To whom it may concern: ڈاکٹر اختر علی سید

غیر ضروری مناقشے طول پکڑ تے جاتے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ پاکستان میں بات بات پر محشر نہ بپا ہوتا ہو۔ دانت کچکچاتے، کف اڑاتے، آستینیں الٹتے، مغلظات بکتے شرکائے گفتگو ایک دوسرے کو سینگوں پہ نہ اٹھاتے ہوں۔ معاملہ کریدیں تو (اللہ مجھے معاف کرے) نفسیاتی مسائل کے انبار کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ افتاد طبع تقاضا کرتی ہے کہ ضرور بولا جائے اور پھیپھڑوں کی پوری طاقت کے ساتھ بولا جائے مگر بزرگوں کی دی گئی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت آڑے آتی ہے کہ شور کی ثقافت کا حصہ نہ بنا جائے۔ ویسے بھی جب ایک کہرام برپا ہو تو ایک دور افتادہ، مدھم اور غیر جذباتی آواز کون سنتا ہے۔ ڈھلتی عمر اور بڑھتی مایوسی قوت کلام کو مزید ضعیف کر دیتی ہے۔ احباب پہچان چکے ہیں کہ اس طالبعلم کو نفسیات کے چند شبدوں کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ اس لیے حکم صادر کرتے ہوئے بھی اس کا لحاظ کرتے ہیں۔ حکم ہے کہ شور کی اس فضا میں علم نفسیات سے رہنمائی لینے کی کوشش کی جائے۔
میں گزارش کر چکا کہ “مرد عورتوں سے خوفزدہ کیوں ہیں” “خاموشی اور شور کی ثقافت” اور “شور کی ثقافت: مزید گزارشات” میں یہ بھی عرض کر چکا کہ اختلاف اور افتراق کا ماحول کیوں اور کیسے پیدا کیا جاتا ہے۔ اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو آج ایک مکمل درسی بات کہنے کی اجازت دیجیے۔ DSM-5 ذہنی امراض کی تشخیص کا جدید ترین پیمانہ ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں اسی تشخیصی نظام کو سند مان کر ذہنی مسائل کی تشخیص کیلئے مدد لی جاتی ہے۔ اس تشخیصی نظام سے Narcissistic Personality Disorder کی بیان کردہ علامات کا خلاصہ آج کے اس شور میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ہوسکتا ہے ان علامات کے ذریعے آپ حالیہ واقعات کے کچھ کرداروں کو شناخت کرسکیں۔
نرگسیت زدہ شخصیت Narcissistic Personality Disorder کی علامتوں کے بیان سے پہلے ذرا نرگسیت کے بارے میں چند اہم نکات دیکھ لیں۔ لغت میں نرگسیت کے معنی اپنی ذات سے والہانہ لگاؤ اور محبت کے دیے گئے ہیں۔ عام طور پر اس اصطلاح کا مطلب غیرحقیقی خود اعتمادی اور اپنی ہی ذات اور صلاحیت کے لیے بے پناہ کشش لیا جاتا ہے۔ سگمنڈ فرائڈ نے اس نفسیاتی الجھن کو Narcissus کی کہانی کے تناظر میں عمدگی سے بیان کیا ہے جس کی تفصیلات کچھ گزشتہ تحریروں میں عرض کرچکا ہوں۔ مضامین کے ایک سلسلے میں نرگسیت اور مہلک نرگسیت Malignant Narcissism کے بارے میں کچھ باتیں تفصیل سے لکھ چکا ہوں ان کو دہرانا مقصود نہیں ہے۔ نسبتاً ایک نئی کتاب سے نرگسیت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سینڈی ہوچکس Sandy Hotchkiss کیلیفورنیا کی ایک کلینکل سوشل ورکر اور سائیکو تھیراپسٹ ہیں۔ سینڈی نفسیاتی مسائل پر لکھنے والی ایک معروف اور مقبول مصنفہ ہیں۔ 2002 میں انہوں نے ایک اہم کتاب تحریر کی اور اس میں نرگسیت کی کی اہم علامات کو بیان کیا۔ ان سات اہم علامات کو اس طالب علم کے الفاظ میں پڑھیے۔
1. نرگسیت کے شکار افراد حد سے زیادہ بے جھجک Shameless ہوتے ہیں اور اپنی اس خصوصیت پر فخر کرتے ہیں۔ دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے کسی جھجک اور لحاظ کو خاطر میں نہیں لاتے لیکن اپنے اوپر تنقید کو بالکل برداشت نہیں کرتے۔ بسا اوقات اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو دوسروں پر کی جانے والی بے رحمانہ تنقید کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔
2. ان کے سوچنے کے طریقے دوسروں سے جدا اور انوکھے Magical ہوتے ہیں کیونکہ خود کو کمال کے اعلی ترین مقام پر فائز سمجھتے ہیں اس لئے اپنے افکار و خیالات کو بھی ناقابل تنسیخ اور ناقابل تردید سمجھ کر ان سے اختلاف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ اس قبیلے کے لوگوں میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہوتی جو اپنی صلاحیتوں کے بارے میں اس گمان کا شکار ہوتے ہیں کہ یہ صلاحیتیں ان کو کسی الوہی طاقت نے خاص مقاصد کے لیے عطا فرمائی ہیں۔ ان کے جداگانہ طریق فکر کی وجہ سے نہ یہ دوسروں کی بات سمجھ پاتے ہیں اور نہ دوسروں کو اپنی بات سمجھا پاتے ہیں۔ اس لئے ایسے افراد سے مکالمہ تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
3. اپنے کمال کو پہنچے ہوئے زعم، غرور اور تمکنت کے سبب دوسروں کی توہین اور ان پر کی جانے والی بے رحمانہ تنقید اور ان کی تذلیل ایسے افراد کے لیے باعث تسکین ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف ان کو انکے مقام سے گرا دے گا۔ ان کے مقام کا تعین انکی کارکردگی سے نہیں بلکہ دوسروں کو نیچا دکھانے سے ہوتا ہے۔
4. بغض و حسد سے بھرے ہوئے یہ افراد اپنی موجودگی (بدن بولی) سے بھی دوسروں کی تذلیل کرتے ہیں چاہے منہ سے کچھ بھی نہ بولیں۔
5. ان افراد کے خیال میں یہ ہر جگہ ایک خصوصی سلوک اور عزت و احترام کے مستحق ہوتے ہیں۔ جو انہیں بہر طور ملنا چاہیے۔ان کے احباب، خاندان کے افراد اور پورے معاشرے کو چاہیے کہ وہ ان افراد کو وہ خاص مقام دیں جس کے یہ حقدار ہیں۔ اپنے مقام کے تعین کے لیے اپنی کارکردگی کے بارے میں مبالغہ آمیز باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور دوسروں سے بھی یہی توقع کرتے ہیں۔ اپنے فضائل کے بیان میں جھوٹ گھڑتے ہیں۔ اپنے مناقب کی داستانیں اس کثرت سے سناتے ہیں کہ ان کے سامعین کی ایک بڑی تعداد ان باتوں کو سچ ماننا شروع کر دیتی ہے۔
6. وہ لوگ جو نرگسیت کے شکار افراد کے فضائل پر ایمان لے آتے ہیں یہ افراد ان سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں نہ صرف ان کی تذلیل و توہین کرکے اپنی انا کی تسکین کرتے ہیں بلکہ ان کو مجبور کر دیتے ہیں کہ ان کی ہر بات کو من و عن تسلیم کیا جائے اور ان کے احکامات بلا چون وچرا مانے جائیں۔
7. سماجی حدودوقیود نرگسیت زدہ افراد کے لیے لائق تعمیل نہیں ہوتے۔ تمیز و تہذیب کے وہ پیمانے جو کسی بھی معاشرے میں لوگوں کی عزت کے تحفظ کے لئے مروج ہوتے ہیں یہ ان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے اور اعلانیہ ان کی خلاف ورزی انتہائی فخر کے ساتھ کرتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ لڑائی جھگڑوں کے واقعات، ان کو بے عزت کرنے کے قصے خوب نمک مرچ لگا کر بیان کرتے ہیں۔ لوگوں کو برے ناموں سے بلاتے اور ان کے لیے القابات گھڑتے ہیں۔
اب آئیے تشخیصی نظام میں نرگسیت زدہ شخصیت کی علامات کی جانب۔۔۔۔
اس بیان کو تکنیکی اصطلاحات کے بوجھ سے بچاتے ہوئے یے میں علامات کا خلاصہ اپنے لفظوں میں یوں بیان کرسکتا ہوں
ایسے افراد میں اپنی عظمت کا ایک بے پایاں احساس ہوتا ہے اپنی ذات کے بارے میں ان کی رائے مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے دوسروں سے ان کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہتا ہے کہ وہ ان کی عظمت و صلاحیت کا اعتراف کریں۔
اپنی شناخت کے لیے دوسروں کو ایک حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جیساکہ سینڈی ہوچکس کے حوالے سے عرض کرچکا کہ ان کی عظمت کا انحصار مقابلے اور موازنے پر ہوتا ہے۔ان کے لیے اس امر کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہوتا ان کے ہوتے ہوئے کوئی اور بھی ان جتنا عظیم ہو سکتا ہے۔
لوگوں کی تعریف و توصیف کا حصول انکی زندگیوں کا اہم ترین مقصد ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے افراد عموماً ایسے کام نہیں کریں گے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی تعریف نہ مل سکے اسی لئے شوبز سپورٹس اور سیاست جیسے میدان عموما ان کے پسندیدہ کام ہوتے ہیں۔ ان شعبوں میں کامیابی کا مطلب آپ جانتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مقبولیت اور لوگوں کی تعریف کے حصول کو آسان بنا دیتی ہے۔
دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور ان کے ذاتی تعلقات انتہائی سطحی اور مطلب پرستی پر مبنی ہوتے ہیں۔
اگر اس مسئلے کے ساتھ شناخت کئے جانے والے افراد کی کیس رپورٹس دیکھیں تو ماہرین کی یہ رائے ہمارے علم میں آتی ہے کہ یہ مسئلہ بچپن میں بنیادی ضروریات کے پورا نہ ہونے اور جذباتی محرومیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔
ہمارے جیسے معاشرے نرگسیت زدہ شخصیت کے لیے یوں بھی زرخیز ہوتے ہیں کہ ایک تو یہاں محرومیوں کے انبار میں سے جو بھی کامیاب ہوجائے اگر وہ اپنی کامیابی پر حد سے زیادہ فخر کرے تو اسے روا سمجھا جاتا ہے اور دوسرے اندھوں کے دیس میں ایک آنکھ رکھنے والے کو پجاری بھی بہتات کے ساتھ میسر آ جاتے ہیں۔

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply