ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب۔۔صائمہ بخاری

مرد محض عورت کے جسم سے محبت کرتا ہے یہ بات پتھر پر لکیر ہے, اسے جب بھی کوئی بہتر اپورچیونیٹی یا چوائس ملی وہ آگے موو کر گیا۔ بانو آپا نے کہا تھا کہ مرد دریافت کا پرندہ ہے اور میں یہ جان پائی ہوں کہ پکھیرو بنجارا ہوتا ہے جگہ جگہ سے دانہ دنکا چگنا ہی اس کی سرشت میں گندھا ہے۔

عورت تمام عمر گوشۂ وصل میں لٹائے گئے گنجینۂ احساس و اظہار کی جاپی تھامے اس کے مدھر اور میٹھے الفاظ کو من ہی من میں ایسے دہراتی رہتی ہیں جیسے کوئی جوگن مالا جبتی ہے۔ وہ اپنی آنکھوں میں بسے ان رنگین خوابوں کو پوجتی ہے جسے اس کا رنگریز کمال حسن و خوبی سے رنگ بخشتا ہے لیکن خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور رنگ کچے پڑ جاتے ہیں۔ جوانی کا ڈھلتا سورج اس کے عاشقِ صادق کی پُر شوق نگاہ میں بے رخی, گلقند سے لہجے میں بیزاری, وقت کی وادیوں کی سرحدوں سے ذرا پرے پرے عاشقی اور دلبری لٹانے میں کمی لاتا ہے ،تو وہ اسے انتظار کے زندان میں پھینک کر ایک نئی پرواز بھرتا ہے اور اپنی ہی مرضی سے وفا اور تسلیم کی زنجیروں میں جکڑی عورت تڑپ اٹھتی ہے۔ کسی انسان کا اس سے بڑا استحصال کیا ہو گا؟ اگرچہ یہاں بظاہر جسم کو سراہا یا دھتکارا گیا ہے لیکن یہ ضرب سیدھی روح پر پڑتی ہے, وہ کم بخت تو بلبلا اٹھتی ہے, تڑپ کے رہ جاتی ہے۔

مرد جب محبت کرتا ہے تو بِنا کہے, بِنا اظہار کیے ،یہ احساس عورت کے دل پر القا ہو جاتا ہے ،اسی طرح بِنا ایک پور سے چھوئے لمس کی ترسیل بھی ہوتی ہے اور اسی طرح چپکے سے کی جانے  والی بیوفائی کا ابلاغ بھی۔ میرے محترم دوست امتنان کہتے تھے کہ معمول (روٹین) نشہ بن جاتا ہے۔ اور جب یہ نشہ ٹوٹتا ہے تو روح کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیتا ہے, خول چٹخ جاتا, انسان بکھر جاتا ہے اور ہستی بے نقاب ہو جاتی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ایک دھتکاری ہوئی عورت جو کبھی اپنے مرد کے ایک ایک لمحے کی حکمران رہی ہوتی ہے۔ جسے کبھی اس کے محب نے اپنی ذات کے ہر قفل کی چابی تھما رکھی تھی وہ جو رسیلا سا لہجہ لیے اسے اپنی مِلک کی شاہزادی, ملکہ اور رانی کہا کرتا تھا, وہ جو کسی غلام کی طرح اس کے چرنوں میں بیٹھا اس کے پیر تھامے انہیں اپنے بوسوں سے معتبر کیے چلا جاتا, وہ جو اس کے لب اپنے آنسوؤں سے تر کرتا, وہ جو اسکی بکھری زلفوں کو پیار سے چوٹی میں گوندھ دیتا, وہ جو ہر لمحہ اسے نگاہ کے سامنے رکھتا, وہ جو ہر پل اس کی آواز کے نورس کے جام در جام پیے چلا جاتا ،وہ جو اس پر اپنی تسلیم کا عہد نامہ مخمور آواز میں تلاوت کیا کرتا تھا, وہ جو خود کو غلامِ تمنا کہہ چکا ،وہ جو اپنی مچلتی تمنا کی سی محبوبہ کو مختیار بنا چکا ،آج اس سے منہ پھیر کے چل دیا۔

وقت نے کروٹ لی تو محب اب محبوب بن گیا اور محبوب محب ہوا, اختیار کے تخت پر غلام بیٹھا ہے اور تمنا کے نذرانے مختیار کے ذمے ہوئے۔ اب وہ شاہزادی سی حساس عورت اس اختیار کے چھن جانے پر مچل جاتی ہے, پہلے تو اپنے محبوب کو بار بار بینیفٹ آف ڈاؤٹ دیتی ہے کہ اس کا محب جو اب محبوب بن چکا ہے ہر بار اسے یقین دلاتا ہے کہ میں تمہارا ہی ہوں, اے جانِ  من! مجھ پر یقین رکھ یہ ڈھلتا ہوا جسم, ٹوٹتی آواز, چاندی میں رنگے بال, تمہارے ہاتھوں کی جھریاں ہر شے سے مجھے آج بھی عشق ہے بلکہ کل سے بھی بڑھ کے ہے۔ لیکن وہ دونوں ہی جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جانے کیوں وہ ہر روز اس سے پوچھتی ہے کہ تم مجھے چھوڑ تو نہ دو گے, کیا مجھ سے دور چلے جاؤ گے؟ حالانکہ وہ تو اسے کبھی کا چھوڑ چکا ہوتا ہے اور کہیں بہت پہلے ہی اس سے بہت دور جا چکا ہوتا ہے۔اگر  وہ  موجود ہوتا تو یہ سوال اپنا جواز ہی کھو دیتا ہے کہ وصل کی بارش میں پور پور بھیگی عورت تو تفاخر اور ادا سے جھومتی ہے, اختیار کا نشہ اسے وہ خمار بخشتا ہے کہ آسمانوں سے اتری شراب طہور بھی ایسا سرور نہ عطا کر پائے۔

مرد کا دل اور نگاہ کسی عورت پر آ جائے یا اس سے پھِر جائے یہ دونوں کیفیات اس سے جڑی عورت پر الہام ہو جاتی ہیں۔ مودتِ قلبی سے فسخِ عہد وفا تک ہر لمحہ اس کا محب، اس کے جسم پر نہیں بلکہ روح اور قلب پر اپنی وفا اور جفا کے نشان ثبت کرتا ہے, اپنے ساجن کی توجہ, لمس, عاشقی, دلبری, دلداری سے مہکتی, چندن اور گلال بکھیرتی, فضاؤں میں مہک کا رقص کرتی وہ ابلا یکدم ایسے کملا کے رہ جاتی ہے کہ جیسے کوئی ننھا سا پودا اپنے مالی کے لمس اور سیرابی کے  عدم پر کملاتا ہے اور دھیرے دھیرے جل کر ختم ہو جاتا ہے, بظاہر موت تو چنپا کے جسم کو آتی ہے لیکن ہجر کی اگن اس کی روح کو جلا کر خاک کر دیتی ہے, جڑیں جل جائیں تو پودے کی موت ہو جاتی ہے اور اس کا محب پہلے محبوب اور پھر قاتل بن جاتا ہے, بیوفائی ایسا روگ ہے کہ اس میں موت روگی کے جسم کو نہیں ،روح کو آتی ہے۔۔ چمپا اپنی جڑ سے سِروں تک جل بُجھ کر کملا جاتی ہے کہ مالک چاہے تو جڑوں سے نوچ کر پودا ہی اکھاڑ پھینکے اور اس کی جگہ نئے مہکتے گلاب سجا دے اور من میں آئے تو گلدان سمیت ہی پٹخ دے۔

اب وہ ایسے اَن کہے کرب سے گزرتی ہے کہ وصل کی ہر یاد وہ اپنے محبوب اور اس کی نئی دریافت کے حوالے سے دہراتی ہے, وہ سوچتی ہے کہ میرا محب اس نئے جسم کو کیسے سراہتا ہو گا, اپنے الفاظ کے مہکتے گلاب, احساس کا دبیز عطر, لمس کی ترسیل, آواز کی تاثیر, بوسوں کی برسات, چاہت کا یقین, دلداری اور ادا, عاشقی اور نذرانے, خلوت و جلوت, چند لمحوں کی دوری اور اس کے بعد شدتیں, شدتوں کے بعد سرور, سرور پر خمار اور خوشی, انبساط, رنگ و بو, چاندنی راتیں, وہ شاعری کا پڑھنا, وہ قافیوں کا بُننا, وہ کہانیاں, وہ داستاں اور اس کے ہر موڑ پہ کبھی مل کے نیر بہانا تو کبھی قہقہے لگانا, کبھی زیر لب مسکانا اور کبھی چپ چاپ اس کی چھاتی پر اپنا سر ٹکائے وقت کی ندیا کو بہتے دیکھنا۔ ہاں اب یہ سب اس کا ہوا, اب اس نئے جسم کی پیاسی روح سرشار ہو گی, اب اس کا بدن مہکے گا, اب وہ گیلی مٹی کی طرح سوندھی سوندھی مہکار سے کھل اٹھے گی, اب کوزہ گر اپنی تمنا کے چاک پر اس کے خد وخال کو ہر بار نئے سرے سے تخلیق کرے گا, اب گلاب اپنا عرقِ جان اس کی اٹھتی جوانی کے حضور پیش کریں گے۔ وہ پور وہ انگلیاں وہ لب وہ آواز وہ سراپا وہ چھاتی وہ نگاہ اور اس نگاہ میں بسا شوق اور شوق سے کوندتی بجلیاں، اب اس کے دل پر گریں گی، اب اس کی ہستی اک زغالِ نیم سوز بنے گی, اب اس کا صندل سا بدن سلگے گا اور میرا محب مکمل اس کا ہو جائے گا ۔ آہ! وہ سب جو میرا تھا اب میرا نہ رہا کیونکہ اصل مختیار مرد ہے عورت نہیں۔ وہ تو ایک سبجوگیٹڈ پامال کی ہوئی روح سے سوا کچھ اور نہیں اور بجز مرد کی تمنا، یہ اختیار بھی اختیار کہاں ہے۔

مرد یہ کیوں چاہتا ہے کہ عورت کے حسن و ادا, فکر و دانش کو سراہے تو وہی سراہے, ربط کی ابتدا, ارتقا, انتہا یہ سب اسے کے مہرے ہوں, وصل کے نرم و گرم لمحے, شدت, حدت, خلوت, جلوہ, ہجر ہر چال چلے تو وہی چلے, چاہے تو اختیار بخشے نہ چاہے تو تمنا کچل دے, چاہے تو ایک جھاڑ کو چھو کر پھولدار بیل بنا دے نہ چاہے تو نرم پھولوں کو مسل کر ڈھیر کر دے۔ وہ تصرف کیوں چاہتا ہے؟ امتنان کہتے تھے کہ مرد کی جان احساسِ تصرف میں قید ہے۔ حیف! یہ احساسِ تصرف بھی تو کسی احساس اختیار سے کم نہیں۔ گویا تمنا بھی اس کی اختیار بھی اس کا اور عورت کون ہے؟ محض ایک کٹ پتلی جو اس کی پوروں پر بندھی ڈور کی جنبش کی غلام ہے_ گر پور کی حرکت تھمے تو کٹ پتلی کا تماشہ بھی ختم۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اختیار عورت کے پاس کیوں نہیں ہے؟ امتنان آج بار بار یاد آتے ہیں وہ کہتے تھے کہ محبت صرف احساسِ اختیار بخشتی ہے, اختیار نہیں, کُلی اختیار نام کی کوئی شے نہیں۔ میں پوچھتی ہوں کیا یہ وہ جھنجھنا ہے جو مرد عورت کو تھما کر اس کی ہستی فتح کرتا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ میں مالک و مختیار ہوئی۔ وہ اس احساس کے جھنجھنے کو نادان نیرو کی بنسی کی طرح بجاتی ہوئی تخیل کے مرغزاروں میں رقص کرتی, خوابوں کے افق پر پرواز بھرتی, کوکتی پھرتی ہے تاآنکہ صدائے جرس ہجر کا نقارہ بجاتی ہوئی بجلیاں گراتی ہے_ اب کوچ کا حکم ہوا فاتح اپنی مفتوح گیتی آرا پر اپنے راج کا جھنڈا گاڑ کر اگلی منزل کو روانہ ہوا کہ وہ وقتی اختیار محض خدع السحر تھا۔۔
کہنےکو اختیار ہے پر اختیار کیا!

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply