کچھ ماہ پہلے کٹر ملحدین کا ایک گروپ جوائن کیا ۔ جس کا مقصد ان کا پوائنٹ آف ویو جاننا اور ان کو قریب سے دیکھنا تھا ۔ بذات خود میں بھی کسی حد تک مذہب بیزار قسم کا مسلمان ہوں اس لیے ایسی جگہوں پر جانا معیوب نہیں سمجھتا مگر ایسا بھی نہیں کہ کوئی مجھ سے میرا مذہب یا عقیدہ چھین لے
میں شیعہ مجالس میں بھی جاتا ہوں ۔ مولانا طارق جمیل میرے فیوٹ ہیں ۔ مدنی چینل بھی شوق سے دیکھتا ہوں ۔ ساؤتھ افریقہ میں میرے ریسٹورنٹ پہ کام کرنے والے عیسائی تھے تو اتوار والے دن ان کے ساتھ چرچ بھی چلا جاتا ۔ ایک کزن کے ساتھ تبلیغی جماعت کے ساتھ تین دن سہہ روزہ بھی کرآیا۔ کچھ شیعہ دوستوں کے ساتھ مجالس میں ماتم بھی کرتا رہا۔ ایک مدنی دوست کے ساتھ ہر جمعہ کو مدنی مذاکرے میں شرکت بھی کرتا رہا۔ ہاتھ کھول کے، باندھ کے نماز بھی پڑھ لیتا ہوں اور رافع یدین بھی کرلیتا ہوں ۔ اللہ ھو والے سیفی برادران کی محافل میں بھی جاتا اور وجد کی کیفیت بھی طاری کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر عجیب بات تھی کہ نماز میں وہ سکون وہ اطمینان نصیب نہ ہوا ، ہمیشہ خالی پن محسوس ہوا۔۔
پھر اچانک فیس بک پر ملحدین کا گروپ نظر آیا تو حسبِ عادت وہاں بھی جاپہنچا ۔ دو ماہ تک وہاں پوسٹ وغیرہ پڑھتا رہا اور سوال و جواب بھی سنتا رہا جوکہ نعوزباللہ خدا اور حضرت محمد ﷺ کے متعلق ہی ہوتے۔۔۔۔آہستہ آہستہ محسوس ہوا کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ ایک ماہ بعد محسوس کیا کہ ملحدین کسی بھی جواب سے مطمئن نہیں ہوتے ہاں مگر مجھ جیسے کمزور مسلمانوں کو ضرور لاجواب کردیتے ہیں لہذا فیصلہ کیا کہ ان سے سوالات کیے جائیں اور سوالات کا سلسلہ چل پڑا۔۔
مگر عجیب بات ہے کہ وہ سوالات کے جواب میں بھی سوالات لکھ دیتے ہیں۔ کٹر ملحد کی نشانی یہی ہے کہ اس سے سوال کریں وہ اس سوال میں سے ایک سوال کھڑا کرکے بارِ جواب آپ پر ڈال دے گا اور بیچارہ کی بورڈ مجاہد گوگل کرکرکے جوابات دیتا رہے گا اور وہ ہر جواب کی نفی کرتے رہیں گے بلکہ ان میں سے بھی سوال اٹھاتے رہیں گے۔ اب اپنی تو طبیعت ایسی ہے نہیں اور نہ ہی دین کا اتنا علم ہے زیادہ تر نفسیات اور سائنس کو پڑھا ہے اس لیے منقی سوالات کیے ،جن کے جوابات ملنا تو درکنار وہاں سے بلاک ہوگیا۔
دو تین دن یہی سوچتا رہا کہ وہاں جو اتنی بکواس ہوتی رہی اور مقدس ہستیوں کو نشانہ بنایا گیا آخر میں بھی وہیں موجود تھا باوجود اس کے میں اس کا حصہ نہیں تھا مگر جب بھی وہ الفاظ ذہن میں آتے جو وہاں لکھے جاتے تھے تو ایک احساسِ جرم و ندامت امڈ آتا ۔ جس سے نجات پانے کے لیے دو نوافل توبہ کے پڑھنے کا ارداہ کیا ۔ میں وہ گناہگار مسلمان ہوں جس نے 7 سال سے کبھی عید کی نماز بھی نہیں پڑھی۔بس کبھی کبھار مجبورا ًیا کبھی شوقیہ جب دل کیا نماز پڑھ لیتا ہوں۔۔سو وضو وغیرہ کرکے قریبی مسجد میں چلا گیا۔۔
مسجد کے اندر قدم رکھے تو احساسِ ندامت اتنا تھا کہ ٹانگیں کانپنے لگیں پورے جسم پہ ہزاروں من وزن محسوس ہونے لگا دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ جیسے ابھی باہر نکل آئے گا جیسے تیسے ایک صف پہ کھڑا ہوگیا۔۔ مگر جسم پہ اتنا بوجھ تھا کہ کھڑا رہنا ممکن نہیں تھا دل ہی دل میں دو رکعت نوافل کی نیت کی ۔اللہ اکبر کہا مگر جب ہاتھ اٹھائے تو جیسے ان میں جان ہی نہیں تھی، جسم پہ بوجھ بڑھتا جارہا تھا کہ کھڑا نہ رہ سکا اور دھڑام سے نیچے بیٹھ کر سجدے میں گر گیا۔۔۔
اللہ اکبر، اللہ اکبر ،اللہ اکبر کا اقرار کیا مگر ایسے لگ رہا تھا جیسے میں زمین میں دھنس جاؤں گا۔۔۔پھر اچانک وہ بوجھ ہٹنا شروع ہوا، مگر جسم کی کپکپاہٹ بڑھ گئی دل کی دھڑکن نارمل تو ہوئی مگر انجانے خوف نے گھیر لیا ، کھلی آنکھوں سے بھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا،پھر اچانک میں نے خدا کو دیکھا،مگر وہ مجھے نظر نہیں آیا،میں نے اس ذات کو محسوس کیا
مگر وہ میرے ارد گرد نہیں تھا،میں نے اس کو سنا ،وہ مجھ سے ہمکلام تھا۔۔۔مگر کوئی آواز نہیں تھی۔زندگی میں پہلی بار مجھے لگا کہ میں واقعی خداکے سامنے سجدہ ریز ہوں وہ میرے بالکل سامنے تھا ۔ میں سجدے کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھ گردن کے پیچھے رکھ کے ناجانے کتنی دیر روتا رہا۔
شاید یہی وہ سجدہ تھا جسے میں گراں سمجھتا رہا۔
Facebook Comments
خوبصورت تحریر
اس سجدے میں محبت کا جو لمس تھا عمران بھائی،وہ بھی یاد ہوگا۔صد شکر ہے کوئی تو ہے جو ہم جیسوں کا بھرم رکھ لیتا ہے ،ورنہ اپنا دامن تو بہت آلودہ ہے۔