشد، اور ان کشتیوں میں ،جو لوگوں کے لیے سمندر میں نفع بخش سامان لے کر چلتی ہیں اور اس پانی میں ،جو اللہ نے بادلوں سے اتارا اور جس سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشی اور جس سے اس میں ہر قسم کے جان دار پھیلائے اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان مامور ہیں، ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔”
اللہ تعالیٰ جو ہمارا اور اس کائنات کا اکلوتا خالق ہے ،وہ ہی ہمیں توجہ دلا رہا ہے مندرجہ بالا آیت میں، کہ عقل سے کام لینے سے ہی اس کائنات اور اس کے اندر مختلف نظامات کے کارفرما ہونے پرغور کرنے ہی سے انسان کو اللہ کی معرفت ملتی ہے۔ اس نے خود ہی عقل کی دولت ہمیں نوازی تو یہ کیوں ہو گا کہ وہ چاہے گا کہ مذہب کے سچے ہونے کو ماننے کے لیے وہ استعمال نہ کرے۔ وہ تو بلکہ اپنے یکتا ہونے کے دلائل تک دیتا ہے ،تاکہ عقل کے ذریعے ایمان لائیں کہ صرف وہ ہی اکلوتا خالق ہے۔
ملاحظہ ہو سورۃ انبیاہ کی آیات ۲۱ ۔ ۲۵
“کیا اِنھوں نے زمین کے الگ معبود ٹھہرا لیے ہیں ،جو اُس کو جِلا اٹھاتے ہیں؟ اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے معبود بھی ہوتے تو دونوں درہم برہم ہو جاتے۔ سو اللہ، عرش کا مالک اُن سب چیزوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔وہ جو کچھ کرتا ہے، اُس کے لیے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں ہے اور یہ سب جواب دہ ہیں۔کیا اِنھوں نے خدا کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا لیے ہیں ؟ اِن سے کہو کہ اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ اُن کی یاددہانی موجود ہے جو میرے ساتھ ہیں ،اور اُن کی یاددہانی بھی جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں۔ نہیں، کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اِن میں سے زیادہ حق کو نہیں جانتے، اِس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے ہیں، اُن کی طرف ہم یہی وحی کرتے رہے ہیں، کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، سو میری ہی بندگی کرو۔”
مندرجہ بالا آیات عقل کے ہی آگے اپنا مقدمہ پیش کر رہی ہیں، سوال اٹھا کر اور دلیل مانگ کر کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا ہے ہی نہیں ! اس سے بڑھ کر اور کیا رہ جاتا ہے کہ اللہ کا خدا ہونے جیسی سچائی کو ماننے کہ لیے بھی عقل کے استعمال کو مطلوب کیا جا رہا ہے، ورنہ اس خالقِ حقیقی کے لیے کیا مشکل تھا کہ زبردستی منوا لیتا ہم سب سے؟
ہمارے یہاں جب بچہ بڑا ہو رہا ہوتا ہے اور اپنے والدین کے زیرِ پرورش ہوتا ہے تو اس کے سوال کرنے پر پابندی ہوتی ہے اور زیادہ تر یہی بتایا ہوتا ہے کہ مذہب میں سوال نہیں کیے جاتے اور صرف مانا جاتا ہے۔ بچہ کیونکہ والدین کی سرپرستی میں ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اندھی تقلید کرتا ہے کیونکہ اس کے پاس اور کوئی طریقہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی معلومات کو وسیع کرسکے ،کسی اور ذرائع سے اور اپنے سوالات کا جواب حاصل کر سکے ،تو وہ بس اسی مذہب کا پیروکار بن جاتا ہے جس کے اس کے ماں باپ پیروکار ہیں۔ اور یہی کم و بیش ہر مذہب کے ماننے والوں کا حال ہے اور صرف مسلمان اس میں خاص نہیں ہیں، مگر مسلمانوں کے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے جو خود ہی سوالات کا جواب دیتی ہے تو ہم مسلمانوں کا یہ رویہ اور سوالات پر پابندی سمجھ سے باہر ہے۔
جب کہ آج کل کے زمانے میں جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اور جہاں ہر سوال کا جواب چاہے صحیح یا غلط کچھ بٹنوں کے دبانے سے مل جاتا ہو ،وہاں یہ رویہ صرف الحاد ہی کو فروغ دیتا ہے اور کچھ نہیں ۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے اگر کبھی بھی کسی ملحد سے گفتگو کی جائے تو چند چیدہ چیدہ سوالات ہی ہونگے جس کے تسلی بخش جواب کسی نے بھی ان کو نہیں دیے اور وہ اس وجہ سے خدا کا انکار کر بیٹھے ۔ اور پھر ہمارے مذہبی طبقے کا زیادہ تر رجحان بھی یہی ہے کوئی سوال نہیں کرنا ہے ،تو وہ کسی کے پاس سوال لے کر جا بھی نہیں پاتے کہ کفر وغیرہ کے فتوے نہ لگ جائیں۔
اس رویے کو بدلنا ہوگا، لوگوں کو کُھل کر گفتگو اور سوالات کرنے کی اجازت دینی ہوگی ،تاکہ اگر وہ کسی بات کو ماننا چاہیں تو ان کا دل پوری طرح سے مطمئن ہو۔ اکثر لوگ صرف اس وجہ سے بھی کسی بھی مذہب کے پیروکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دوست احباب، خاندان اور عزیز و اقارب کہیں ان سے الگ نہ ہو جائیں، اگر انھوں نے کہیں کوئی مختلف رائے اپنا لی یا مذہب کی کسی بات پر سوال اٹھادیا، تو وہ پھر منافقت کی زندگی گزارنے کو پسند کرتے ہیں۔ اور تمام سوالات اور اشکالات جو ان کے اندر ہوتے ہیں وہ ان کو اندر ہی رکھتے ہیں اور باہر کی دنیا کے سامنے نہیں لاتے ،کیونکہ باہر لانے کے کچھ تنائج ہونگے اور اکثر لوگ ان نتائج کے متحمل نہیں ہو پاتے۔ اور اگر کچھ ہو بھی جاتے ہیں تو وہ الحاد کو اختیار کرتے ہیں۔
اس تقلیدی رویے کی بنیاد نہ اللہ کی کتاب میں اور نہ سیرت ِ رسول ﷺ میں موجود ہے، تو اس کو ہر صورت چھوڑنا ہوگا، بہت سے سوالات سے اس کا مقابلہ کرنا ہو گا تاکہ نئی نسل اپنے آپ کو ان سوالات کا متحمل بنا سکے، اور وہ ثابت قدم رہ سکیں۔ اور اگر اللہ کی کتاب سچ ہے اور رسول ﷺ کی سیرت طیبہ سب سے بہترین سیرت ہے زندگی گزارنے کے لئے ،تو پھر سوالات سے ڈر کس بات کا اور ان کے کرنے پر پابندی کیسی؟؟
اس تقلیدی رویے نے صرف اور صرف فرقہ واریت کی لعنت ہم پر مسلط کی اور کچھ نہیں ، جو جس مسلک میں پیدا ہوگیا ہے وہ یہ ہی سمجھتا ہے کہ وہ ہی سچائی پر ہے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں اور یہاں تک کہ ایک دوسرے کی مساجد میں نماز تک پڑھنے کے مجاز نہیں ہوتے۔ حالانکہ سب کے ایمانیات کی بنیاد ایک ہی ہے اور وہ ان کے والدین اور وہ مذہبی گروہ جس کا وہ حصہ ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اس بنا پر جنت اور دوزخ میں لوگوں کوڈالے گا تو یہ اس کا ظلم ہوگا کیونکہ وہ خود ہی تو ہمیں پیدا کرتا ہے جہاں چاہتا ہے ،تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہوا؟؟ مگر ہم جانتے ہیں کہ وہ انتہائی درجہ کا رحیم اور عادل ہے تو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ،کہ جس بات پر میرا اختیار ہی نہیں تو اس کی وہ مجھ کو سزا دے گا۔ تو ہمارے پاس اللہ کی کتاب موجود ہے اور رسالت مآب ﷺکی سیرتِ طیبہ موجود ہے تو صرف ان دونوں پر غور و فکر کرکے ہی مسلمان بننا چاہیے، ورنہ ہم میں اور ایک ہندو، عیسائی، یا بدھ مذہب کے پیروکار میں کیا فرق ہوا؟؟
Facebook Comments
سافٹ ویئر انجینئر صاحب
عرض ہے کہ میں بھی مکینیکل انجینئیر ہوں اک عدد ود ماسٹرز ڈگری ملک کی ٹاپ یونیورسٹی سے
مگر اتنی سائنس پڑھنے کے بعد بھی میرے مطابق مذہبی تقلید اک سہولت ہے اور ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئیے
جہاں تک آپ نے کہا قرآن پاک میں اللہ نے غور و فکر سوچنے کا بار بار حکم دیا ہے تو میرا اک آسان سیدھا سا سوال ہے
جتنا غور و فکر ہم دین و مذہب پر کرنے کی کوشش کم اور شور زیادہ کر رہے ہیں اگر اس غور و فکر کو سائنس کی طرف موڑ دیں تو شائد ہم سائنس کا نوبل پرائز جیت سکیں
کیا آپ ٹیورنگ ایوارڈ حاصل کر سکتے ہیں ؟
دیکھیں سادہ سی بات ہے ہم لوگ اتنے قابل ہیں ہی نہیں اتنے مخلص ذہین تدبر والے ہیں ہی نہیں
آج ملک کی دو سو یونیورسٹیز میں ایک بھی ریسرچر اس قابل نہیں کہ کچھ ایجاد کر سکے حالانکہ کسی نے روکا ہوا نہیں ہے ہاتھ نہیں باندھے کہ کچھ ایجاد نہیں کرنا
ڈاکٹر ہود صاحب بھی نوبل پرائز نہیں حاصل کر سکے
اس لئے گزارش ہے آپ مذہبی تقلید کرتے ہوئے سائنسی کام کریں نہ کہ سائنسی تقلید کرتے ہوئے مذہبی کام