روشن تیرا نام منور۔۔حسان عالمگیر عباسی

وقت کو کئی آنکھوں سے دیکھنے کی سہولت ہر لمحہ موجود رہتی ہے۔ کوئی بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم کی حیثیت سے معاملات کا مطالعہ کرتے بھولنے لگتا ہے کہ قرآن کی آیات مختلف الخیال ہیں۔ کوئی قومی باہمی دلچسپی کے امور پر نظر دوڑاتے ‘نیشن  سٹیٹ تھیوری’ کی مدد سے ‘اُمت’ کے تصور کو روندتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ شاعر صاحب کا فرمان ہے :

اپنی ملت پر قیاس اقوام ِمغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ص

ایک آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ پگڑی اور پگڑی والا پتھر کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے ،وہ جدید آلات اور مشینوں سے بے خبر ایک دقیانوس اور گھٹیا ذہنیت کا مالک دنیا کی عالمی طاقت کا کیا بگاڑ سکتا ہے ،لہذا اسلام سے تنگ لیکن مجبوراً مسلم گھرانے کی پیداوار (منافق) اسلام کو براہِ راست گالی دینے کی بجائے ان علماء حضرات کی پگڑی اچھال کر یا اچھلتی دیکھ کر خوش و خرم ہونے لگتا ہے۔

ایک اور آنکھ معاملات کی گہرائی تک جائے بغیر اکثریت کی بات کو قوی دلیل کے طور پر مان لیتی ہے جبکہ دوسری عسکریت کے رعب و دبدبے ،قربانیوں کی لازوال داستانوں کی سنوائی ،بڑے بوٹوں کی دھمک اور چڑھتی جوانی سے متاثر یا خوفزدہ ہو کر ان کی بات کو ایسا تسلیم کرنے لگ جاتی ہے گویا ان کی اپنی بات یا زباں پہ چلتے حروف چھین لیے گئے ہوں۔

ایک آنکھ دیکھتی ہے ،گہرائی میں جاکر مطالعہ کرتی ہے ،حق جان جاتی ہے لیکن زبان کو دیکھا جانے والا حق بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ کمزور ایمان کی نشانی ہے کہ برائی دیکھ کر صرف دل میں چبھن محسوس ہو۔ یہ تمام آنکھیں اللّٰہ کی امانتیں ہیں لیکن ان کے عارضی مالک  خدا سے خیانت کرتے ہیں۔ اللّٰہ نے اپنی بصارت میں سے کچھ بصیرت عطا کی ہے ،ایک احسان کر کے مسلم گھرانے میں پیدا کیا ہے تو ہم کیوں سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمیں دیکھنے کی آزادی ہے اور ایسی کوئی حدود (حدود الله) نہیں جن میں محدود رہا جائے۔

ایسے میں منور حسن ایک روشن چمکتے دمکتے ستارے کی مانند حق اور سچ کی روشنیاں بکھیرتے نمودار ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ الله بھی چال چلتا ہے اور کفار بھی چالبازیاں کرتے ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ الله کی چال بہترین چال ہے۔ اس سے پوچھا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن شہید ہے یا ہلاکت کی موت مرا ہے ،جواب ملتا ہے کہ سو دفعہ شہید ہے۔ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے ان منافقوں کو قرآن کی آیات نہیں بلکہ گوری جلد کی کالی زبان سے نکلے الفاظ سے اطمینان ہوتا ہے ،کل کا معاہدہ چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ طالبان راہِ حق کے مسافر تھے۔

منور حسن سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ ان لوگوں کو کن صفوں سے ڈھونڈ نکالا جائے جو امریکہ کے ساتھ مل کر افغانیوں کو مارتے ہیں۔ جواب ملتا ہے کہ امریکی اگر اس جنگ میں ذلالت و رسوائی  کی موت مر رہا ہے تو اس کا ساتھ دینے والے ایک سوالیہ نشان تو ضرور کھڑا کرتے ہیں۔ یہ بات اب دو اور دو چار کی طرح واضح ہو رہی ہے کہ اپنوں کی اپنوں کے ساتھ غداری کیا معنیٰ رکھتی ہے۔ آج واضح ہو رہا ہے کہ عبداللہ بن ابی ایک نام نہیں بلکہ کیفیت ہے جو کسی بھی شخصیت اور ادارے پہ طاری ہو سکتی ہے۔

منور حسن کیوں اتنا مطمئن ہے اور کیوں دھڑلے سے جواب دیتا ہے؟ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ

‘جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان توآنی جانی ہے اس جان کی  کوئی بات نہیں۔

‘ گو کہ منور حسن شہیدوں کی صف میں نام نہیں درج کروا پایا لیکن اگر زندہ شہیدوں کی صف صفحہ ہستی میں وجود رکھتی ہے تو منور حسن کا نام اول الذکر ہونے میں کسی بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ منور داغدار دنیا میں ہی ‘چبھن’ نہیں تھا بلکہ اپنے ہی گلستان میں جس کی آبیاری اسی کے دست شفقت سے ہوئی ،جب پھل اُگنے لگے تو ‘باغ کا کانٹا’ تصور کر کے طرح طرح کی باتیں سنائی جانے لگیں ،جملے کسے جانے لگے اور گھورا جانے لگا۔ کہنے لگے یہ بابا سٹھیا گیا ہے ،اس کی عقل گھاس چرنے لگی ہے ،اس کو سیاست کی الف ‘ ب سکھانا چاہیے اور پتہ نہیں کیا کچھ نذرانے نہیں عطا کیے گئے۔ وہ شخص جب کراچی جاتا ہے تو ساتھ صرف ایک گھٹری اور بیگ لے کر بخوشی اپنے آشیانے کو نکل پڑتا ہے۔ جب تک وہ رہا باطل کے تیروں کو سہتا رہا ،آج وہ بیمار بوڑھا ‘بستر مرگ’ پر ہے لیکن پوری دنیا اس کی دور رس نگہ یا آنکھ کو من و عن تسلیم کر رہی ہے۔

یہ وہ آنکھ ہے جو خدا کی آنکھ ہے۔ جو خدا کے قرآن اور حدیث کی آنکھ سے دیکھتا ہے وہ کہتا ہے کہ ساری دنیا مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی اگر خدا نہ مارنا چاہے۔ یہ وہ آنکھ ہے جو زندگی کو محض چند سالوں کا عارضی مال و متاع مانتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر ساری دنیا کی دولت آپ کے قدموں تلے رکھ دی جائے اور بدلے میں صرف ایک آنکھ مانگی جائے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ آنکھ دے دی جائے۔ لہذا اس آنکھ کی نعمت کا عملی شکر یہی ہے کہ منور کی طرح دیکھیں ،حق دیکھیں ،سچ دیکھیں ،دور دیکھیں اور اونچا دیکھیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply