پلید اور پاک۔۔مہرساجدشاد

سیدعطا اللہ شاہ بخاری خیر المدارس جالندھر کے جلسے میں شریک تھے۔ کھانے کے دسترخوان پر بیٹھے تو سامنے ایک نوجوان بھنگی کو دیکھا۔
شاہ جیؒ نے کہا کہ آؤ بھائی! کھانا کھالو۔
اس نے عرض کیا: جی میں تو بھنگی ہوں۔
شاہ جیؒ نے درد بھرے لہجے میں فرمایا: انسان تو ہو اور بھوک تو لگتی ہے۔
یہ کہہ کر خود اٹھے، اس کے ہاتھ دھلا کر ساتھ بٹھا لیا۔ وہ بے چارہ تھرتھر کانپتا تھا اور کہتا جا رہا تھا میں تو بھنگی ہوں۔
شاہ جیؒ نے خود لقمہ توڑا، شوربے میں بھگو کر اس کے منہ میں دے دیا۔ اس کا کچھ حجاب دور ہوا تو شاہ جیؒ نے ایک آلو اس کے منہ میں ڈال دیا۔ اس نے جب آدھا آلو دانتوں سے کاٹ لیا تو باقی آدھا خود کھا لیا۔ اسی طرح اس نے پانی پیا توا س کا بچا ہوا پانی خود پی لیا۔
وقت گزر گیا۔ وہ کھانے سے فارغ ہوکر غائب ہو گیا۔
اس پر رقت طاری تھی، وہ خوب رویا۔ اس کی کیفیت ہی بدل گئی۔ عصر کے وقت اپنی نوجوان بیوی، جس کی گود میں ایک بچہ تھا، ساتھ لے کر آیا اورکہا: شاہ جی! خدا کے لیے ہمیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیجئے اور میاں بیوی اسلام لے آئے(بخاری کی باتیں)۔
یہ حسنِ سلوک انہوں نے اُس عظیم ہستی سے سیکھا تھا جو رحمت اللعالمین بن کر تشریف لائے، جن کو یثرب میں ستایا گیا لہولہان کر دیا گیا لیکن آپ کے منہ سے انکے لئے دعا ہی نکلی۔ آپ ﷺ اس بوڑھی خاتون کی عیادت کیلئے بھی اسکے گھر چلے گئے جو آپ ﷺ پر کوڑا پھینکتی تھی ۔
جب نجران کے عیسائی مدینہ میں حضرت رسول کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو اس وقت آپ مسجد نبوی میں نماز ِعصر سے فارغ ہوئے تھے۔ یہ لوگ نہایت عمدہ لباس پہنے ہوئے تھے۔ جب ان کی نماز کا وقت ہوا تو وہ مسجدمیں ہی اپنی نماز ادا کرنے لگے۔ اس پر آپ ﷺنے صحابہ سے فرمایا کہ انہیں نماز پڑھنے دو۔ انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔
یہ غیر مسلم مسجد میں آئے بیٹھے عبادت بھی کی لیکن مسجد پھر بھی پاک صاف مسجد ہی رہی۔
حضور ﷺ سے غیر مسلموں سے اعلیٰ حسن سلوک کا ظہور صرف عام حالات میں ہی نہیں تھا بلکہ جنگ کی حالت میں جہاں آج بھی اکثر قومیں ہر طرح کی دھوکہ دہی جائز سمجھتی ہیں اس جنگی حالت میں بھی حضور ﷺ نے حسن سلوک کی ایسی ا علیٰ مثالیں قائم کیں کہ عقل   دنگ رہ جاتی ہے ،چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر جب مسلمانوں نے پانی کے چشمہ پر حوض بنا کے وہاں پڑاؤ کر لیا تو باوجود حالت جنگ کے جب دشمن پانی لینے آیا تو آپؓ نے فرمایا انہیں پانی لے لینے دو۔خواتین و حضرات ! یہ حوض پھر بھی پاک رہا ان غیر مسلموں کے پانی میں ڈول اور ہاتھ ڈالنے کے باوجود یہ پانی پاکیزہ ہی رہا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ طفیل بن عمرو الدوسی اور ان کے ساتھی نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور  عرض کی ۔یا رسول اللہ! دوس قبیلے نے اسلام کی دعوت کا انکارکر دیا ہے ۔ اس لیے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں ۔ کسی نے کہا کہ اب تو دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا۔نبی کریم ﷺ نے اس طرح دعا کی کہ اے اللہ!تو دوس قبیلے کو ہدایت دے اور ان کو لے آ۔
نبی رحمتﷺ نے دعا ہی دی کیونکہ اسلام کے داعی سلامتی کے علاوہ اور کیا چاہ سکتے تھے۔
حضرت انس بن حارث ؓفرماتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نے نبی کریم ﷺ کو بکری کا گوشت دیا جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ آپ نے اس میں سے کچھ کھایا جب اس عورت کو حضورﷺ کے پاس لایا گیا تو صحابہ نے عرض کیا ،کیا ہم اسے قتل نہ کردیں؟ فرمایا کہ نہیں۔ حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ آپ کے تالو میں اس زہر کا اثر ہمیشہ باقی رہا۔
اس پر بھی آپ ﷺ کا درگزر کرنا، معاف کرنا ،اخلاقیات کا اعلی ترین درجہ ہے۔ لیکن انکے امتی آج انکے پیغام ،انکی عملی زندگی کو مشعل راہ بنانے کی بجائے تعصبانہ، متشدد، نفرت انگیز راستہ پر گامزن ہیں۔
اسلام کی تعلیمات کے منافی واقعہ پنجاب کے ضلع قصور کے شہر چونیاں میں پیش آیا ۔ یہاں 22 سالہ کرسچن نوجوان سلیم مسیح کو ٹیوب ویل میں نہانے پر بدترین تشدد کر کے مار دیا گیا۔
علاقہ سے حاصل شدہ خبروں اور انکے خاندانی ذرائع کے مطابق نوجوان سلیم مسیح  جمعرات 27 فروری کو بھوسے سے بھری گاڑی اتارنے کے بعد گاؤں بگیانا میں ٹیوب ویل پر نہانے گیا ،وہاں گاؤں کے کچھ افراد نے اسے مارنا شروع کردیا اور کہا کہ تم نے ہمارا ٹیوب ویل پلید (ناپاک) کردیا ہے۔
یہاں دل نہ بھرا تو مزید تسلی کیلئے گاؤں کے لوگ اسے ایک جانوروں کے باڑے میں لے گئے جہاں سلیم کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اسے لوہے کے آہنی راڈ سے پیٹتے رہے، پھر اسے زخمی حالت میں چھوڑ کر بھاگ گئے، پولیس نے چار گھنٹے بعد زخمی کو ہسپتال منتقل تو کیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگیا، اس پر ظلم یہ کہ نامزد قاتلوں کو پکڑنے کے بعد انہیں شخصی ضمانت پر رہا کردیا ہے۔
اسی ضلع قصور میں 2014 میں کنوئیں سے پانی پینے پر حاملہ شمع مسیح اور اس کے شوہر شہزاد مسیح کو زندہ جلادیا گیا تھا۔
اسلام تو رواداری سکھاتا ہے، انسان کا احترام سکھاتا ہے، محبت کرنا سکھاتا ہے۔یہ تعصب اور نفرت کہاں سے آگئی یہ یقیناً اسلام سے الگ بات ہے، اس ظلم و زیادتی کی مذمت لازم ہے، اس جرم پر سزا دینا معاشرہ پر وہ قرض ہے جسے ادا نہ کرنے سے معاشرہ اجتماعی سزا کا حقدار بن جائے گا۔ عدل اور انصاف کیلئے ریاست کے ذمہ دار اداروں کو اپنا فرض ادا کرنا ہوگا ،اس کے بغیر اسلامی فلاحی ریاست کا خواب بھی ممکن نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply