کوانٹم میکانیات اور فلسفہ (حصہ اول)۔۔محمد علی شہباز

سولہویں صدی عیسوی کا سب سے بڑا فلسفی ڈیکارٹ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ڈیکارٹ ایک فرانسیسی باشندہ تھا اور فلسفہ اور سائنس کے میدان میں ایک عظیم مقام رکھتا تھا۔ ڈیکارٹ کو جدید سائنس کی بنیاد میں کارگر فلسفے کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ سیکنڈری سکول میں بچوں کو پڑھایا جانے والا کارتیسی مستوی کا نظام اسی ڈیکارٹ سے منسوب ہے۔ اسی طرح ڈیکارٹ کی طبیعات بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہے مگر نیوٹن کی طبیعات نے کارتیسی طبیعات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ یہاں ہم ڈیکارٹ کے اس نظریے کو بیان کرنا چاہتے ہیں، جو جدید سائنس کی بنیاد میں پیوست ہو چکا ہے۔ اگرچہ بہت سے سائنسدان اس سے ناواقف ہیں مگر لاشعوری طور پر وہ اس نظریے کے پابند رہ کر ہی کام کرتے ہیں۔ ڈیکارٹ کے اس نظریے کو ثنویت پسندیDualism Cartesian کا نام دیا جاتا ہے۔

ڈیکارٹ کے مطابق کائنات بنیادی طور پر دو قسم کی اشیاء سے مرکب ہے۔ ایک مقداری اور دوسری معیاری شے کہلاتی ہے۔ تمام کائنات کی اشیاء جو انسانی ذہن اور شعور سے آزاد وجود رکھتی ہیں، انہیں مقداری یا معروضی کہا جاتا ہے۔ ان کی اصل حقیقت ہمارے ذہن سے باہروجود رکھتی ہے۔ مثلاً زمین، چاند، سورج، حرارت، آواز اور روشنی وغیرہ۔ دوسری قسم کی اشیاء کا تعلق ہمارے ذہن یا شعور سے ہے اور ان کو خالص معیاری اشیاء کہا جاتا ہے۔ مثلاً خوبصورتی، اچھائی، برائی اور علم وغیرہ۔ ڈیکارٹ کی اس ثنویت کا نتیجہ مادے اور شعور میں علیحدگی کا باعث بنا۔ اور اس سے پیدا ہونے والے نظریات مادیت پسندی اور مثالیت پسندی کہلائے۔ اسکی وجہ یہ سوال تھا کہ اگر مادی و مقداری اشیاء کا وجود ذہن اور شعور کے بالکل باہر ہے تو پھر ذہن ان اشیاء تک رسائی کیسے حاصل کرتا ہے یا انکا علم کیسے حاصل کرتا ہے؟ اگرچہ ڈیکارٹ اور اسکے بعد ڈیوڈ ہیوم وغیرہ نے اسکا جواب اتفاقی ثنویت کی شکل میں پیش کیا لیکن اس میں مزید بحث کی گنجائش باقی رہی۔

ڈیکارٹ کی مادہ و شعور کی ثنویت کے نتیجے میں مغرب کے اندر دو رجحان ہمیشہ برسرپیکار نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اس ثنویت میں ایک شے کو حقیقی یا بنیادی اور دوسری کو غیر حقیقی یا ماخذ شے کا درجہ دیے بغیر دونوں کا تعلق ثابت نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ مادہ حقیقی ہے جبکہ شعور اسکے تعاملات کا ایک اخذ کردہ حاصل ہے۔ اس رجحان میں ارسطو، جان لاک، فیورباخ، مارکس اور  جدید سائنس کے کچھ نام پیش پیش ہیں۔ اسی طرح دوسرا گروہ یہ مانتا ہے کہ شعور مبداء اور حقیقی ہے جبکہ مادہ شعور ہی کی ایک کیفیت کا نام ہے اور لہٰذا غیر حقیقی ہے۔ اس گروہ میں افلاطون،بشپ جارج برکلے، ہیگل اور  دوسرے  لوگ شامل ہیں۔ اسی طرح ایک گروہ مادہ و شعور دونوں کے حقیقی ہونے کا قائل ہے جیسے ڈیکارٹ اور کانٹ وغیرہ لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس مادی اشیاء کا علم تو مہیا کر سکتی ہے لیکن شعور یا شے فی الذات کا علم مہیا نہیں کر سکتی۔ ہم اس موجودہ مضمون میں اختصار کے ساتھ صرف اول گروہ یعنی مادہ پسندیت ،جو کہ موجودہ سائنسی نظریات کی بنیاد ہے، پر جدید طبیعات کے حوالے سے روشنی ڈالیں گے۔

ڈیکارٹ کی مقداری اشیاء جنہیں ہم مادی اشیاء کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کا مقداری ہونا اور عرض و طول میں منقسم ہونا نیز زمان و مکاں میں ایک خاص مقام کا حامل ہونا مادہ کی تعریف میں شامل ہے ۔ مادے کی اس تعریف کے ساتھ دیموقراطیس یونانی کے مستقل بذات ذرات یعنی ایٹموں کو مادہ تصور کیا جائے گا اور جس خلا میں یہ ذرّات تیرتے پھرتے ہیں اسے مکاں کا نام دیا جائے گا۔مکاں کی تعریف کے سلسلے میں فیثاغورث کے اعداد کو جیومیٹری کے ساتھ منطبق کر کے ایک ریاضیاتی صورت عطا کی جائے گی جسے مکاں کہا جائے گا۔اس جیومیٹری پر اقلیدس کے اصولوں کا اطلاق لازمی ہوگا جس سے یہ تعین کیا جائے گا کہ مکاں کی کونسی شکل کس طرح سے مادے کی صورت و حرکت کا جواز پیدا کرے گی۔

اس تعریف میں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ  مادہ ایک خاص مقام و صورت کا حامل ہوتا ہے۔ اور چونکہ اس کی صورت و مقام کا تعین مقداری انداز سے کیا جا سکتا ہے لہذا یہ ایک ٹھوس یا متعین شے کہلائے گا۔اور متعین شے جن اصولوں کی بنیاد پر حرکت کرتی ہے وہ بھی متعین ہوں گے تاکہ کسی اصول کے تحت مقام و صورت غیر متعین نہ ہو سکیں۔مادے کی حرکت کے یہ متعین اصول ازاں بعد نیوٹن کی میکانیات کی شکل میں سامنے آئے۔ان اصولوں کے مطابق ہر شے مکان میں ایک خاص نقطہ کی حامل ہے۔یہ مکاں بذات خود بھی مطلق و مستقل وجود کا حامل ہونا چاہیے تاکہ مقامی حرکت کے لئے جواز قائم ہو سکے وگرنہ کسی شے کی حرکت کا کوئی مستقل پیمانہ نہیں رہ سکے گا اور یوں حرکت ایک بے معنی خیال بن کر رہ جائے گا۔ بہرحال نقاط کی صورت میں مکاں کے ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ کی جانب حرکت ایک فطری عمل کا حصہ ہے۔ جیسے کہ دیموقراطیس کے دور سے یہ تصور چلا آیا ہے کہ بنیادی طور پر کائنات میں حرکت، خلا اور ذرات شامل ہیں جن کی ترتیب و تحلیل سے تمام اشیاء اور انکی جملہ حالتیں وجود میں آتی ہیں۔

بہرحال نیوٹن کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حرکت کی علت کو جسم سے خارج بھی جانا اور داخل بھی ۔ خارج میں اسے قوت کہا اور داخل میں اسے جمود کہا گیا۔ قوت اور جمود کا باہمی ربط حرکت کی مختلف صورتوں کا باعث بنتا ہے جس میں رفتار و اسراع شامل ہیں۔ ایک اور اہم کام نیوٹن نے یہ کیا کہ مادے کیایک جگہ سے دوسری جگہ پر حرکت کے لئے اس نے مکاں کی لامحدود تقسیم پذیری کر دی اور ایک ایسا طریقہ ایجاد کیا جو مکاں کی لامحدود تقسیم پذیری میں بھی محدود نقاط کے مابین حرکت کا جائز قرار دے سکتا ہو۔اسے کیلکولس کا نام دیا گیا۔مزید برآں یہ کہ کسی بھی پیچیدہ مسئلے کے حل کے لیے اسے سلسلہ وار مسائل میں تقسیم کرنا اور پھر علیحدہ علیحدہ حل کرنا بھی ایک اہم پیش رفت تھی جو ڈیکارٹ کی بدولت سائنس کی ترقی کا باعث بنی۔لیکن ان تمام تر کوششوں میں یہ امر لازم تھا جو کہ نیوٹن کی میکانیات کا لازمی جزو ہے کہ مادہ کی حرکت متعین اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے جو کہ ایک مطلق مکاں میں تیرتا ہے اور مختلف شکلوں میں تبدیلی کے عمل سے بھی گزرتا ہے۔
مادہ و مکاں کی اس متعین حیثیت کا اثر یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے اور اس میں وقوع پذیر ہر واقعہ ایک متعین علت کے تحت ظہور پاتا ہے۔اور انسانی شعور یا حتی کہ خدا کی قوت و قدرت بھی ان میکانیاتی اصولوں میں کوئی حصہ نہیں رکھتے۔بالفاظ دیگر شعور کائناتی مساواتوں کا حصہ نہیں ہے۔سائنس میں اس اہم تصور کی بنیاد پر معروضیت کی تعریف خالص مادی وخارجی یا خالی از شعور حیثیت کے طور پر لی جاتی ہے۔یعنی مادہ بذات خود باشعور نہیں ہے ۔

یاد رہے یہاں شعور سے مراد انسانی ذہن کی وہ اختراع ہے جسے وہ اپنے داخل میں محسوس کرتا ہے۔یہیں سے وہ مسئلہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر شعور انسانی ذہن کی داخلی اختراع ہے تو پھر یہ مادہ، عرض و طول، خلا اور حرکت سمیت تمام معروضی تصوارت بھی تو انسانی شعور ہی کی دین ہیں تو پھر یہ سب بھی انسانی ذہن کی حالتیں ہیں یا خارج یعنی انسان ذہن سے آزاد بھی کسی شے کا وجود ہے۔جہاں سے ہم واپس ڈیکارٹ کی جانب لوٹ جاتے ہیں جو شعور و مادے کو الگ الگ وجود میں حقیقی تسلیم کرتا ہےاور پر اس پھر مابعد کے فلسفیوں نے اعتراض بھی کئے اور تاحال یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔لیکن سائنس پر یہ احسان ہوگیا کہ میکانیات کے زیر اثر سائنسی تحقیق وجودی و شعوری یا فلسفیانہ مباحث سے آزاد ہو کر ترقی کرتی گئی حتی کہ ہم بیسویں صدی میں ایک بار پھر میکانکی فلسفہ و سائنس میں ایک ٹکراؤ کا شکار ہوئے۔اس ٹکراؤ کا باعث جدید طبیعات کے دو اہم نظریات یعنی نظریہ اضافیت اور کوانٹم میکانیات ہیں۔ان میں زیادہ بنیادی ٹکراؤ کوانٹم میکانیات کے باعث عمل میں آیا ۔ لہذا ہم اگلی سطور میں اس ٹکراؤ کی نوعیت و اس پر موجود مختلف آراء پر گفتگو کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کوانٹم میکانیات اور فلسفہ (حصہ اول)۔۔محمد علی شہباز

Leave a Reply