کوانٹم میکانیات اور فلسفہ (حصہ دوم)۔۔محمد علی شہباز

انیسویں صدی کے آغاز میں ہونے والے تجربات نے نیوٹن کی میکانیات پر کچھ ایسے بنیادی سوالات اٹھائے کہ جن کا حل گزشتہ تصورات کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ دیموقراطیسی نظریہ کے مطابق بنیادی ذرات یا ایٹم ناقابل تقسیم تھے جس کامطلب تھا کہ ان کی صورت متعین تھی۔ لیکن جب ایٹم کی تقسیم پذیری کے تجربات سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ مادے کے یہ بنیادی ذرات قابل تقسیم ہیں اور ان کے اجزاء کا مرکب وہ شے ہے جسے ایٹم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ گویا مادے کی متعین یا مطلق حیثیت پر پہلا حملہ تھا جس نے صدیوں پر محیط مادے کی ناقابل تقسیم ذرات میں تشکیل کو رد کر دیا۔لیکن ابھی بھی مادے کی متعین حیثیت  قائم تھی وہ اس طرح کہ اب یہ حیثیت ایٹم نامی ذرے کی بجائے چند مزید چھوٹے ذروں یعنی الیکٹران ، پروٹان وغیرہ کو دے دی گئی۔ اور وہی تعریف جو کبھی ایٹم کے حوالے سے کی جاتی تھی اب اسے ان چھوٹے ذرات کے لئے استعمال کی  جانے لگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوانٹم میکانیات اور فلسفہ (حصہ اول)۔۔محمد علی شہباز
مطلقیت و تعینیت پر دوسرا حملہ تب ہوا جب یہ چھوٹے ذرات بھی اپنی دوہری فطرت یا یوں کہیے کہ دہرا پن ظاہر کرنے لگے۔تعین کی صورت تبھی قائم رہ سکتی ہے جب مادے کا ایک خاص مقام متعین ہو۔ یعنی ایک ذرہ کسی ایک وقت میں مکاں کے کسی ایک نقطہ پر پایا جائے۔لیکن الیکٹران پر ہونے والے تجربات نے دکھایا کہ ایسا نہیں ہے۔ ایک ذرہ بیک وقت ایک سے زیادہ نقاط پر بطور ایک لہر کے جلوہ گر ہوتا ہے۔اسی طرح لہروں کو بسا اوقات کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہوتے بھی دیکھا گیا۔لہریں جو ایک سے زیادہ نقاط پر محیط ہوتی ہیں کسی ایک ذرہ کی صورت میں جلوہ گر نہیں ہوسکتیں۔ لیکن الیکٹران ایسا کرتا ہے۔ اسی طرح وہ شعاعیں جو کسی گرم جسم سے خارج ہوتی ہیں ،ایک تسلسل کی بجائے عدم تسلسل کے ساتھ چند ذروں کی مانند خارج ہوتی ہیں۔ طبیعات میں شعاعیں یا توانائی مادے کا ہی ایک مظہر ہیں لہذا ان میں بھی وہی بنیادی خاصیت ہونی چاہیے جو مادے میں ہے یعنی کہ توانائی مکاں کے ہر نقطہ پر ایک خاص مقدار کے ساتھ موجود ہونی چاہیے ۔ لیکن تجربہ یہ بتا رہا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ توانائی مکاں کے چند نقاط پر موجود نہیں ہوتی حالانکہ مادہ یا ذرات جو اسکا ما خذ ہیں ان نقاط پر موجود ہیں۔ یہ تجربات اس قدر حیران کن تھے کہ سائنسدان سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ سائنسدانوں کا یہ اکٹھ مشہور ماہر طبیعات نیلز بوہر کی زیر سرپرستی کوپن ہیگن میں ایک ادارے میں ہوا، جہاں اس عہد کے تمام بڑے اذہان نے مادے کی فطرت پر غور و فکر اور بحث و مباحثہ کیا۔
جرمنی کے سائنسدان ورنر ہائزنبرگ نے ایک اصول پیش کیا جسے اصول عدم تعین کہا جا سکتا ہے۔اس اصول کے مطابق ایک مادے کی تمام مقداری حیثیت کلی طور پر متعین نہیں ہے۔ کسی ایک پہلو کا تعین دوسرے کے عدم تعین پر منتج ہوتا ہے۔کسی ذرے کا کسی نقطے پرمقام کا تعین کر لیا جائے تو اس کا مومینٹم یعنی اسکی رفتار یا حرکت عدم تعین کا شکار ہوجاتی ہے۔اسی طرح توانائی کا وقت کے ساتھ عدم تعین کا رشتہ ہے۔1927ء میں اس اصول پر اتفاق ہوگیا۔لیکن کچھ بڑے سائنسدان جیسے آئن سٹائن وغیرہ اس اصول پر متفق نہ تھے۔کیونکہ اس اصول کے مطابق مادے کی بنیادی تعریف یعنی عرض کا متعین ہونا ایک تناقض کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور یوں فطرت کا عدم تعین ، انسانی ذہن کو حقیقت کے بارے تشکیک سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔جبکہ آئن سٹائن کا عقیدہ تھا کہ فطرت کا مکمل علم پورے یقین سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس کے بقول “خدا پانسہ نہیں کھیلتا” یعنی فطرت کے قوانین و اصول متعین ہیں نہ کہ متغیر۔اس پر نیلز بوہر کا جواب آیا کہ “خدا کو نہ بتاؤ کہ وہ کیا کرے”۔ یعنی فطرت نے خود یہ آشکار کیا ہے کہ اس میں عدم تعین پایا جاتا ہے۔یاد رہے کہ میکس پلانک نے شعاؤں کی توانائی میں پایا جانے والا عدم تسلسل یا توانائی کی ذراتی کیفیت کو مادے کی ذراتی صورت کا نتیجہ قرار دیا تھا لیکن یہ آئن سٹائن ہی تھا کہ جس نے کہا کہ تمام قسم کی توانائی بشمول روشنی کے بذات خود ذرات کی مانند وجود رکھ سکتی ہے حالانکہ کچھ تجربات میں یہی توانائی لہروں کی صورت وجود رکھتی تھی۔ گویا ایک تناقض تھا جسے آئن سٹائن نے حل نہ کیا تھا اور جسے بوہر اور ہائزنبرگ نے حل کرنے کی سعی کی تھی۔1924ء میں فرانس کے لوئی دی بروئی ، 1926ء میں شروڈنگر اور 1927ء میں ہائزنبرگ وغیرہ نے کوانٹم میکانیات کی ریاضیاتی تشکیل مکمل کر لی۔
اس نئے تصور کی بنیاد 1924ء میں بوہر، کریمر اور سالٹر کا ایک پرچہ بنا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ روشنی کی برقی مقناطیسی لہریں حقیقی نہیں ہیں بلکہ یہ امکانی لہریں Probability wavesہیں۔
امکانی لہروں کا یہ تصور سائنس میں بالکل ایک نیا تصور تھا جس کی کلپنا نیوٹن یا مابعد کے سائنسدانوں نے بھی نہ کی تھی۔امکان کی ریاضیاتی یا شماریاتی تعریف کے مطابق اس کا تعلق ہمارے علم میں پائے جانے والی غیر یقینیت سے ہے۔یعنی یہ کہ کسی بھی شے یا واقعہ کے بارے میں ہمارا علم کس حد تک یقینی یا معتبر ہے اسے امکان کہا جاتا ہے۔جیسے اگر پانسہ پھینکا جائے تو ہمیں پورا یقین نہیں ہوتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ بھی ہمیں بالاصول معلوم ہوتی ہے۔ یعنی یہ کہ اگر فلاں فلاں حالات کے بارے میں بھی علم ہو تو یہ امکان زیادہ یقین کے قریب یا بالکل یقین میں تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔گویا یہ محض کسی واقعے کی مکمل تفصیلات کے بارے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ واقعہ بذات خود ایک امکان کی صورت میں موجود ہو سکتا ہے۔یعنی واقعہ اپنی تمام تر جہات و حالات و علتوں کے موجود ہونے سے ہی وجود میں آتا ہے یہ تو صرف انسانی ذہن کا مسئلہ ہے وہ لاعلمی کی وجہ سے امکانی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔
لیکن کوانٹم میکانیات جس امکان کی بات کرتی ہےوہ اس سے کچھ مختلف ہے۔اس کے مطابق یہ امکان صرف انسانی ذہن میں ہی موجود نہیں بلکہ ہر شے یا واقعہ بھی اس امکان سے دوچار ہوتا ہے۔یہ امکان ارسطوئی فلسفے کی یاد دلاتا ہے۔ ارسطو نے وجود کو حقیقت و امکان (Actuality and Potentiality) میں تقسیم کیا تھا۔یعنی یہ کہ کوئی بھی شے اپنے حقیقی وجود سے پہلے ایک امکانی وجود میں ہوتی ہے جہاں سے تکمیل کی خاطر حرکت کا عمل ہوتا ہے اور بالآخر وہ شے حقیقی وجود  پا لیتی ہے۔ بہرحال کوانٹم میکانیات میں اسے ہم وجودی امکان کا نام دے سکتے ہیں۔ بوہر نے اور اسکے بعد میکس بون نے اس تصور کو ریاضیاتی رنگ دیتے ہوئے ایک سائنسی تصور کی شکل دے دی۔اور ایک طریقہ کار وضع کر دیا گیا کہ جس کے مطابق اس وجودی امکان کی مقداری حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس طرح 1926ء تک اس قضیے کا اطمینان بخش حل ڈھونڈ لیا گیا جس میں ذرہ اور لہر ایک ثنویت یا دوہرے پن کی شکل میں سامنے آئے تھے۔ بوہر نے اس میں مزید اضافہ کیا کہ یہ دوہرا پن ایک ہی حقیقت کے د و مختلف مگر ادھورے پہلو ہیں لہذا حقیقت کا مکمل ادراک دونوں پہلوؤں کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔گویا ایک تجربہ یا مشاہدہ حقیقت کے ایک ہی پہلو کو روشن کرتا ہے ۔لہذا حقیقت کے کلی ادراک کے لئے مختلف طریقہ ہائے کار یا تجربات لازمی ہیں تاکہ ان تمام کے نتائج میں مطابقت قائم کر کے حقیقت کو جانا جا سکے۔اس لیے ہر تجربے یا مشاہدے کو ایک امکانی فنکشن کی شکل دی جائے گی اور اس طرح بعد میں تمام مشاہدات کے امکانات کو ایک وحدت میں پرویا جائے گا۔ یہ امکانی فکشن ایک امکانی لہر کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔یاد رہے یہ امکانی لہر ہمارے چہار ابعادی زمان کو مکاں کی بجائے لامتناہی ابعاد پر مشتمل ہے۔یعنی یہ لہر ایک ایسے مکاں میں ہے جو ہمارے مشاہدہ کردہ سہ ابعادی مکاں سے مختلف ہے۔ اس لیے اسے ریاضیاتی تجرید کا حصہ قرار دیا جائے گا اور یہ مکاں ہلبرٹ کا مکاں (Hilbert Space) کہلاتا ہے۔ اس مجرد مکاں میں سے ہمارا سہ ابعادی مکاں اخذ کیا جاتا ہے لیکن وہ بھی ایک امکان کی مانند ہوتا ہے۔
گویا مجرد مکاں میں موجود امکانی لہر ہمیں حقیقت کا علم نہیں دے سکتی کیونکہ وہ ایک ایسے مکاں میں ہے جو ہمارا سہ ابعادی مکاں نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مجرد کثیر جہتی مکاں میں سے ہم اپنا سہ ابعادی مکاں کیسے اخذ کر سکتے ہیں جو کہ ہمیں واقعی حقیقت کا علم مہیا کرے؟ اس سوال کا جواب یہ طے پایا ہے کہ تجربہ یا مشاہدہ وہ طریقہ ہے جس سے ہم حقیقت کا ادراک حاصل کر سکتے ہیں۔ یعنی جب ہم تجربہ کر رہے ہوتے ہیں تو ہم مجرد کثیر جہتی مکاں کو حقیقی سہ جہتی مکاں میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہاں ایک معمہ ہے جس پر سائنسدانوں میں سے بعض نے شدید اختلاف کیا ہے۔یعنی کہ کثیر جہتی مجرد مکاں سے سہ جہتی مکاں کے اخذ ہونے کے طریقہ کار میں ایک قسم کا ابہام ہے۔ وہ ابہام یہ ہے کہ ابتدائی امکانی لہر جب تک حقیقی مکاں کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتی، تب تک وہ کس حالت میں ہوتی ہے؟ یعنی حقیقت قبل از مشاہدہ کس کیفیت میں ہوتی ہے؟
کیا امکانی لہر کے لئے کوئی جواز موجود ہے؟ ہائزنبرگ کے مطابق یہ جواز اس کا اصول عدم تعین ہے۔ یعنی اگر ہم الیکٹران پر بطور ذرہ ایک تجربہ کریں تو اس کی لہرکی کیفیت میں فرق آنا چاہیے اور اگر لہر کی حالت میں اسکا مشاہدہ کریں تو اسکی ذراتی حیثیت میں فرق آنا چاہیے۔ اور تجربات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لہذا ہائزنبرگ درست ہوا۔ یعنی الیکٹران میں اصول عدم تعین کارگر ہے۔تو اس کا مطلب کہ قبل از مشاہدہ اسے ایک امکانی لہر تصور کیا جا سکتا ہے۔اب تھوڑا مزید وضاحت کریں تو معلوم ہوا کہ نیوٹن کا مکان جو کہ سہ جہتی مکان تھا اور مستقل نقاط پر مشتمل تھا ، اب کوانٹم میکانیا ت میں وہ مکان نقاط کی بجائے امکانی لہرو ں کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یعنی بجائے مستقل نقاط کے اب یہ امکانی لہریں ہی ہیں جو ایک کثیر جہتی مکان میں ہمہ وقت حالت حرکت میں ہیں۔ اسطرح گویا اہل یونان کی مستقل و ساکن جیومیٹری ہماری کائنات کی بنیادی ساخت نہیں ہے۔ یعنی حرکت ، ساکن نقاط سے علیحدہ اور خارجی وجود کی محتاج نہیں ہے بلکہ حرکت وجود کا لازمہ ہے۔سکون بنیادی نہیں بلکہ حرکت بنیادی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ نئی میکانیات نے نقاط کی جیومیٹری کو ختم کر ڈالا ہے۔ بلکہ اس نے نقاط کی جگہ امکانی لہروں کو دے دی ہے۔ یعنی اب ہر ساکن نقطہ کے بجائے اسی جگہ ایک امکانی لہر موجود ہے۔جیومیٹری کی جامد و مستقل اشکال کی جگہ اب لہریں بنیادی ہیں اور جیومیٹری انہی لہروں سے اخذ کردہ ایک سہ جہتی مظہرہے۔یہ تصور ہیراقلیطس یونانی کے قریب تر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کوانٹم میکانیات اور فلسفہ (حصہ دوم)۔۔محمد علی شہباز

Leave a Reply