کرونا وائرس بمقابلہ بڑے حکیم صاحب۔۔علی اختر

وہ پچھلے پندرہ منٹ سے مریض کی نبض پر انگلیاں رکھے ، آنکھیں بند کیئے مراقبے میں گم تھے ۔ کمرے میں پن ڈراپ سائلنس کا ماحول تھا ۔ چہرے پر ایک تناؤ کا سا تاثر معلوم ہوتا تھا ۔ دوسری جانب مریض پر بھی ایک رنگ آتا تو دوسرا جاتا ۔

راقم سے قبلہ بڑے حکیم صاحب کی شناسائی اس وقت کی تھی جب حضرت نپیئر روڈ پر چھابڑی لگائے ہوئے حکیمی ادویات فروخت کیا کرتے تھے ۔ پھر جب وقت نے کروٹ لی۔ اہل کراچی نے اس گوہر نایاب کو پہچانا تو اسی شہر کراچی کے ہرہر چوک ہر چپے چپے پر بڑے حکیم صاحب اور ایک مخصوص مرض کے علاج سے متعلق اشتہارات آموجود ہوئے ۔ حضرت نے جوں جوں ترقی کی اور چھابڑی سے مطب کی جانب سفر کیا توں توں اس مخصوص بیماری کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس، دمہ، امراض قلب وغیرہ کے علاج میں بھی کمال حاصل کرتے گئے لیکن بہر حال وہ جانتے تھے کہ امراض کا سردار وہی ایک مرض ہے (جسکے وہ اسپیشلسٹ تھے) سو لگے ہاتھ اسکا بھی علاج کر دیا کرتے ۔ انکے بقول ” آپ بچے کے ہاتھ بھی G3 پکڑا دیں تو جنگ جیت جائے دوسری جانب کمانڈو کے ہاتھ بھی ڈنڈا دے دیں تو محض چوکیداری ہی کر پائے گا ۔ اور “کچھ ” نہیں۔”

راقم ، حضرت کے دست شفا پر کامل ایمان رکھتا تھا اور اکثر و بیشتر مایوس مریضوں کو انکی جانب ریفر کرتا رہتا تو حضرت بھی خصوصی شفقت فرماتے ۔ علاج معالجے کے علاؤہ بھی مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال رہتا آج بھی کچھ ایسی ہی غیر رسمی سی ملاقات کا ارادہ تھا لیکن حضرت تھے کہ  آنکھیں بند کیے مراقبہ میں مشغول تھے۔

یکایک حضرت نے آنکھیں کھول دیں اور نبض پر سے ہاتھ اٹھا لیا ۔ نورانی چہرہ اطمینان سے تمتما رہا تھا ۔ “کیا کہتے تھے وہ موئے انگریزی ڈاکٹر؟” “جی وہ کہتے تھے کہ یہ چکر کولسٹرول بڑھنے کی وجہ سے آتے ہیں ” ۔ “یہ بھی کہتے ہونگے کہ روغنی کھانہ، دودھ ، بڑا گوشت وغیرہ بند کر دو “۔ ” جی بالکل حضور” ، فربہ مریض نے جلدی سے سر ہلایا “سوکھی براؤن بریڈ پر گزارہ ہے پچھلے ایک ماہ سے پر کوئی افاقہ نہیں ۔ سب جگہ سے مایوس ہوا تب آپکے پاس آیا ہوں ” ۔ فربہ مریض کی آنکھوں میں یہ سب بتاتے نمی سی تیر گئی۔ “ہائے یہ موئے ڈاکٹر ” حضرت قبلہ بڑے حکیم صاحب نے ایک سرد آہ بھری۔ “میاں ایک تو انکی گرم دوائیں معدہ تباہ کرتی ہیں اور دوسرا یہ پرہیز اعضاء رئیسہ پر بڑا برا اثر ڈالتا ہے ۔ انکا بس چلے تو آدھے ملک کے مرد ، نا مرد اور عورتیں بانجھ کردیں ” حضرت جلال میں تھے ۔ “چھوٹے وہ “یاقوتی ” کی سات پڑیاں تو لے آؤ ” “جی جناب لایا ” چھوٹے نے مستعدی سے ایک بوتل سے صفوف پڑیوں میں بند کرنا شروع کر دیا ۔ “آج سے روز صبح لگاتار ایک ہفتہ تک نہار منہ گرم دودھ کے ساتھ یہ پھکی لینا ، آٹھویں روز کی شام ٹیسٹ کرا چھوڑنا ، اگر کمبخت کولسٹرول نکل آئے تو نام بدل ڈالنا اس مرزا عبدالودود بیگ عرف بڑے حکیم صاحب کا ” ۔ “حضور کوئی پرہیز”؟ فربہ مریض کے چہرے پر اس خوشی کے آثار واضح محسوس کیے جا سکتے تھے ۔ “ارے کیسا پرہیز میاں ، سب کھاؤ ، پائے ، نلی نہاری ، شاہی قورمہ ۔ کھلا کھاؤ میاں ۔ یہ کو ئی ہسپتال تھوڑی ہے جو کھانے کے نام پرسلائس اور سوپ پر لے آئیں اور ہاں یہ دو شیشیاں” روغن مغلیہ سانڈا”کی ہماری جانب سے تحفتا ًہی لے جاؤ ۔ تمہاری نبض کی بے قائدگی اور لہجے کی مایوسی سے ہم جان چکے ہیں کہ تمہارا اصل مرض کچھ اور ہی ہے ۔ خدا کرے گا کہ اس میں بھی افاقہ ہوگا ” حضرت کا لہجہ معانی خیز ہو گیا۔

“اور سناؤ میاں کیسے آنا ہوا ” حضرت مریض فارغ کر کے راقم کی جانب متوجہ ہوئے ۔ “بس حضرت ایک تو آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوئے وقت ہو چلا تھا اور دوسرا وہ آج کل “کرونا وائرس” کا شور بہت سننے میں آرہا ہے ۔ سوچا آپ سے کچھ رہنمائی بھی لے لوں” ۔ “ہا ہا یہ کرونا وائرس” قبلہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔ “ہمارے آباؤ اجداد یونانی حکماء نے صدیوں پہلے جس مہلک جرسومے کی خبر دے دی تھی آخر وہ دنیا پر آشکار ہو ہی گیا ” “لیکن حضرت یہ وائرس تو بالکل نیا نیا دریافت ہوا ہے۔ بالکل برانڈ نیو ” “اماں چھوڑو یہ سب بھاشن ” حکیم صاحب نے بات کاٹ دی” امریکہ وہ سسورے کولمبس نے دریافت کیا تو لوگوں کو پتا چلا کہ یہاں بھی زمین ہے پر تھا تو دنیا بننے کے ہی زمانے سے نا ” “جی میں کچھ سمجھا نہیں ” راقم کی فہم کچھ کم تھی ۔ “میاں ! مطلب یہ کہ  طب یونانی میں یہ جرثومہ ہی نہیں اسکی علامات ، نقصانات اور علاج بھی صدیوں پہلے دریافت ہو چکا ، اب وبائی صورت اختیار کی ہے تو دنیا میں شور مچا ہوا ہے” ۔

راقم حیران ہو گیا پھر کچھ سنبھل کر بولا۔ “اچھا جی تو اسکی منتقلی کے طریقوں پر کچھ روشنی ڈالیں “۔ “دیکھو برخوردار ! یہ مرض جنسی عمل میں غیر اخلاقی و غیر فطری طریقہ اختیار کرنے پر پھلتا پھولتا ہے۔ منتقل ہونے پر سب سے پہلے زکام کی کیفیت اور بعد از زکام تبخیر معدہ کی شکایت ہوتی ہے اور پھر عام حملہ یعنی یہ جنسی اعضاء کی وقتی اور علاج نہ ہو نے کی صورت میں مستقل معذوری کی صورت میں نکلتا ہے”

راقم حیرت سے منہ کھولے علم ِطب کے خزانے کا بیان سن رہا تھا ۔ “حضرت ! لیکن جناب اسکا کوئی علاج بھی تو ہوگا ” “جی بالکل ہے ” حضرت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ” مرض کی علامات ظاہر ہوتے ہی اگر مریض روغن مغلئ سانڈا کی مالش (کہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے بوتل پر درج ہوتا ہے)، ساتھ شادی کورس مکمل کرے اور ہمارے خاص الخاص کیپسول “فولادی” کا ایک ماہ کا کورس کرکے تو لازمی اس خطرناک مرض کے ہاتھوں جریانی کیفیت کی بے بسی کی موت سے بچ جائے گا ”

Advertisements
julia rana solicitors

راقم خوشی خوشی مطب سے روغن مغلیہ کی دو بوتیں لیے نکلا ۔ اسے اطمینان تھا کہ  مملکت پاکستان میں ایسے بالملا اطباء کی موجودگی میں کوئی کرونا ورونا کسی کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا ۔ سامنے دیوار پر لکھا تھا ۔ “مردانہ کمزوری اور کرونا وائرس کا شافی علاج کرائیں ” از قبلہ بڑے حکیم صاحب۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply