• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خلیل الرحمان قمر عورت دشمنی کا پرچم کُھلم کُھلا لہرا رہا ہے۔۔اسد مفتی

خلیل الرحمان قمر عورت دشمنی کا پرچم کُھلم کُھلا لہرا رہا ہے۔۔اسد مفتی

ہر سال 8مارچ کا دن خواتین کا عالمی دن کے نام سے منایا جاتا ہے۔
خواتین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ایک وبا کی صورت اختیار کرگیا ہے۔اس تشدد سے15سے 44سال کی عمر کی خواتین میں شرح  اموات،کینسر،ملیریا،ایڈز،اور ٹریفک حادثات یا جنگ سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔

ملکِ شاد باد میں 2018کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا ہے اور لوگ بالخصوص عورتیں مستقبل کے بارے اب زیادہ فکر مند ہیں۔
فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ خواتین کے خلاف تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے،اعداد و شمار کے مطابق ہر 24گھنٹے میں 13عورتیں جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں،اقوامِ متحدہ کی حالیہ

رپورٹ میں اسی قسم کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے،رپورٹ میں عالمی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والی عورتیں زیادہ تر خاموش رہتی ہیں،رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک عورت پر مردوں نے ان کی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کیا،یہاں تک کہ دنیا کی 60بلین عورتیں جن میں اکثریت ایشیائی ملکوں سے ہے”غائب”ہیں۔اکثر بچپن کی بیماریوں،اسقاطِ حمل،دانستہ غذائی یا غذائیت میں کمی،یا ہیلتھ کئیر میں رسائی کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے،کہ افریقہ میں 130ملین عورتوں کے ختنے کیے گئے ہیں۔کیونکہ ختنے کو کنوارپن کا تحفظ اور شادی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے،رپورٹ کے مطابق 15سے 21فیصد اور کینیڈا و نیوزی لینڈ میں 13سے 19فیصد عورتوں کو زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر آبروریزی کا نشانہ بنایا گیا ہے،ایشیاء بتایا گیا ہے،ایشیاء میں خواتین کی جیلوں میں آبروریزی کے واقعات عام ملتے ہیں۔پاکستان میں 2009 سے ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے،اور 70فیصد عورتوں نے جسمانی تشدد یا آبرو ریزی کی شکایت کی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے،کہ ہر سال لاکھوں عورتوں اور نوجوان لڑخیوں کو دنیا بھر میں شادی کے نام پر یا غلامی اور عصمت فروشی کے لیے فروخت کردیا جاتا ہے،اقوامِ متحدہ کے کمیشن کا اندازہ ہے کہ یہ عورتیں اور لڑکیاں 80لاکھ کے لگ بھگ ہیں،جبکہ دنیا میں 200ملین لوگ ایسے ہیں،جو غلامی میں جی رہے ہیں،رپورٹ کے مطابق اکثر ملکوں میں کاوند بیوی”زبردستی”کرے تو یہ کوئی جرم نہیں لیکن تعلیم یافتہ خواتین میں یہ شعورجاگ رہاہے کہ یہ زور زبردستی جرم ے زمرے میں آتا ہے۔

رپورٹ میں تشدد کے ان پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے۔اور یہ بتایا گیا ہے،کہ تشدد کا نشانہ بننے والی عورتوں کو کیاطبی امداد،قانونی مشورے اور قونسلنگ کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اگرچہ عصمت فروشی کے لیے عورتوں اور بچوں کی زیادہ شرح سے فروخت ہورہی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال 5 سے 7لاکھ عورتوں کو مشرقی یورپ سے سمگل کرکے مغربی یورپ میں لایا جاتا ہے،جن کو بعد میں نائٹ کلبوں اور قحبہ خانوں کی زینت بنادیا جاتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین پر زیادہ تشدد گھروں میں ہوتا ہے،مثلاً ان ے جسم جلائے جاتے ہیں،کپڑوں کو مٹی کے تیل سے آگ لگا دی جاتی ہے،ہڈیاں توڑ دی جاتی ہیں۔اور لاش غائب کردی جاتی ہے،اور فرار ہونے کا قصہ مشہور کردیا جاتا ہے۔کینیڈا،اسرائیل اور برازیل میں ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے،کہ عورتوں کے خاوندوں اور ان ے رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہونے کے واقعات زیادہ ہوئے ہیں،امریکہ میں 25فیصد خواتین ایسی ہیں،جنہیں دورانِ حمل مارپیٹ کی گئی،امریکہ میں ایک ریسرچ کے مطابق 60فیصد عورتیں ایسے بچوں کو جنم دیتی ہیں جو بچے ان کی مرضی کے خلاف پیدا ہوئے ہیں،دنیا بھر میں ہر سال 75سے 80ہزار عورتیں اسقاطِ حمل کے دوران خون زیادہ بہہ جانے سے انفیکشن سے مر جاتی ہیں۔

ریپ،جبری یا بغیر احتیاطی تدابیر اختیار یے گئے جنسی ملاپ سے چالیس لاکھ عورتیں ایڈز،ایچ آئی وی پازیٹیو سے متاثر ہوکر نتیجتاً ایڈز کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلی جا تی ہیں،ان عورتوں میں ایڈز کی یہ بیماری دوسری عورتوں میں بھی منتقل ہوجاتی ہے۔اور اس طرح یہ سلسلہ طویل تر ہوتا جاتا ہے،

Advertisements
julia rana solicitors

رپورٹ کے مطابق بچے (لڑکیاں،لڑکے)بھی بچپن سے تشدد اور جنسی طور پر ہراساں و ناجائز فائدہ اٹھانے کی شکایت کرتے ہیں۔30 سے 50فیصد فیصد کے درمیان عصمت دردی کا نشانہ بننے والوں کی عمر 15 سال سے کم ہوتی ہے۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کی سن بلوغت کو پہنچنے کی عمر کم ہورہی ہے۔اور بعض لڑکیاں آٹھ نو سال کی عمر میں بالغ ہورہی ہیں،لیکن اس بات سے یہ مطلب ہر گز اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ جنسی تعلقات قائم کرنے کے لیے یہ عمر کافی ہے،اور یہ کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جائے،بچوں کے جلد بالغ ہونے کے بارے میں مختف خیالات ظاہر کیے گئے ہیں،لیکن ابھی اس کی حتمی وجہ معلوم نہیں ہوسکی، ہالینڈ کے ماہرین صورتِ حال کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لے رہے ہیں،لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر 11سال یا اس سے زیادہ اور لڑکوں کے لیے بارہ سال سمجھی جاتی ہے۔لیکن ترقی یافتہ ممالک میں یہ عمر گھٹ رہی ہے،ماہرین نفسیات نے یہ بھی کہا ہے کہ جو لڑکیاں اپنے والد کے قریب ہوتی ہیں،اُن لڑکیوں کے مقابلے میں جن کا والد سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا،یا بہت کم ہوتا ہے،دیر سے بالغ ہوتی ہیں۔اسی لیے کہتے ہیں،سن بلوغت میں قدم رکھنے کے ساتھ انسانی جسم میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں بعض اوقات پریشان کُن ثابت ہوتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ سیکس ایجوکیشن کی ضرورت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
تم محبت خرید لائے ہو
گھر میں پہلے عذاب کم تھے کیا؟

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply