ایک نہیں بہت سی بلڈنگیں گرنے کو ہیں ۔۔۔

لاریب کراچی کی بہبود کے لیے سنجیدہ تعمیری کوششوں کا آغاز ہوتا نظر آرہا ہے ۔۔۔ لیکن کسی سیاسی جماعت یا کسی سماجی گروہ کی جانب سے نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کی طرف سے ۔

کوئی بتائے کہ کہاں ہیں کراچی کے وہ روایتی چاچے مامے جو کہ   کراچی سے جھولیاں بھر بھر ووٹ لیتے رہے ہیں مگر کراچی کے مسائل کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے ,اُن کی ہمدردیاں محض بیانات اور فوٹو سیشن تک محدود ہیں اور عمل کے وقت وہ میدان سے غائب ہوجاتے ہیں ۔ اب بھی وہ یہی کریں گے کہ اگر عدالت کی اس سعی کا کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نظر آئے گا تو فٹا فٹ اپنے اپنے جھنڈے اٹھائے لپک کے باہر نکل آئیں گے اور کراچی کے مروڑ میں دردیلے گیت گائیں گے۔۔۔ لیکن سول یہ ہے کہ گلبہار کی بلڈنگ گرنے سے پہلے ہی بلڈر مافیا کی سرگرمیوں کا نوٹس کیوں نہ لیا گیا اور یہ سیاسی و سماجی گرو گھنٹال کس کھوہ میں چھپے ہوئے تھے ۔

لیکن بہرحال ہم اپنی سی کوشش کبھی قلم سے کبھی کاوش کے علم سے کرنے میں لگے رہتے ہیں، سو خدا خدا کرکے ہماری بھی سنی گئی اور   بالآخر 6 مارچ بروز جمعہ  کراچی کے مسائل اور ناجائز تعمیرات کے بارے میں ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منہ پہ ہمارے علاقے ناظم آباد کا نام آ ہی گیا- بہتیرے لوگ جانتے ہیں کہ خاکسار نے کراچی کےاس علاقے میں بلڈرز مافیاء کی بےلگام ناجائز تعمیراتی سرگرمیوں کے خلاف گزشتہ کئی برس سے مہم چلا رکھی ہے اور اس سلسلے میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر کے کئی چکرلگانے کے علاوہ سوشل میڈیا پہ متعدد مضامین بھی لکھے ہیں اور اس سلسلے میں اس عاجز نے جماعت اسلامی والوں کی پبلک ایڈ کمیٹی سے بھی رابطے کیے ہیں، لیکن وہاں سے تو زبردست مایوسی کے سوا کچھ بھی حاصل وصول نہ ہوا اور وہ میری یہ گزارشات لے کر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران سے ملنے کے لیے کبھی آمادہ ہی نہیں ہوسکے۔صاف بات یہ ہے کہ مجھے تو انکے طرزِ  عمل سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے یا تو جماعت خود اس طاقتور مافیاء سے بہت ڈرتی ہے یا پھر اسکے اپنے بھی کچھ لوگ بلڈروں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔درحقیقت آج کراچی میں ہوئی ناجائز تعمیرات کے جنگل اُگ جانے میں جماعت کے اس جانتے بوجھتے گریز کا بھی بڑا ہاتھ ہے کہ جسے مجرمانہ اجتناب سے کم ہرگز نہیں سمجھا جاسکتا۔

سامنے کی سچائی یہ ہے کہ ویسے تو بلڈر مافیاء نے سارے شہر ہی میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں لیکن ناظم آباد کا علاقہ تو انکا خاص الخاص نشانہ ہے اور یقین جانیئے کہ ایک گلبہار کی یہ بلڈنگ ہی نہیں ایسی سینکڑوں ناجائز تعمیرات کسی وقت بھی زمیں بوس ہونے کے لیے تیار کھڑی ہیں کیونکہ انکی تعمیر میں متعلقہ اداروں نے پیسے لے کر ہر بے ضابطگی کو جائز کرڈالا تھا اور بھی کسی معیار کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی تھی اورگزشتہ 12-13 برس کے اندر اس نے اس علاقے کو ناجائز تعمیرات سے تقریباً بھردیا ہے اور تاحال انکی یہ شرمناک سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہیں ۔ اس سلسلے میں انکا خاص طریقہء واردات یہ ہے کہ یہ رہائشی مکانات خرید کے انہیں گرا کے بلڈنگ بائی لاز کی دھجیاں بکھیر کے اسے ایک پلازے میں بدل دیتے ہیں حالانکہ یہاں گراؤنڈ پلس ٹو سے زائد اونچی تعمیر پہ قطعی پابندی عائد ہے لیکن اس علاقے کی ہر گلی میں کئی کئی پلازے تعمیر کرکے اس قانون کا مذاق بنانے کی داستان ہرسمت پھیلی دکھائی دیتی ہےاور یوں پہلےجس پلاٹ یا مکان پہ ایک فیملی رہا کرتی تھی پھر وہاں درجن سے زائد فلیٹس بنائے جانے کے نتیجے میں اٹھارہ بیس گھرانے آباد ہوجاتے ہیں جس سے اس علاقے میں موجود پانی بجلی گیس اور سیوریج کی سہولتوں پہ زبردست دباؤ پڑتا جارہا ہے اور بتدریج یہ سب سہولتیں ناپید ہوکے ایک بڑے بحران کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہیں ، اس خرابی کے ذیلی اثرات میں سڑکوں کی زبردست ٹوٹ پھوٹ اور پارکنگ کے لیئے جگہ کا فقدان بھی شامل ہوتا جارہا ہے۔

اس معاملے سے جڑی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں کی تعمیرات کرنے والی بلڈر مافیاء میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں‌کہ جن کے پاس کالا پیسہ ہے جو کہ انہوں نے   لوٹ مار اور بھتہ خوری کے ذریعے حاصل کیا ہے اور ان میں سے شاذ  ہی کوئی پہلے سے اس شعبے کا حصہ رہا ہو ۔۔۔ درحقیقت ایسے نووارڈ بلڈروں میں زیادہ تر کنسٹرکشن کی ک سے بھی آشناء نہیں ہیں اور ان میں سے ذاتی طور پر  لوگ ماضی قریب میں دھوبی نائی اور قصائی ٹائپ کے پیشہ وروں‌ میں سے ہیں

ذرا متعلقہ ادارے یہ تو معلوم کریں کہ ان بلڈرز کا ماضی کیا ہے اور ابھی چند برس قبل تک انکی مالی حیثیت کیا تھی اور ان میں سے کتنے اہیں کہ جو انکم ٹیکس دیتے رہے ہیں اور اب بھی کتنے ہیں کہ جو اس کے نیٹ میں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں ۔اسی طرح بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کی مالی حیثیت کی جانچ بھی کرالی جائے تو پتا چلے گا کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور 90 تا 95 فیصد ملازمین نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اور چند ہزار یا ایک لاکھ دو لاکھ کے لگ بھگ تنخواہ پانے والے یہ لوگ اب کبھی کے کروڑ پتی بن چکے ہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ انکی اور انکے اہلخانہ کی جائیدادوں ، قیمتی ا ملاک اور گاڑیوں اور غیرملکی سیر سپاٹوں کا ریکارڈ بھی حاصل کرکے انہیں کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے ایک طبقہ جعلی شکایت کنندگان کا بھی وجود میں آچکا ہے جو کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو شکایت کی درخواستیں لگاکے ان سے مال اینٹھتے ہیں اور انکے راضی نامے کے بل پہ  بلڈر مافیا اور محفوظ ہوجاتے ہیں ۔۔ ایسے پیشہ وروں میں سیاسی کارکنان کے علاوہ پولیس کے کئی اہلکاران بھی شامل ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے جعلی درخواست گزاروں کا بھی قلع قمع کیا جائے اور جن سیاسی جماعتوںی کا نام اس مقصد میں استعمال ہورہا ہے وہ آگے آئیں اور کھل کے ایسے کرمنل افراد کو قانون کے حوالے کریں‌ جو انکا نام ان مذموم مقاصد میں استعمال کررہے ہیں اور تبھی اس پیارے عروس البلاد کو بلیک میلرز اور بلڈرز مافیا کے گٹھ جوڑ سے محفوظ کیا جا سکے گا-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply