عورت مارچ اور استعماریت۔۔اورنگزیب وٹو

استعماریت ایک ذہنی حالت،ایک نظریے کانام ہے، جس کا مقصد بذریعہ طاقت کسی دوسرے ملک ،قوم یا معاشرے پر حکومت کرنا ہے۔یہ حکومت فوجی طاقت کے ذریعے ہو سکتی ہے اور معاشی پالیسیوں یا ثقافتی جنگ کے ذریعے بھی یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔استعماریت کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے مگر گزشتہ چند صدیوں سے مغربی استعمار نے دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔سولہویں صدی عیسوی سے شروع ہونے والا نوآبادیاتی منصوبہ جو دوسری جنگ عظیم تک جاری رہا،مغربی استعمار کا عملی اظہار تھا۔نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد امریکہ کا نیو ورلڈ آرڈر اور نیو لبرلزم بھی اسی استعماری سوچ کی پیداوار تھی جس کا مقصد فوجی،سیاسی،معاشی اور ثقافتی یلغار کے ذریعے کمزور اقوام پر حکومت کرنا تھا۔اسی مقصد کے لیے اقوام متحدہ،یورپی یونین،نیٹو، آئی  ایم ایف،ورلڈ بینک،ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے ادارے بناۓ گئے  جو مغربی استعماری نظام کے اطلاق میں معاونت کر سکیں۔استعماری اداروں اور تنظیموں نے سابقہ غلام اقوام کے مخصوص طبقات میں زندگی کے متعلق مغربی نقطہ نظر کو منطقی،اخلاقی اور فطری سمجھنے کی روش پیدا کی۔ان طبقات میں ہر اس قدر اور روایت سے بے زاری اور نفرت پیدا کی گئی  جو مقامی اور غیر مغربی تھا۔مغربی نظریات کو ان طبقات کے اذہان میں راسخ بنانے میں مغربی زبان اور تعلیم نے اہم ترین کردار ادا کیا۔یہ تعلیم جو کتاب اور ذرائع  ابلاغ،شعوری اور لاشعوری طریقے یا عادات و اطوار کے ذریعے دی گئی ،اس کا مقصد مقامی تاریخ زبان و ادب، ثقافت و روایات کو جاہلانہ،فرسودہ اور غیر عقلی ثابت کرنا تھا۔لارڈ میکالے کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے مغربی استعمار نے ایسے سماجی گروہ تشکیل دیے جو جسمانی طور پر آزاد اور غیر مغربی تھے مگر ذہنی طور پر بری طرح سے مفلوج اور احساس کم تری کے مارے ہوئے  لوگ تھے۔ ایڈورڈ سعید استعماریت کو فوجی اور ثقافتی طاقت قرار دیتے ہوۓ کہتا ہے کہ ثقافتی حملہ فوجی حملے کی نسبت غیر محسوس طریقے سے استعماری منصوبے کو آگے بڑھاتا ہے۔مغربی استعماراتی نظام کے ہتھیاروں میں ادب و فلم،میڈیا اور ذرائع ابلاغ بھی شامل ہیں جو غیر ملکی نظریات کو غیر محسوس طریقے سے مقامی معاشروں میں پھیلاتے ہیں۔چونکہ ذرائع ابلاغ پر استعماری طاقتیں قابض ہیں اس لیے ان کا پروپیگنڈہ نظریاتی اور ثقافتی جنگ جیتتا نظر آتا ہے۔مغربی استعماری طاقتوں نے جب نوآبادیاتی منصوبے کا آغاز کیا تو انہوں نے اس حملے کے لیے مختلف جواز گھڑے۔غیر یورپی اقوام کو کالے وحشی،اجڈ،جاہل اور نااہل قرار دیا گیا اور مغرب کا سفید مہذب تعلیم یافتہ روشن خیال انسان اس ”مخلوق“ کو روشنی سے منور کرنے کے لیے روانہ ہوا۔مشہور شاعر رڈیارڈ کپلنگ کی نظم ”وائٹ مین برڈن“ مغربی استعماری سوچ کی عکاس ہے۔اسی طرح جوزف کونرڈ کا ناول Heart of Darkness بھی مغربی استعمار اور نظریات کو جواز فراہم کرتا ہے۔آج بھی استعماری قوتیں ذرائع ابلاغ اور طفیلی اداروں کے ذریعے ایسی فضا بناتی ہیں جن میں وہ اپنے نظریات کو آسانی سے نافذالعمل کر سکیں۔مغربی سامراج کے آلہ کار ادارے عورت کی آزادی کا بالکل اسی طرح ڈھنڈورہ پیٹتے اور ثقافتی تبدیلی کی بات کرتے ہیں جس طرح نوآبادیاتی دور میں کپلنگ اور میکالے جیسے لوگ مغربی قبضے کے جواز ڈھونڈ رہے تھے۔عورت کی آزادی ایک ایسا نعرہ ہے جس کے نام پر پاکستانی معاشرے تہذیب اور ثقافت پر حملہ کیا جا رہا ہے۔آزادی کی ایک ایسی تعریف پیش کی جا رہی جو اس کے سیاسی سماجی اور معاشی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ جنسی آزادی کے ذریعے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔

گزشتہ سال ہونے والا عورت مارچ بھی مغربی تحریک نسوانیت کی ایک شکل تھا جس میں خاندانی نظام پر حملہ کیا گیا۔اس مارچ کے شرکاء نے ہر روایتی،محترم و مقدس علامت کے بخیے اکھیڑ کر رکھ دیے۔مغربی استعمار اور اس کے نمائندے جانتے ہیں کہ خاندان ہی ہمارے معاشرے کا سب سے مضبوط ادارہ ہے، جو صدیوں سے باہمی تعاون اور اشتراک سے قائم ہے۔نیولبرل اور سرمایہ دارانہ مغرب کسی ایسی چیز کو برداشت کرنے کو تیار نہیں جو اشتراک اور اجتماع پر مبنی ہو۔ان گروہوں کے اجتماعات کے لیے سرمایہ اور امداد بھی یورپی سفارتخانوں، لبرل اداروں،ذرائع ابلاغ اور چندے کے ذریعے کی جا رہی ہے۔

گزشتہ ماہ لاہور میں سجائے  جانے والے لاہور ادبی میلے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والوں میں برطانوی و سویڈش سفارتخانے،ڈان اخبار،سرینا ہوٹل جیسے ادارے شامل تھے۔استعماری سرمایہ دار مغرب کے ان جدت پسند لبرل اداروں کی مدد سے برپا کیے گئے  اس میلے میں ”مُلا“، ”آرمی“ ،” عرب“ پر حملوں کے ساتھ مغربی طرزِ  زندگی اپنانے کی وکالت کی گئی۔اسی فیسٹیول میں مغربی لباس میں ملبوس لبرل اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی خواتین نے چلی کے ایک مشہور گیت پر رقص کر کےعورت مارچ کے لیے مشق کی۔ان نظریات کےفروغ کے لیے پاکستانی معاشرے سے پہلے ان چہروں کا انتخاب کیا گیا جن کے ذریعے پاکستانی معاشرے کو عورت کے لیے جہنم قرار دیا جا سکے۔شرمین عبید چنائے جو اپنی فلموں میں عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات دکھاتی ہیں ان کو آسکر انعام سے نوازا گیا ہے۔ملالہ یوسفزئی کو پاکستانی معاشرے کے منفی چہرے کو دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مغربی نسوانی تحریک کو سابقہ نوآبادیات سے تعلق رکھنے والے سکالرز بھی مکمل طور پر رد کر چکے ہیں۔بنگالی سکالر گائتری سپاؤاک،عرب لیلیٰ احمد،موہانٹی،سیاہ فام امریکی ناول نگار اور سکالر ایلس واکر کے خیال میں مغربی تحریک نسواں کسی طور پر بھی غیر سفید فام عورت کی آزادی کی بات نہیں کرتی بلکہ اسے غلامی میں دھکیلنے کی وجہ بنتی ہے۔یہ تمام سکالرز اس نکتے پر متفق نظر آتی ہیں کہ مغربی خیالات اور طرز زندگی کو مشرقی عورت پر مسلط کرنے سے ان کے حقیقی مسائل کہیں دب کر رہ جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عورت مارچ کے شرکاء  کا تعلق اس طبقے سے ہے جو ہماری پچانوےفیصد عورتوں کے مسائل سے آگاہ ہی نہیں۔جن سوالات اور مطالبات کو لے کر عورت مارچ ہونے جا رہا ہے وہ مغربی نظریات کو ایک ایسےمعاشرےپر تھوپنے کی کوشش ہے جس کا ان نظریات سے مفاہمت نا ممکن ہے۔استعماری حملوں سے معاشرے کی روایات،آزادی اور اقدار کا تحفظ کرنے کے لیے عورت مارچ جیسے تمام اجتماعات کا ہر میدان پر مقابلہ کرنا ضروری ہے۔

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عورت مارچ اور استعماریت۔۔اورنگزیب وٹو

Leave a Reply