• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شاید جماعت اسلامی کراچی کو جماعتی ساکھ سے کھیلنے کی کھلی چھٹی ہے؟۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

شاید جماعت اسلامی کراچی کو جماعتی ساکھ سے کھیلنے کی کھلی چھٹی ہے؟۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

بحریہ ٹاؤن کے متاثرین کے معاملے میں جماعت اسلامی کراچی کے مشکوک کردار نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں ۔۔۔ کیونکہ اس کی جانب سے اب بحریہ ٹاؤن کے اس شرمناک مؤقف کی ہمنوائی کھلے بندوں کی جارہی ہے کہ 35 فیصد اضافی ادائیگی کردی جائے اور کراچی جماعت کے اس افسوسناک طرزِ عمل نے سبھی کو ہکا بکا کرڈالا ہے ۔ چند ہفتے قبل جب وہ اس معاملے میں کودی تھی تو متاثرین کی بہت آس بندھی تھی کہ چونکہ صاف ستھرا ماضی  رکھنے والی اور پڑھے لوگوں کی اکثریت کی حامل یہ جماعت اس اہم بے انصافی پہ اپنے تنظیمی اثر اور بھرپور احتجاجی قؤت رکھنے کے قابل ہے ،چنانچہ وہ بحریہ کے بھیڑیوں کو اپنی وحشیانہ لالچ سے پیچھے ہٹانے میں بہت کارگر ثابت ہوگی ۔۔۔ مگر افسوس کہ نا صرف ایسا نہ ہوا بلکہ کراچی جماعت کی قیادت تو الٹا خود ہی بحریہ ٹاؤن ہی کے ساتھ مل گئی اور بجائے ان زمینی خداؤں کو منہ دکھانے اور قائل کرنے کے ، وہ انہی کے حصے کا کام کرنے میں چوکس ہوگئی، اور اب وہ متاثرین کو اس قطعی ناجائز ادائیگی کے لیے قائل کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔ مجھے حافظ نعیم الرحمان جیسے سطحی اور دکھاوے کے شوقین بندے اور انکی نمائشی پبلک ایڈ کمیٹی سے کسی بڑے کام کی توقع تو کبھی نہیں رہی لیکن یہ گمان بھی ہرگز نہ تھا کہ وہ ایسی پست کارکردگی کا مظاہرہ کریں‌ گے کہ جس سے جماعت کے نام ہی کو بٹہ لگ جائے گا کیونکہ اب بحریہ کے متاثرین واشگاف الفاظ میں کراچی جماعت کی جانب سے اس افسوسناک طرز عمل کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں –

ایسا ہی ایک مایوس کُن تجربہ مجھے ذاتی طور پہ بھی ہے کہ جب 3 برس قبل میں اپنے علاقے ناظم آباد میں چند بلڈرز کی جانب سے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے ملی بھگت کرکے ناجائز کمرشل تعمیرات اور رہائشی عمارتوں کو غیرقانونی پلازوں میں بدل ڈالنے کا کھیل شروع کیا گیا تھا اور میں اسکے خلاف مہم چلا رہا تھا،  تو میں نے ڈاکٹر فیاض عالم کی معرفت جماعت کی پبلک ایڈ کمیٹی سے رابطہ کیا تھا اور سیف الدین ایڈووکیٹ سے ملاقاتیں بھی کی تھیں‌ اور گزارش کی تھی کہ وہ اس اتھارٹی کے افسران کے پاس وفد لے کر جائیں اور ان تعمیرات کو رکوائیں تاکہ اس وجہ سے ناظم آباد سمیت کراچی کے دیگر شہری علاقوں میں بھی پانی بجلی گیس ، سیوریج اور پارکنگ سسٹم کی صورتحال میں جو خوفناک ابتری رونماء ہونے والی ہے اس کی بروقت روک تھام کی جاسکے اور میں نے ان تعمیرات کی لسٹ بھی دی اور یہ پیشکش بھی کی کہ وہ جماعت کے مجاز لوگوں‌اور اتھارٹی کے افسران کے ساتھ آئیں‌اور میں ذاتی طور پہ بھی یہ سب نشاندہی کرانے کو تیار ہوں ۔۔۔ لیکن مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے اور یہ بات میں فیسبک پہ اپنے کالم میں کھل کر بتا بھی چکا ہوں کہ کئی چکر لگوانے کے بعد بھی سیف صاحب نے ذرا بھی تعاون نہیں کیا اور مسلسل ٹال مٹول اور بہانے بازیوں سے کام لیتے رہے حتیٰ کہ زچ ہوکے مجھے یہ تعاقب ہی ترک کرنا پڑا کیونکہ مجھے کئی لوگوں کا لگایا یہ الزام سچ معلوم ہونےلگا تھا کہ یہ سب لوگ اندر خانے ان بلڈرز سے ملے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کا کام خراب ہوجائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں اس حوالے سے زیادہ تاسف اس لیے  محسوس کررہا ہوں کیونکہ میرے ذہن میں جماعت کا امیج بالعموم ایک دیانت دار و فعال تنظیم کا ہی  رہا ہے اور کراچی کی سطح پہ بھی میئر افغانی ، ڈاکٹر اطہر قریشی، اخلاق احمد ، پرویز محمود ، عبدالستار اور سب سے بڑھ کے بابائے کراچی نعمت اللہ خان نے اس شہر کی خدمت میں ایثار اور بلند کرداری کی بہت سی حقیقی کہانیوں‌ کو جنم دے کر دیانتداری کی نہایت دلآویز تاریخ رقم کی ہے جبکہ ملکی و مرکزی سطح پہ بھی اس کے نمایاں قائدین کے صالح کردار پہ کبھی کوئی انگشت نمائی نہیں کی جاسکی۔۔۔ لیکن ،لیکن ،لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہ سب پست کرداری کا مظاہرہ کیسے ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے۔۔۔ بحریہ ٹاؤن کے متاثرین تو کراچی جماعت کے رہنماؤں کو مسیحا سمجھے تھے لیکن وہ تو ظالموں کےپشتیبان بن گئے اور اسی وجہ سے میں اب یہ کہنے پہ مجبور ہوں کہ بحریہ کے معاملے کو پبلسٹی کا بڑا موقع جان کر دوڑ پڑنے والے یہ لوگ اب اپنی اس ذمہ داری سے نہ بھاگیں کہ جو ایک بڑے لٹیرے کے ظلم کا شکار افراد کے حوالے سے ان پہ عائد ہوچکی ہے کیونکہ ملک کے عوام اس وقت ملک کی تمام سیاسی و سماجی جماعتوں کو آزما چکےہیں اور اب یہی وہ موقع اور حالات ہیں کہ جن میں عوام اسے آگےلاسکتے ہیں لیکن یہاں تو صورتحال ہی عجب مایوس کن بنادی گئی ہے – اور ایسے میں یہ سوچ پروان چڑھنا تو بہت فطری سی بات ہے کہ جب جماعت اس نوعیت اور چھوٹی سطح کے معاملات کو بھی حل کرنے میں پھسڈی ثابت ہورہی ہے تو اس سے ملک کے بڑے معاملات اور مسائل کے حل کی بابت توقع لگانا ہی عبث ہے ۔ اس تاثر کو جماعت کے مرکزی قائدین جس قدر جلد دور کرسکیں اتنا ہی بہتر ہے وگرنہ جس طرح اسے 2018 میں اپنی تاریخ کی بدترین انتخابی شکست کا مزہ چکھنا پڑا تھا کہیں اگلے الیکشن میں اسکے بکھر شیرازے کا مزید شیرازہ نہ بکھر جائے اور ۔۔۔ داستان بھی نہ رہ پائے داستانوں میں !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”شاید جماعت اسلامی کراچی کو جماعتی ساکھ سے کھیلنے کی کھلی چھٹی ہے؟۔۔سیّد عارف مصطفیٰ

  1. انتہائی جانبدارانہ کالم ہے، میرے بھائی جب جماعت متاثرین بحریہ ٹاون کے لیئے کھڑی ہوئی تو ملک ریاض کو کراچی دفتر آنے پر مجبور ہونا پڑا، جماعت کے پاس نہ حکومت ہے، نہ مئیر شپ ہے اور نہ ہی اسمبلی میں کوئی قابل ذکر نمائندگی ہے، ایسے میں وہ احتجاج ہی کر سکتی تھی بحریہ ٹاون کے خلاف اور اس نے یہ احتجاج کیا، اب بحری ٹاون کے متاثرین 35 فیصد اضافی چارجز نہیں دینا چاہتے یا اس پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے تو وہ خود ہی ملک ریاض سے نمٹیں جس کی مٹھی میں عدلیہ بھی ہے اور انتظامیہ بھی۔

  2. سر بہت دکھ کی بات ہے، جو لوگ کیسی سطح پر ملزوم لوگوں کی داد رسی کے لیے کھڑے ہوئے آپ ان کو ہی برا ثابت کرنے پر زور دیتے ہیں، کیا کراچی کے شہری نہیں جانتے سب کچھ یہاں

  3. This is an absolute rubbish piece of writing. The sole purpose of this protest against Bahria town is to give relief to the alloties. Every act is done with the consultation of the concerned masses. The least you pseudo-intellectuals can do is to stop bullshitting about the problem if you dont know anything about it.

  4. ان کا کالم خود ان کے کردار کے خلاف گواہی دے رہا ہے اردو کا محاورہ ان پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے کہ ـ آسمان کو تھوکا، منہ پر گرے

Leave a Reply to Saif Uddin Cancel reply