• صفحہ اول
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ ۔۔ابھیشیک شریواستو /ترجمہ: اشعر نجمی

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ ۔۔ابھیشیک شریواستو /ترجمہ: اشعر نجمی

منگل کی رات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوں ہی واپسی کی فلائٹ پکڑی،ایک غیر معمولی شخصیت دہلی پولیس ہیڈ کوارٹر میں داخل ہوئی۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال دیر رات پولیس ہیڈ کوارٹر پہنچے، پھر وہاں اگلے دن فسادات سے متاثرہ علاقوں میں چلے گئے۔ بدھ کے روز، ان کا دورہ ٹی وی کیمروں پر ریکارڈ ہوا، جب انھیں مقامی لوگوں سے یہ کہتے ہوئے دیکھا گیا ،”جو ہوا سو ہوا ، انشااللہ،امن ہوگا ۔”

وزارت داخلہ نے 1978 میں جاری کردہ ایک اہم نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ دہلی کے ایس ڈی ایم اور مجسٹریٹ کے اختیارات دہلی کے کمشنر آف پولیس کے ماتحت ہیں۔ اسی اطلاع کا استعمال کرتے ہوئے ، 5 اگست 2016 کو دہلی کے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کے باہر ایس ڈی ایم کے ذریعہ عائد کردہ دفعہ 144 کو دہلی پولیس کے ڈی سی پی نے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔دہلی کے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں دہلی پولیس اور مقامی انتظامیہ کے درمیان حقوق کی ترجیحات کے تنازعہ کا فیصلہ اس نوٹیفکیشن کے ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب قومی سلامتی کے مشیر نے دہلی پولیس کمشنر کے حقوق میں دراندازی کی ہے۔ اس کے ایک مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ ڈوبھال نے وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا اور یہ مقتدر اعلیٰ کی منظوری سے کیا گیا۔

اگر یہ بات ڈوبھال کے ذریعہ صورتحال کا جائزہ لینے تک ہی محدود رہتی تو بھی ٹھیک تھا۔ امن کے قیام کے لیے ڈوبھال نے جس طرح سے مقامی لوگوں سے بات چیت کی اور ٹیلی ویژن پر جس طرح سے اس کو نشر کیا گیا ، یہ اپنے آپ میں نا صرف ایگزیکٹیو بلکہ مقننہ کے دائرہ اختیار کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ شورش زدہ علاقے میں مقننہ سے بطور قاصد قومی سلامتی صلاح کار کوبھیجا جانا سب کی نظر میں آگیا۔ اگر ہم اس کا موازنہ بالکل اسی نوعیت کے ایک منظر سے کرتے ہیں جو آج سے چھ ماہ قبل سری نگر کی سڑکوں پر ہوا تھا ، تو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ دہلی کی سیاست کی کوکھ میں کیا پوشیدہ ہے۔

ڈوبھال کو سڑک پر آئے دو دن نہیں ہوئے تھے کہ تین ہفتہ قبل تیسری بار دہلی کے وزیر اعلی بننے والے اروند کیجریوال نے دھماکہ کردیا۔ کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی اجازت ایک ہی جھٹکے میں دے دی گئی۔

کیجریوال، جنھوں نے شیلا دکشت کے خلاف سیاست کا آغاز کیا تھا، آج وہ سیاست کے اس اسٹیج پر کھڑے ہیں جہاں وہ خود شیلا دکشت بن گئے ہیں۔ اسے دو واقعات سےسمجھیں۔ 2013 میں اروند کیجریوال کا سوشل میڈیا پر ایک ٹویٹ اس بحث میں واپس آگیا ہے جس میں وہ شیلا دکشت کو عصمت دری کے واقعات پر قابو نہ پانے پر لعنت بھیج رہے ہیں اورالزام عائد کرتے ہیں کہ شیلا دکشت دوسروں کو ہر حادثے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ دہلی میں تین روزہ فسادات کے پہلے دو دن میں، اگر کیجریوال اور ان کے حمایتی، ایم ایل اے اور وزیروں کے ٹوئٹ دیکھیں تو وہ سب فسادات سے متاثرہ تمام علاقوں میں کوئی زمینی کام کرنے کے بجائے بالکل شیلا دکشت کے انداز میں “پولیس اپنے ہاتھ میں نہیں” ہونے کا رونا رو کر دنگوں سے اپنا پلہ جھاڑ رہے تھے۔

دوسرا واقعہ سال 2012 کا ہے۔ اسی سال ایک کارٹونسٹ، اسیم ترویدی کے خلاف ممبئی میں “دیش دروہ” کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اروند کیجریوال نے ممبئی سے دہلی تک متعدد دھرنا مظاہروں کے ذریعے اسیم کے خلاف غداری کے درج شدہ الزامات کی مخالفت کی اور اپنی ابتدائی سیاست کو دھار بخشی۔ آج اسی اروند کیجریوال نے کنہیا کمار اور دیگر طلباکے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے گرین سگنل دے کر اپنی سیاست کا ایک کامیاب دائرہ مکمل کیا ہے۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ کیجریوال کا “شیلانیاس ” ہو گیا ہے۔

شاہ اور مودی کے جال میں:
جس دن اجیت ڈوبھال کو ٹی وی پر ہنگامہ خیز علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا ، امریش مشرا نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ لکھی۔واضح رہے کہ امریش مشرا نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بنارس سے نریندر مودی کے خلاف چناؤ لڑے تھے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے  آر ایس ایس کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ وہ جیل بھی جا چکے ہیں اور ان کے دو ٹویٹر اکاؤنٹ بھی بلاک کردیے گئے ہیں۔ دانشورانہ حلقوں میں ، وہ ایک “سازشی تھیورسٹ” کا تمغہ حاصل ہے، لیکن اس بار انھوں نے یہ سوال اٹھا کر نبض پر انگلی رکھ دی کہ ایک منتخبہ جمہوریت میں عوام کے ساتھ قومی سلامتی کے مشیر کیوں مکالمہ کررہے ہیں؟

اگر دہلی ایک ایسی ریاست ہے جو اپنی حکومت خود منتخب کرتی ہے تو پھر یہاں کی منتخبہ حکومت نے اپنے علاقے میں این ایس اے کو اپنی جگہ کیسے دے دی؟ اوّل تو ہر بات پر یہ دلیل دینا کہ “دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے” دہلی سرکار کی قوت ارادی کی کمزوری کو نمایاں کرتا ہے، دوسرے معاملے کا دہلی پولیس یعنی وزارت داخلہ کے بھی پار چلے جانا آخر کس رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ آدھی ریاست کا رونا روتے ہوئے کیا اروند کیجریوال خود بھی “ڈیپ اسٹیٹ” (Deep state) کا حصہ بن چکے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیجریوال کی آدھی ادھوری طاقت میں اور کتنے دن باقی ہیں؟
ایک مرتبہ پھر پوری کرونولوجی دیکھیں تو بات سمجھ میں آئے گی۔ اتوار کی شام، سموار اور منگل کو فسادات ہوئے تھے۔ دہلی میں پچاسوں گواہ ہیں جو بتائیں گے کہ انھووں نے کتنے ایم ایل اے اور وزراکو فون لگایا۔ ایک وکیل نے نومنتخب ایم ایل اے آتشی مارلینا سے فون پر التجا کی تودوسری جانب سے آواز آئی ،”یہ لا اینڈ آرڈر کا معاملہ ہے۔”راقم الحروف نے بدھ کے روز دو بار وزیر گوپال رائے کو فون کیا، نہ ہی فون اٹھایا گیا اور نہ ہی کوئی کال بیک ہوا ۔دو دن بعد آخر کار چارو ناچار کیجریوال فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے گئے، جہاں شہید سپاہی رتن لال کے دروازے پر مقامی لوگوں نے انھیں اور منیش سسودیا کو پیچھے دھکیل دیا۔” کیجریوال واپس جاؤ”کے نعرے لگ گئے، وہ لوٹ آئے۔

اگلی صبح انھوں نے دہلی اسمبلی میں اپنی تقریر کا  آغاز میلینیا ٹرمپ کے دورے کے حوالے سے کیا اور پھر فسادات پر آئے۔ ان کے اس جملے کو غور سے پڑھیں:

“میں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ ان فسادات سے کس کا نقصان ہوا۔ ان فسادات سے سب کو نقصان پہنچا۔ ان فسادات میں کون مرا، بیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ ویربھان کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ محمد مبارک کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ پرویش کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ ذاکر کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل سولنکی کی موت ہوئی، وہ ہندو تھا۔ شاہد کی موت ہوئی، وہ مسلمان تھا۔ محمد فرقان کی موت ہوئی، وہ ایک مسلمان تھا۔ راہل ٹھاکر کی موت ہوگئی،وہ ہندو تھا۔ ”

عام طور پر جہاں دو فرقوں کے مابین جھگڑے میں،مقتول اور حملہ آور دونوں کی شناخت بتانا صحافت میں ممنوع ہوتاہے، وہیں ایک منتخب رہنما اور وزیراعلیٰ اسمبلی میں کھڑے ہوکر مقتولین کا مذہب بتا رہے تھے اور ایک ہندو کو ایک مسلمان کے ساتھ گنتی کرکے توازن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اگلے دن پریس کانفرنس میں اپنی تقریر کو ٹویٹ کرتے ہوئے کیجریوال نے لکھا،”ملک کی سلامتی کے ساتھ کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔”

یہ کس کی زبان ہے؟ یہی بات منموہن سنگھ نے اپنے وزیر اعظم کے عہدے کے دوران لیفٹ وِنگ انتہا پسندی یعنی کمیونسٹ انتہا پسندی سے نبرد آزما ریاستوں کے ڈی جی پی کانفرنس میں بھی کہی تھی۔ اب یہی بات ہم گزشتہ چھ سالوں سے نریندر مودی کے منہ سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی بھی ملک کی سلامتی کے ساتھ کسی بھی قسم کی سیاست نہیں کرنا چاہتا ہے تو پھر مقتولین کے مذہب کو گن کر لاشوں کے انبار کو متوازن کرنا ، اپنے دائرہ اختیار کو این ایس اے کے لیے کھلا چھوڑ دینا اور چار سال سے اٹکے ہوئے دیش دروہ کے ایک فیصلے کو فساد کی گرمی کے درمیان پاس کر دینا کون سی سیاست ہے؟

بدھ کے روز اسمبلی جانے سے پہلے، کیجریوال کو اپنے دروازے پر طلبا اور نوجوانوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ جامعہ اور جے این یو کے طلبا نے احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔ پچھلے چھ سالوں میں پہلی بار یہ دیکھا گیا کہ کیجریوال اور دہلی حکومت کی مخالفت کرنے والے نوجوانوں پر حملہ کیا گیا اور واٹر کینن اور لاٹھیوں سے انھیں کھدیڑا گیا۔ کیجریوال، جنھوں نے کبھی دفعہ 144 کو توڑ کر اور ایک دہلی کے قلب میں ریل بھون کے قریب دھرنا دے چکے ہیں، جنھوں نے کبھی 26 جنوری جیسے حساس وقت کی بھی پرواہ نہیں کی، گزشتہ وہ ہفتے بالکل مختلف اوتار میں نظر آئے۔

کتنا دور کتنے پاس:
کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمے کی منظوری کے بعد، جمعہ کی شام سے ہی ان کے پرستاروں میں کیجریوال کے بارے میں مایوسی پائی جارہی ہے۔ یہ وہی رائے دہندگان ہیں جنھوں نے 11 فروری کو انتخابی نتائج کے دن کیجریوال کی کامیابی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاہین باغ سے سیاسی فاصلہ بنا کر عام آدمی پارٹی نے حکمت عملی سے کام لیا جو درست تھا۔ جب کیجریوال نے سموار اور منگل کو فسادات سے دوری بنائی تو ان کے حمایتیوں کی منطق وہی پرانی تھی ، “دہلی پولیس ہمارے ساتھ نہیں ہے۔”

دہلی پولیس ساتھ نہ ہونے کی منطق میں جو بھی پھنسے ، انھوں نے اس حقیقت سے منہ موڑ لیا کہ ایسا کہہ کر کیجریوال نے 48 گھنٹوں کے لیے میدان فسادیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ ڈوبھال نے یہیں بازی مار لی۔ دوسری بات یہ کہ اگر کیجریوال کے پاس دہلی پولیس ہوتی بھی تو کیا الگ ہوجاتا ؟ (یاد کیجیے الیکشن پرچار کے دوران اروند کیجریوال ایک سے زائد بار اپنے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ اگر دہلی پولیس ان کے پاس ہوتی تو وہ دو گھنٹے میں شاہین باغ خالی کراسکتے تھے۔مترجم)

این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، فسادات کے دوران دہلی پولیس کے پاس 13200فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ 23 فروری کو 700 پریشان اور مصیبت زدہ لوگوں کی کال، 24 فروری کو 3400 کالز، 25 فروری کو 7500 کال اور 26 فروری کو 1500 کالز۔

اکالی دَل کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ نریش گجرال کا ایک خط وائرل ہوا ہے ، جسے انھوں نے جمعرات کو دہلی پولیس کمشنر کو لکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے لوگوں کے کہنے کے باوجود مصیبت میں پھنسے لوگوں پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ شرومنی اکالی دَل برسوں سے پنجاب میں بی جے پی کی اتحادی جماعت رہی ہے۔ اگر اس کے ایک رکن پارلیمنٹ کی کال پر دہلی پولیس عمل نہیں کرتی ہے تو پھر کیجریوال اور ان کے حمایتیوں کو کس بات پر خوش فہمی ہے؟

در حقیقت ، لااینڈ آرڈر یعنی پولیس کا اپنے پاس نہ ہونا، دہلی حکومت کے لیے ایک آسان بہانہ تھا اور ہے، جس کے سہارے اس نے اہم امور سے خود کو دور رکھا۔ شاہین باغ میں شہریت مخالف ترمیم قانون تحریک سے متعلق کیجریوال کا بیان یاد رکھیں، جس میں انھوں نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو للکارا تھا کہ پولیس ان کی ماتحت ہے تو وہی راستہ کیوں نہیں خالی کرالیتے؟ اب ایک بار پھر انھوں نے اپنے کونسلر طاہر حسین کو پارٹی سے نکال کر اور ہر مجرم کو یکساں طور پر سزا دینے کا مطالبہ کرکے اپنا پلہ جھاڑ لینے والی سیاست کی ہے، جب کہ یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ انھوں نے کپل مشرا کے معاملے پر اب تک اپنی زبان نہیں کھولی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کپل مشرا بھی ان ہی کی پارٹی کے نیتا رہے ہیں۔ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ کیجریوال کپل مشرا پر خاموش ہیں، وہی کپل مشرا جن کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا آرڈر دینے والے جسٹس مرلی دھرکا راتوں رات تبادلہ ہو جاتا ہے!

پانچ سال پہلے کا سبق:
آخرکیوں نہ تسلیم کر لیا جائے کہ لا اینڈ آرڈر کی آڑ میں متنازعہ معاملات سے دوری بنائے رکھنے کی کیجریوال کی سیاست دراصل وہ نہیں ہے جو نظر آتی ہے، بلکہ مرکزی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مزید قریب ہونے کی ایک مشق ہے؟ “ڈیپ اسٹیٹ” (Deep State) یکطرفہ نہیں بنتی، دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجتی ہیں۔ اگر ہم کیجریوال کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو ان کی تیسری انتخابی کامیابی میں “ڈیپ اسٹیٹ” کی شمولیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور زیادہ پیچھے جائیں گے توہمیں وہی سوال اٹھانا پڑے گا جو نومبر 2014 میں اٹھایا گیا تھا لیکن جسے ہوا میں اڑا دیا گیا: “Modi for PM, Kejriwal for CM” کا نعرہ کس نے دیا تھا؟

اگر آپ اپنی یادداشت پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ عام آدمی پارٹی کی ویب سائٹ پر پراسرار طور پر ایک نعرہ شائع ہوا تھا جو کہتا تھا: “Delhi Speaks: Modi for PM, Arvind for CM”! جب اس پر ہنگامہ ہوا تو پارٹی نے اسے فوراً ہی ہٹا دیا تھا، لیکن فروری 2015 میں دہلی کی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں یہ نعرہ عام آدمی پارٹی کے غیر آفیشیل انتخابی اعلان کی طرح ہوگیا۔ کچھ حلقوں میں یہ خیال کیا گیا کہ مودی کا وزیر اعظم بننا اور دہلی میں کیجریوال کی فتح دونوں ایک دوسرے پر منحصر مظاہر ہیں اور ضروری طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

آج سے چند سال قبل اس طرح کی باتوں کو سازشی تھیوری سمجھ کر ہوا میں اڑا دیا جاتا تھا۔ کانگریسی لیڈر آنند شرما نے توکھل کر اس تھیوری کو میڈیا میں ڈال دیا تھا لیکن اس وقت سننے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اس وقت نہ ڈوبھال این ایس اے تھے ، نہ مودی وزیر اعظم تھے اور نہ ہی اروند کیجری وال دہلی کےوزیر اعلیٰ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج یہ تینوں اپنی اپنی جگہوں پر ہیں۔ اگر دہلی جلتی ہے تو مودی احمد آباد میں ہوتے ہیں ، ڈوبھال سڑک پر ہیں اور اروند کیجریوال اپنے گھر میں۔ کیا کچھ اور یاد کرنے کرانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟طئ

Facebook Comments

گوشہ ہند
ہند کے اردو دان دوست آپ کیلیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply