کُتا کہانی۔۔سلیم مرزا

اصل نام وہ تقسیم کے وقت ہندوستان ہی کہیں بھول آیا تھا ۔
کامونکی میں بدھو کی عرفیت ہی اس کی مکمل شناخت تھی ۔ٹرک اڈے پہ مزدوری کرنے والا بدھو کافی ترقی پسند تھا، اگر آج زندہ ہوتا تو اس کا شمار نوزائدہ سیاسی جماعت کے اکابرین میں ہوتا، کیونکہ اڈے پہ رہنے کی وجہ سے اس کی سیاست اور ملکی حالات پہ اینکروں جیسی نظر تھی ۔بدھو اتنا پڑھا ہوا تھا کہ اخبار پڑھ لیتا تھا ۔
لکھنا آتا تو شاید روزنامہ “پھیپھڑا پھاڑ “کا بیورو ہوتا ۔
ایسے اخبار ہر اس قصبے سے ٹائم پہ نکلتے ہیں جہاں کبھی ٹائم پہ ویگن نہیں نکلتی ۔
اس میں خبریں کم اور بلاوجہ پیدائش کی مبارکبادیں اور ایک سو اکیس سالہ جوانمرگ کی تعزیتیں چھپی ہوتی ہیں ۔بدھو مفت ملنے والے اخبار کا مستقل قاری تھا ۔بدھو کے پاس ٹی وی نہیں تھا ۔چنانچہ اے آر وائی بھی نہیں تھا ۔

میں نے اسے بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران ایک جلتے ٹرک کے قریب دیکھا ۔جس میں لدی گندم سلگ رہی تھی ۔بدھو کی آنکھوں میں نمی تھی، شاید دھویں کی وجہ سے ۔تب میں نوعمر تھامجھے ٹرک جلنے کا دکھ تھا ۔اناج کے دکھ کا پتہ نہیں تھا۔
یہ تو تھا بدھو کا تعارف اب کہانی کچے سے نکل کر موٹر وے پہ چڑھتی ہے۔

ایک دن بدھو اخبار پڑھ رہا تھا ۔ خبر تھی کہ جہاں جہاں سے موٹروے تعمیر ہوتی گزر رہی ہے، وہاں وہاں سے کتے غائب ہو رہے ہیں ۔اخبار نے مستند ذرائع سےبتایا تھا کہ اس کی وجہ کورین ہیں جو دھڑا دھڑ کتا کڑاہی اڑا رہے ہیں ۔

خبر گوکہ پیدل تھی مگر موٹروے سے ایک سو بیس کی حد رفتار سے دوڑتی جی ٹی روڈ پہ آچکی تھی ۔
بدھو ایک گھنٹے بعد ہی اخبار کے دفتر جا پہنچا ۔
صحافی بھی پوراصابر تھا۔۔بلی کی دم پکڑ کر کتا کھینچ لینے والا، یہاں تو پکا پکایا کتاہاتھ آگیا ۔
اس شاکر نے بدھوکو صحافتی پابندیوں کارونا روتے ہوئے آف دی ریکارڈ بتایا کہ کورین کے پاس کتے پکڑنے کا ٹائم نہیں ہوتا، وہ کتے پکڑیں کہ سڑک بنائیں؟
لہذا وہ فی کتا پانچ سو کا خرید رہےہیں۔
نواز دور تھا بدھو نے یقین کرلیا ۔
اگر موجودہ حکومت ہوتی تو بدھو کا ہاسا نکل جاتا ۔یہ حکومت سب کام چھوڑ کر کتوں کی نس بندی کر رہی ہے۔

بدھو نے وہیں بیٹھے بیٹھے صحافی سے ڈیل کی کہ کتے میرے اور بیچنا تمہارا کام ،بالکل ایسے ہی جیسے گالیاں ماروی کو خلیل دے اور ریٹنگ چینلز کی۔
چنانچہ بدھو نے ملٹری کیمپنگ گراؤنڈ کے ساتھ ملحق قبرستان میں ایک سنسان کمرے کا دروازہ اور روشن دان مرمت کیا ۔اور معیشت سنوارنے چل پڑا،قرب و جوار کے آوارہ کتوں کی شامت آگئی ،وہ روز دو چارکتے گھیر گھار کے روشن دان سے اندر پھینک دیتا ۔
دن کی ٹریفک کے شور شرابے میں تو پتہ نہ چلتا ،لیکن رات ہوتے ہی قبرستان سے بھوکے پیاسے کتوں کی نحیف اور پریشان آوازیں راہگیروں کو خوفزدہ کر دیتیں۔
بدھو روز صحافی کو ریٹنگ بتاتا اور وہ اسے کم ازکم ایک ٹرک کے مال پہ اصرار کرتا ۔
ادھر راہگیروں اور لوگوں کا خوف بڑھنے لگا تو انہوں نے پولیس کو شکائیت کی کہ قبرستان سے رات کو کتوں کی آوازیں آتی ہیں ۔
دو ایک بار تو پولیس نے حسب روایت نظر انداز کیا، پھر ایک اندھیری رات سات آٹھ سپاہی اور دس پندرہ لوگ قبرستان جاپہنچے ۔
ہر طرف ہُو کا عالم ۔
تماشائی پولیس کی آس پہ اور پولیس اللہ کے سہارے چلتی رہی ۔۔کتوں کے بین کی آواز سے کمرہ مل گیا
سپاہیوں نے بندوقیں تان لیں ۔ایک دلیر پولیس والا آگے گیا اور کنڈی کھول دی ۔
پھر کنڈی کھولنے والے جانباز سے تو بھاگابھی نہیں گیا ۔
اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ عوامی ردعمل کیا ہوتا ہے؟
بیس بائیس بھوکے کتے یوں بھاگے کہ کہ کسی انسان سے بھاگا بھی نہیں گیا
اور تو اور پولسیے کہیں ۔بندوقیں کہیں
اور تماشائی ۔؟
سمجھ نہیں آرہی تھی کتا کون ہے تماشائی کون؟
چار سو میٹر کی اس ڈاگ دوڑ میں کتے پہلے نمبر پہ آئے ۔عوام دوسرے نمبر پہ ۔
اور پولیس ہمیشہ کی طرح لیٹ گئی ۔۔اب رینجرز بلانے سے تو رہے ۔
خدا خدا کرکے ایک گھنٹے بعد پولیس والےہمت کرکے اپنی بندوقیں اٹھانے آئے ۔
انہوں نے اگلے دن وہاں پکا ناکہ لگا دیا ۔دو دن تفتیش کرکے بدھو کو مال مسروقہ دوعدد کتے راس جن کا رنگ کالا اور گندمی تھا گرفتار کر لیا ۔بعد میں مبلغ دوہزار لیکر چھوڑ دیا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے طویل المدتی فارمولے پہ عمل پیرا تھا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کہانی کو سنانے کا مقصد یہ تھا کہ آپ بھی صابر اور شاکر رہیں ۔حکومت آپ کے دن بدل دے گی۔
ممکن ہے کہیں وہ آپ کے معاشی مسائل کا حل ڈھونڈھ رہے ہوں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply