غیرت۔۔عمیر اقبال

ندنی بازار کے طرفین میں واقع سینکڑوں دکانوں کے بیچوں بیچ سالوں پرانا ایک ٹھیلہ آج چاروں طرف سے لوگوں کی بھیڑ سے گھرا ہوا تھا۔ وجہ اس ٹھیلے پر بکنے والے سموسوں کی لذت نہیں تھی وجہ کچھ اور تھی۔ اور اب اس عمل کے ردِ عمل کے تصور سے ہی اسے ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔

“غیرت” بھی کیا منافق چیز ہے! جہاں دکھانی ہوتی ہے وہاں یہ منہ چھپائے پھرتی ہے۔ اور جب اس پر دو حرف بھیجنے کا وقت آتا ہے وہاں یہ ہم سے ناحق کتنے سنگین الفاظ کہلوا دیتی ہے، اور کبھی کبھی کوئی ایسا کام بھی کروادیتی ہے جس کا خمیازہ زندگی بھر بھگتنا پڑتا ہے۔

آج صبح مومن خان اپنی مظلوم بیوی اور سولہ سالہ معصوم بچی کو اسی “غیرت” نامی عفریت کے نام پر جانوروں کی طرح پیٹ کر گھر سے نکلا تھا۔ ان “بے شرم” عورتوں کا مار کھانا تو بنتا ہی تھا، بات ہی کچھ ایسی کی تھی۔

سکول کے نام پر گاؤں کی ایک وحشت ناک اور ہولناک عمارت جہاں کلاسوں کے اندر وقت بے وقت جنگلی کتے آجاتے اور بے طرح بھونکتے۔ زنگ آلود پنکھے اتنے سست ہوگئے تھے کہ اپنے تین پروں کا بوجھ اٹھانا بھی ان کے لیے مشکل ہوگیا تھا۔ خستہ دیواروں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کچھ دیر سہارا لینے کے لیے ان پر ٹیک لگانے والے شخص کو یہ ہمیشہ کے لیے بے سہارا کردیں گی۔

ایسے کھنڈر نما سکول سے جیسے تیسے میٹرک کرنے کے بعد گل نے اپنے باپ سے اعلیٰ تعلیم کا شوق پورا کرنے کے لیے کالج پڑھنے کی فرمائش کی تھی۔

اس بے حیائی پر مومن خان نے اپنی بچی کو جو مارا تو آسمان بھی بوندا باندی کی صورت میں روپڑا۔ ماں کو بھی بخشا نہیں گیا کیوں کہ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے کالج پڑھنے کی فرمائش اپنے باپ سے کرنے کو کہی۔ بچی تو نا سمجھ ہے مگر ماں تو نادان نہیں۔ جب ماں ہی بے غیرتی کا ثبوت دیتی پھرے تو ظاہر ہے وہ بھی سزا کی برابر مستحق ہے۔

مومن خان کا غصہ یہیں پر ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کی مٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں اور آنکھیں شعلے اُگل رہی تھیں۔ اسی خوانخوار حالت میں وہ خیبر بازار اپنے کپڑے کی دکان پر پہنچ گیا اور بند دکان کے شٹر سے ٹکی ایک سائیکل دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہوگیا۔

“یہ کس ۔۔۔۔ کا سائیکل ہے؟”

ایک زنانہ گالی کے ساتھ جب مومن خان نے سائیکل کے مالک کو ڈھونڈنا چاہا تو سامنے سے نحیف سا کبیر حلوائی اپنی ریڑھی چھوڑ کر گھبراہٹ کے عالم میں مومن خان کی طرف بھاگتا ہوا آیا اور ابھی یہ بتانا ہی چاہ رہا تھا کہ وہ کب سے اپنی سائیکل کو ڈھونڈ رہا تھا کسی نے مذاق میں اس کی سائیکل چھپادی تھی، مومن خان نے جارحانہ انداز میں کبیر حلوائی کو گریبان سے پکڑ کر زمین پر گرایا اور اس بے رحمی سے مکے مارے کہ وہ غریب آناًفاناً دم توڑ گیا۔

جب تک آس پاس کی دکانوں کے لوگ پہنچے اور زبردستی مومن خان کو کھینچ کر الگ کیا تب تک کبیر حلوائی بہت دور جا چکا مومن خان کبیر حلوائی کو جان سے نہیں مارنا چاہتا تھا لیکن جب مجمع کی بدحواسی سے اس کو پتہ چلا کہ وہ بے جان ہو چکا ہے تو اس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ پولیس نے فوری طور پر مومن خان کو حراست میں لے لیا۔ لیکن اصل فیصلہ تو پنچائت میں ہی ہونا تھا۔ گاؤں کے معزز بزرگوں کی سربراہی میں پنچائت بٹھائی گئی۔ کبیر کے تینوں بھائی سخت طیش میں تھے اور قصاص سے کم پر کسی صورت راضی نہ تھے۔ بہت منت سماجت کے بعد انہیں دیت پر آمادہ کیا گیا۔

مومن خان سے اس کی دکان کبیر کے بھائیوں کے نام کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن وہ اس پر نہ مانا۔ بقول اس کے یہ دکان ہی اس کی روزی کا واحد ذریعہ تھی اگر اسے ہی دیت کردیا تو کمائے گا کہاں سے؟ جب دکان کے ذریعہ معاملہ نمٹ نہ سکا تو مومن خان کی 400 گز کی زمین تینوں بھائیوں کے حوالے کرنے کو کہا گیا۔ اس فیصلے پر بھی سراپا احتجاج۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ زمین اس کے باپ کی آخری نشانی ہے۔ اسے وہ کسی صورت خود سے الگ نہیں کرے گا۔

بالآخر ایک تیسرا فیصلہ کیا گیا جو کہ حتمی ثابت ہوا۔ اس پر بھی مومن خان کو اگر اعتراض ہوتا تو اسے پولیس کے حوالے کردیا جاتا۔ لیکن اس نے اس حکم کو خوش دلی سے قبول کیا اور گاؤں کے معززین کی انصاف پسندی کی جی بھر کر  تعریف کی۔

طے ہوا کہ مومن خان کی بیٹی گل، کبیر کے دوسرے نمبر کے 45 سالہ بھائی بشیر سے بیاہ دی جائے اور اس کی بیوی بھی بطور غلام ان کے گھر بھیج دی جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوں مومن خان اپنی کھوکھلی غیرت کی آڑ میں کیے گئے جرم کی پاداش میں چند ٹکے بچانے کی خاطر اپنی حقیقی غیرت کا سودا ہنسی خوشی کر آیا۔

Facebook Comments

عمیر اقبال
حقیقت کا متلاشی، سیاحت میرا جنون ، فوٹوگرافی میرا مشغلہ ماڈلنگ میرا شوق،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply