لاہور ادبی میلہ اور مقامی ادب۔۔ اورنگزیب وٹو

ادب کو روحِ حیات کہا جاتا ہے۔ادب نا صرف تخیل کا بیان ہے بلکہ کسی بھی قوم کے تہذیبی و تاریخی مدارج،سماجی و سیاسی فکر،مذہبی اور فلسفیانہ سوالوں،معاشی اور نفسیاتی الجھنوں،انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کا اظہار بھی ہے۔کسی بھی معاشرے کی نمو اور بقا کے لیے ادب ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ادبی میلوں کی روایت بھی ہزاروں سالوں سےمختلف تہذیبوں اور اقوام میں چلی آ رہی ہے۔لاہور ادبی میلا  21 سے 23 فروری تک جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہو گیا۔الحمرا آرٹ کونسل میں سجا یہ میلہ ادب ثقافت سیاست اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی بڑی تعداد میں شرکت کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہا۔نوبل انعام یافتہ ترک ادیب اورہان پاموک،سری لنکن ناول نگار رمیش گوناسیکرا،تاریخ دان ولیم ڈارلمپل،فاطمہ بھٹو،نائجیرین ناول نگار اوئنکا بریتھویٹ،اداکارہ صنم سعید،ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد،اصغر ندیم سید،عارفہ سیدہ زہرہ،عارفہ نگاہ،اعتزاز احسن،وجاہت مسعود،عارف نظامی،منیزہ شمسی سمیت 100 سے زائد مقررین نے مختلف موضوعات پر سیشنز سے خطاب کیا۔اورہان پاموک نوبل انعام یافتہ اور ترکی کے مقبول ترین ادیب ہیں۔لاہور ادبی میلے میں ان کی شرکت کا سن کر ادبی ذوق رکھنے والوں کی بڑی تعداد الحمرا پہنچی۔ادبی میلے کا افتتاح بھی پاموک نے کیا اور اختتام بھی ان کے سیشن سے ہوا۔اورہان پاموک ایک ایسا نام ہے جس نے ترکی زبان اور ادب کو دنیا بھر میں مقبول بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔اورہان پاموک نے اپنے فن اور فکر کے بارے میں بڑی مزیدار گفتگو کی۔پاموک اپنے آپ کو ہر دوسرے ترک شہری کی طرح تضادات کا مجموعہ سمجھتےہیں جہاں ایک عام ترک اپنے آپ کو مشرق اور مغرب،مسلمان اور سیکولر،جدت اور روایت کے درمیان بٹا ہوا پاتا ہے۔پاموک کی کہانیاں بھی ان تضادات کے شکار کرداروں کے گرد گھومتی ہیں اور وہ اسی ابہام سے نبرد آزما رہتے ہیں۔پاموک کے مقبو ترین ناول کا اردو ترجمہ ”سرخ میرا نام“ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے جس کا پیش لفظ مستنصر حسین تارڑ نے لکھا ہے۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار فاطمہ بھٹو کی نئی کتابNew Kings of the World کی رونمائی بھی ادبی میلے کا حصہ تھی۔فاطمہ بھٹو کے مضبوط سیاسی پس منظر اور پُر کشش شخصیت نے بھی بڑی تعداد میں نوجوانوں کو متوجہ کیا۔الحمرا آرٹ کونسل کے کھچا کھچ بھرے ہال نمبر 1 میں فاطمہ بھٹو نے سوفٹ پاور اور عالمی سطح پر چھائے  بالی ووڈ،ترک سوپ اور کورین پاپ موسیقی پر گفتگو کی۔بھٹو نے بھارتی فلم،ترک ڈرامہ اور کورین موسیقی کو ایشیائی ثقافت کا حصہ سمجھنے اور مغربی مقبول ثقافتی اقدار کا متبادل قرار دینے پر اصرار کیا۔فیض احمد فیض کے فن اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوۓ محترمہ عارفہ نگاہ نے مذہبی علامات اور استعارات کے شاعری میں استعمال اور ان کی من گھڑت تشریحات پر پُرمغز گفتگو کی۔فیض سیشن کا عنوان چونکہ ”ہم دیکھیں گے“ تھا تو حال ہی میں بھارت میں اس ترانے کی مقبولیت اور اسکی مضحکہ خیز تشریحات بھی زیر بحث آئیں۔اعتزاز احسن کے بارے میں سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی اور جدوجہد درحقیقت فیض کی شاعری کا پریکٹیکل اظہار ہے۔سٹیج پر موجود اعتزاز احسن کے ہاتھ کانپ رہے تھے مگر ان کے اندر کا انقلابی فیض کےساتھ پابلو نرودا کے اشتراکی ترانے پڑھ رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سکاٹش تاریخ دان ولیم ڈارلمپل کی کتاب رونمائی بھی ادبی میلے کا حصہ تھی۔انہوں نے مختلف سیشنز میں شرکاء  کو جنوبی ایشیا کی تاریخ کے حوالے سے اپنی تحقیق اور کتب سے متعارف کروایا۔
لاہور ادبی میلے میں شریک اکثریت کا تعلق اشرافیہ کے ایک خاص طبقے سے ہوتا ہے۔لاہور ادبی میلہ ایک لبرل اور سیکولر فضا میں منعقد ہوتا ہے اور اس کا اظہار شرکاء کے خیالات،زبان اور لباس سے ہوتا ہے۔ ادبی میلے کے منتظمین کی طرف سے ہمیشہ کی طرح اس سال بھی پنجابی زبان و ادب کو نظر انداز کیا گیا۔پنجاب کے دل لاہور میں ہونے والے اس ادبی میلے میں نہ تو کسی پنجابی لکھاری نے شرکت کی اور نہ ہی عظیم کلاسیکل پنجابی شاعروں وارث شاہ،خواجہ فرید،بابا فرید گنج شکر،میاں محمد بخش پر گفتگو ہوئی۔ آج کے عہد کے امرتا پریتم اور مستنصر حسین تارڑ کی تخلیقات کوبھی موضوع بحث لایا گیا۔اورہان پاموک کے فکر و فن سے متاثر اور ان کی گفتگو سننےکےلیے آنے والے ادبی شائقین اور ادبی میلےکے منتظمین کو شاید ادراک نہ ہو کہ پاموک نا صرف ترکی زبان میں لکھتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو علاقائی ادیب بھی کہتے ہیں۔اختتامی سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے  پاموک نے متعدد دفعہ اپنے آپ کو علاقائیت سے منسلک لکھاری قرار دیا۔اورہان پاموک نے بار بار اس حقیقت کا ذکر بھی کیا کہ ترکی کبھی بھی نوآبادی نہیں رہا اور اس ملک میں ترک زبان میں ہی ادب تخلیق کیا جاتا ہے۔دنیا بھر کا ادب پڑھنے کے باوجود بھی ہمیں شاید ادراک نہیں  ہوا کہ ہر زبان اور جب وہ پنجابی جیسی زرخیز اور قدیم زبان ہو،اس قدر قوت بیانیہ رکھتی ہے کہ اپنی قوم اور تہذیب کے اجتماعی شعور کا اظہار کر سکے۔دنیا میں جتنا عظیم ادب لکھا گیا ہے وہ لکھاری کی مادری یا قومی زبان میں لکھا گیا ہے۔ہومر کی رزمیہ شاعری ہو یا سعدی کی گلستان، رومی کی مثنوی ہو یا وارث شاہ کی ہیر رانجھا،شیکسپئر کے ڈرامے ہوں یادانتے کی ڈیوائن کامیڈی،شاہکار ادب کی مثالیں سامنے ہیں۔اپنی زبانوں کو حقیر جاننا بدترین غلامی کی شکل ہے۔ہم اپنی جامعات اور لیکچرز میں ایڈورڈ سعید کے ”اورینٹلزم“ کا ذکر تو بار بار کرتے ہیں لیکن اپنے عمل سے لارڈ میکالے کے خیالات کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یقیناًانگریزی زبان ایک عظیم زبان ہے اور انگریزی نے تحقیق و تخلیق میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انگریزی میں لکھا جانے والا ادب اور اصناف ادب ایک ایسا معاشرے، جس میں انگریزی پڑھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، ہمارے اجتماعی شعور کا کما حقہ اظہار کر سکتا ہے؟ کیا ہماری مقامی زبانوں اور ادب کو یکسر نظر انداز کر دینا ہمارے وجود پر سوالیہ نشان نہیں ہے؟ کیا اس رویے کو نوآبادیاتی نظام کا تسلسل نہیں کہنا چاہیے ؟ سوچنے کی بات تو ہے اور اسی سوچ نے اس شاندار ایونٹ پر سوال کھڑے کیے ہیں۔

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”لاہور ادبی میلہ اور مقامی ادب۔۔ اورنگزیب وٹو

  1. بہترین تجزیہ،معلوماتی اور نفیس انداز،سادہ اندازِ تحریر،اور راغب کرنے کا انداز دلفریب،جیتے رہیے،سلامت رہیے لکھتے رہیے۔۔یقیناً ہمیں اپنی علاقائی زبانوں کا ادب پڑھنے اور اسے دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔۔

Leave a Reply to محمد عمران Cancel reply