کیونکہ میں شاعر نہیں ۔۔۔ سلیم مرزا

ہم ڈویژنل پبلک سکول پہنچے تو آغا جی کو “موترے “ہوئے تین گھنٹے بیت چکے تھے ۔اب وہ “پوترے “ہوئے تھے ۔
سامنےایکڑوں میں پھیلا اسکول کا گارڈن تھا اور آغاصاحب کا مثانہ تھا ۔لیکن ہر طرف پولیس تھی ۔آغا کی چال اس حاملہ کی سی ہوگئی تھی جسے چوتھا ہونے والا ھو اور اسے نارمل ڈیلیوری کا چھ سالہ تجربہ بھی ھو ۔
مجھے خدشہ ہوا کہ اگر دس منٹ اور گذر گئے تو اسی پارک میں خوشی بکھر ی ھوگی ۔
آغاصاحب درختوں اور جھاڑیوں کو شہوانی نظروں سے گھور تے ھوئے کسی ایک کی اوٹ میں عوامی مسئلے کا حل ڈھونڈھ رھے تھے کہ اچانک ایک پولیس والا سامنے آگیا ۔
اس نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا۔
“ٹوائلیٹ  کدھر ھے “؟ میں نے حاضر دماغی سے کام لیا ۔
پھر اس نے آغا جی کا بغور مطالعہ کیا جنہوں نے خودکش بمبار کی طرح بم کا ریموٹ پکڑا ھوا تھا ۔
پلسیا سمجھ گیا کہ مجاھد پھٹنے کے قریب ھے ۔
اس نے ایک سمت اشارہ کیا تو آغا جی یوں نکلے جیسے نیو خان کی بھری بس اڈے سے نکلتی ھے ۔
پولیس والا اب میری طرف متوجہ ھوا ۔
“آپ کیوں نہیں جارھے “؟
“کیونکہ میں شاعر نہیں ھوں ”
آغا صاحب کی پندرہ منٹ بعد واپسی ھوئی تو سیدھے اپنی موٹر سائکل کی طرف گئے ۔پہلے ہینڈل لاک کیا پھر وائر لاک لگایا اور آخر میں جھک کر موٹر سائکل کی ناقابل اشاعت جگہ پہ انگلی کروائی تو میں نے پوچھ ہی لیا ۔
“یہ کیا کر رھے ہیں آپ “؟
“چور سوئچ لگا رہا ھوں ”
“پارک میں اتنے پودے نہیں جتنے پولیس والے کھڑے ہیں، آپ پھر بھی چور کو سوئچ لگا رھے ھو “؟
“میں چوروں سے نہیں ، پولیس سے ڈرتا ھوں ۔وہ میری ہی موٹر سائکل کی چوری کا پرچہ مجھ پہ بھی کاٹ سکتے ہیں “یہ کہہ کر آغا جی آڈیٹوریم کی طرف بڑھے ۔
گیٹ پہ موجود خواتین پولیس اھلکار دیکھ کر مجھ سے بولے “کاش تم شاعر ھوتے “؟
“میں تقریبا شاعر تھا ،اور شاعری کی تقریب ہو تو اب بھی شاعر ہوجاتا ھوں ”
میرے جواب پہ آغا صاحب مسکرائے اور کہنے لگے ۔
“میں آواگون پہ یقین نہیں رکھتا ۔مروتاً مزاح نگار مان لیتا ہوں، اندر جاکر یہ دعوی مت کرنا ۔ورنہ جہاں یہ داد دیں گے ۔دونوں مصرعوں کا وزن بگڑ جائے گا ”
آڈیٹوریم کھچاکھچ تھا ۔دائیں طرف خواتین تھیں ۔درمیان میں اہل ذوق تھے اور بائیں طرف صرف گنجائش تھی ۔
ہم وہیں بیٹھ گئے ۔
مشاعرے کا انعقاد پولیس کے سوفٹ روئیے کو اجاگر کرنے کیلئے کیا گیا تھا ۔لہذا سب سے سوفٹ عمران اعظم رضا تھا۔بقول آغاصاحب وہ خفیہ پولیس والا ہے ۔اور اس وقت کمپئیر کے گیٹ اپ میں ہے ۔
آغاصاحب کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر ایک پولیس والا انہیں بھی شاعر سمجھا، سرگوشی میں پوچھا ۔
“آپ پڑھیں گے “؟
آغاصاحب نے جھٹ سے میرا نام لکھوا دیا۔
شاعروں کے آنے میں دیر تھی چنانچہ مجھے قبل از مشاعرہ دعوت سخن دی گئی ۔حا ضرین سے تو خیر داد کی توقع نہیں تھی مگر اپنے آغا جی بھی بے مروت ہوگئے ۔
میں اسٹیج سے اتر کر نشست پہ پہنچا تو بیٹھتے یہی کہنے لگے پونے چار ہوگئے ہیں ۔
چاربجے آن آئیر نہ گئے ذکی مرزا پہلے ہی نکالنے کے جواز ڈھونڈھ رہا ھے ۔تمہاری طرح مرزا ہے کچھ بھی نکال سکتا ھے ۔اسے “لوہارا ترکھانا “کرنے کا بہت تجربہ ہے ۔ بندہ “گھنئے “میں کرتے دیر نہیں لگتی ۔
سو مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے ہی نکل آئے۔
ریڈیو پہ پروگرام کرتے ہوئےبھی سوچتا رھا کہ آغا جی کا تو کام تھا ۔میں کیا لینے گیا تھا؟
آ+م
ہمارا پروگرام ہے ہر  جمعہ چار بجے ایف ایم ایک سو چھ گوجرانوالہ
سننا نہ بھولئے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply