میں بدل گیا ہوں۔۔سہیل وڑائچ

میرا نام چوہدری ابن الوقت ہے، جب سے تبدیلی آئی ہے میں بدل گیا ہوں، مجھے یوٹرن اچھے لگتے ہیں اور تو اور میرا ذہن بدل گیا ہے حتیٰ کہ دل تک تبدیل ہو گیا ہے۔

آخر میں کیوں نہ بدلوں، میرے اردگرد سب کچھ بدل گیا ہے، اچھائی کے معیار بدل گئے ہیں، برائی کے پیمانے تبدیل ہو گئے ہیں۔ بالشتیے دیو کو بتا رہے ہیں کہ سیاست کیا ہے اور صحافت کیا ہوتی ہے؟ دیو چھپتے پھر رہے ہیں کہ عزت کیسے بچائیں، بونوں کے منہ اس قدر کھل گئے ہیں کہ وہ اپنے سے بڑوں اور قد میں لمبے لوگوں کو گالی تک دینے میں عار نہیں سمجھتے۔

زمانے کے عبقری اس قدر ڈر گئے ہیں کہ وہ جواب تک دے نہیں پاتے۔ ایسے میں بدلنے کے علاوہ راستہ کیا ہے؟

میں وہ خوش قسمت ہوں جسے خدا نے زمانے اور حالات کو پڑھنے کی عقل عطا کر رکھی ہے، جیسا زمانہ ہوتا ہے میں ویسا ہی ہو جاتا ہوں۔ افغان مجاہدین روس کے ساتھ برسر پیکار تھے تو مجھے افغان جہاد اچھا لگنا شروع ہو گیا۔

اس دوران میرے امریکہ کے کافی چکر لگے، امریکی حکومت میرے موقف کو بہت سراہتی رہی۔ پھر طالبان کا ظہور ہوا، مجھے کوئی اشارہ نہ مل سکا، میں بٹ سا گیا، سمجھ نہیں آتی تھی کیا کروں؟ مگر بالآخر میں نے طالبان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

یہ محفوظ راستہ تھا، نہ زندگی کو خطرہ نہ خود کش حملے کا ڈر۔ اس دور میں افغان ٹریڈ اور اسمگلنگ کا دھندہ خوب چمکا۔ میں نے بھی خوب پیسے بنائے، لوگوں کو طالبان کا نام لے کر ڈراتا بھی تھا اور ساتھ ہی ساتھ کماتا بھی تھا۔

طالبان کا نام اسکولوں کی تباہی میں آتا تھا، میرے گھر والے مجھے اس پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے مگر میں انہیں Collateral Damage کا فلسفہ سمجھاتا تھا۔

طالبان کے خودکش حملوں کا میں نت نئے جواز ڈھونڈتا تھا، کبھی میں بلیک واٹر کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا تھا اور کبھی براہِ راست سی آئی اے ہی کو موردِ الزام ٹھہراتا تھا۔ میرے بہت سے مداح میرے ان دلائل سے قائل بھی ہو گئے تھے۔

مجھے ڈبل گیم تب بھی اچھی لگتی تھی اور آج بھی اچھی لگتی ہے۔ پھر اے پی ایس اسکول پر حملہ ہو گیا میں فوراً بدل گیا اور طالبان کے خلاف ریاستی اقدامات کا حامی ہو گیا۔

میں نے ہی خانِ اعظم کو اس موقع پر دھرنا ختم کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا اور خان نے بھی حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے خاموشی میں ہی عافیت جانی تھی۔

اب طالبان اور امریکی حکومت کے معاہدے کے بعد میرے دل میں پھر سے طالبان کی محبت جاگ اٹھی ہے مجھے لگتا ہے کہ وہ پھر سے فتح یاب ہو رہے ہیں۔

میں ماضی میں بھی ان کا اتحادی تھا اور آج پھر سے کہہ رہا ہوں کہ طالبان گریٹ ہیں، تھوڑی دیر کے لئے میں اِدھر اُدھر ہو گیا تھا لیکن ابن الوقت ہونے کا فائدہ بھی تو یہی ہے۔

میری سیاست مکمل طور پر اصولی اور نظریاتی ہے۔ میں وقت اور حالات کے ساتھ چلتا ہوں، یہی میرا نظریہ ہے۔ ابن الوقت صرف میرا نام نہیں کام بھی ہے۔

میں دل و جان سے ہر حکومت وقت کا ساتھ دیتا ہوں۔ اصل حب الوطنی یہی ہے کہ ہر حکومت کا ساتھ دیا جائے خدا جسے اقتدار دیتا ہے آپ اس کی مخالفت کیسے کر سکتے ہیں؟

میرے اندر تبدیل ہونے اور بدلنے کی قدرتی صلاحیت موجود ہے پہلے میں نواز شریف کو جیل میں سڑنے مرنے دینے کے حق میں تھا وہ زیادہ بیمار ہوا تو مجھے فکر پڑ گئی اور میں نے اس کو باہر بھیجنے کی حمایت کر دی۔ خانِ اعظم کو وٹس ایپ پر پیغام بھی بھیج دیا کہ اس بیمار سے جان چھڑائو یہ مر کر کہیں ہمارے گلے ہی نہ پڑ جائے۔

آج کل میری سوچ پھر بدل رہی ہے مجھے لگتا ہے نواز شریف کی بیماری رپورٹس پر حکومت کو دھوکہ دیا گیا حالانکہ میں خود بھی اس وقت نواز شریف کو باہر بھیجنے میں تعاون کر رہا تھا اب میں اس بات کا حامی ہو گیا ہوں کہ نواز شریف کو واپس بلایا جائے اور دوبارہ سے جیل میں بند کیا جائے۔

اپنی سوچ کا مالک میں خود ہوں جب چاہوں میں اسے بدل لوں کسی کو کیا۔ جو مجھے سوٹ کرے گا میں وہی سوچوں گا اور وہی کہوں گا۔

یہ وقت خانِ اعظم کا ہے کیا مارچ اور کیا اپریل، ابھی وہ جانے کا نہیں ہے ہر کوئی اس کے جارحانہ طرزِ عمل سے ڈرتا ہے کہیں وہ ردِعمل پر اتر کر ساری گیم ہی نہ بگاڑ دے یہی وجہ ہے کہ خان جو چاہتا ہے کر رہا ہے، وہ منظور وٹو کے بیٹوں کے فنڈز بند کر دے۔

گورنر چوہدری کے اثاثے اور بیرون ملک سے آنے والی ایک ایک رقم کو چیک کرائے، وزیروں کے بارے میں آئی بی کی رپورٹیں گھنٹوں سنے اور پڑھے اسے کوئی پوچھنا والا نہیں۔

اس دور میں پنجاب کے دولہا میاں کے روحانی رشتے بنی نالہ سے کچھ کمزور ضرور ہوئے ہیں مگر ٹوٹے نہیں ہیں، جادو کا توڑ مکمل طور پر نہیں ہو سکا مگر دراڑ ضرور پڑ گئی ہے اور اس بڑھتی دراڑ کے جھٹکے پاک پتن اور اوکاڑہ تک محسوس کئے جا رہے ہیں۔

وہ جو کل تک بھائی بھائی کہہ کر کام کروایا کرتے تھے آج کل دولہا بھائی سے ناراض ناراض لگتے ہیں۔

پنجاب میں ق لیگ نے پچھلے دنوں جو جھٹکا دیا تھا اس کے بعد ان کے دونوں صوبائی وزرا کے مسائل حل ہو گئے ہیں۔

پہلے سیکرٹری ان کی بات نہ سنتے تھے نہ مانتے تھے اب سیکرٹری بھی ان کی مرضی کے لگ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کو مکمل فنڈز ملے نہیں لیکن ق لیگ کو 18سے 20ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز مل گئے ہیں۔

سو ق لیگ اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ہو گئی البتہ تحریک انصاف کے ایم پی اے اور دوسرے اتحادی اپنے کام کروانے کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ابھی تک ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔

اصل مزے میرے جیسے چوہدری ابن الوقتوں کے ہیں، بزدار صاحب اب بولنے بھی لگے ہیں اور اپنے احکامات چلانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے اندر اپنے علیم خان جیسے رقیبوں کو ناک آئوٹ کر دیا ہے۔

اب ان کا اگلا امتحان یہ ہو گا کہ وہ طاقتور نوکر شاہی کے ساتھ ڈیل کیسے کریں گے؟

کل ایک اور ابن الوقت ملا کہنے لگا، خان کو خان نہ مارے تو خان کسی سے نہ مرے گا۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ جواب دینے لگا خان کو کسی اور سے نہیں اپنے آپ سے ہی خطرہ ہے، اپوزیشن بکھر چکی ہے، لوگ مہنگائی میں پسے ہوئے ہیں لیکن برداشت کر رہے ہیں ابھی شاید وہ پوائنٹ نہیں آیا جس پر چائے میں ابال آ جاتا ہے، جب لوگوں کا چولہا ٹھنڈا ہوتا ہے تو وہ باہر نکل آتے ہیں۔

خان صاحب خوش قسمت ہیں کہ لوگ ان سے ناراض ہیں ان کی امید ٹوٹی ہے لیکن خان سے نفرت کا دور ابھی شروع نہیں ہوا۔ اب بھی یہ امید موہوم موجود ہے کہ شاید خان ڈیلیور کر ہی دے۔

ابن الوقت ہونے کی وجہ سے میں بےفکر ہوں کہ اب جون تک کوئی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نہیں ہونے والی مگر بجٹ کے بعد میں توقع کر رہا ہوں کہ حالات کروٹ لیں گے، یہ پورا سال خیر سے نہیں گزرے گا اور کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔

مجھے یقین ہے کہ بجٹ کے بعد میرا ذہن بھی تبدیل ہو گا کیونکہ حالات ہی تبدیل ہو جائیں گے۔ میں خان کے ساتھ اس وقت تک ہوں جب تک وہ اقتدار میں ہے اگر وہ اقتدار سے ہٹا تو میں اس کی بےوقوفی میں ساتھ نہیں دوں گا، میں نئے اقتدار خان کا ساتھی بنوں گا اور ملک کی باگ ڈور کو بہتر طور پر چلانے کی کوشش کروں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply