مہاتیر بھی چھوٹا نکلا۔۔محمد اسد شاہ

کچھ عرصہ پہلے تک میرا یہ خیال تھا کہ شاید وہ ایک مختلف شخص ہے جس میں ایک مدبر یا راہ نما والی خصوصیات ہوں گی ۔۔ لیکن الحمد للّٰہ ، میں خیال تک ہی محدود رہا ۔۔ یوں بھی کسی تحقیق کے بنا کوئی ٹھوس رائے قائم کرنا بھی نہیں چاہیے ۔۔ البتہ جو ایک موہوم سا مثبت تاثر ذہن میں تھا وہ اس کی چند تقاریر کی وجہ سے تھا جو اس نے بعض عالمی فورمز پر کیں ۔۔ میں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ کسی سیاست دان یا حکمران کے بارے میں رائے اس کی تقاریر سن کر قائم نہ کی جائے ، بلکہ  اس کی ذاتی زندگی ، اور بحیثیت حکمران اس کے ان اقدامات کو دیکھا جائے ،جو اس نے اپنے محکوم عوام کے لیے اٹھائے ۔۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ اب دنیا بھر میں اعلیٰ کردار کی بجائے صرف “اچھی تقریر” یا “نسبتاً بہتر” جیسے ڈرامے بازوں کو لیڈر سمجھ لیا جاتا ہے ۔۔ فکری و عملی تنزل کا یہ سلسلہ دراصل اس قحط الرجال کا نتیجہ ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بعض مسلم ممالک پر مسلط تھا اور اب تو تقریباً پوری دنیا پر قابض ہو چکا ہے ۔۔ اس معاملے میں ایک بہت بڑا اور برا کردار ان ممالک کی اسٹیبلشمنٹ کا ہے ۔۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہمہ قسم ہتھیاروں اور حربوں کی اتنی بڑی کھیپ ہوتی ہے کہ ہم جیسے کم فہم جس کا تصور تک نہیں کر سکتے ۔۔ ہوتا یہ ہے کہ ان ممالک کی اسٹیبلشمنٹ ہر حکمران کو اپنے اشاروں پر چلانے کی عادی ہو چکی ہے ۔۔ آپ حیران ہوں گے کہ کوریا ، مصر ، قطر اور الجزائر جیسے ممالک میں فوج جو کچھ چاہتی ہے ، عدالتوں کی طرف سے اس کی راہ میں کبھی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی ، بلکہ قوانین کی من چاہی تشریحات اور نامعلوم کتب کے حوالے دے کر عدالتیں وہی فیصلے سناتی ہیں جن سے وہاں کی افواج کی پسند و ناپسند کی تائید ہوتی رہے ۔۔ مصری فوج کو محمد مرسی مرحوم پسند نہیں تھے ۔۔ چنانچہ ان کے خلاف ہنگامے شروع ہو گئے ، پھر دارالحکومت قاہرہ میں ایک طویل دھرنا دیا گیا ۔۔ پھر جو کچھ بھی ان کے ساتھ ، اور ان کے اہل خانہ اور سیاسی ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا، عدالتیں انکھیں بند کر ، ضمیر کو تالے لگا اور آئین کو کوڑے دان میں پھینک کر درپردہ اس کی تائید ہی کرتی رہیں ۔۔ ان کو کرپٹ، غدار ، فوج کا دشمن اور ایک پڑوسی ملک کے خفیہ ادارے کا ایجنٹ تک مشہور کروایا گیا ۔۔ حتیٰ کہ محمد مرسی کو کمرۂ عدالت میں ہی اپنی جان اللّٰہ کے سپرد کرنا پڑی ۔۔ میں ذاتی طور پر محمد مرسی مرحوم کو شہید راہ حق سمجھتا ہوں اور ان مغفرت اور بلندی ء  درجات کے لیے دعا گو ہوں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عرض یہ ہے کہ دنیا بھر کے اکثر ممالک میں دراصل اسٹیبلشمنٹ ہی اقتدار پر قابض ہے ۔۔ سیاسی قائدین عوام میں جاتے ہیں ، کسی نہ کسی طرح منتخب ہو کر اقتدار میں آتے ہیں ، لیکن سکیورٹی کے نام پر ان کی ہر سانس ، ہر قدم اور ہر لفظ پر اسٹیبلشمنٹ اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں رہتی ہے ۔۔ وہ حکمران جب تک اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتا رہے ، اس کی حکومت کسی نہ کسی طرح چلتی ہی رہتی ہے ۔۔ لیکن جیسے ہی وہ اپنے منتخب ہونے یا آئین کی بالادستی جیسے کسی دھوکے میں مبتلا ہوتا ہے ، اسٹیبلشمنٹ کی سوئیاں غیر محسوس انداز میں اینٹی کلاک وائز گھومنا شروع کر دیتی ہیں ۔۔ اس دوران وہاں کی اسٹیبلشمنٹ دستیاب سیاسی لوگوں میں سے کسی مناسب ترین کٹھ پتلی کو تلاش کرتی ہے ۔۔ پہلے سے موجود حکمران یا مضبوط ترین سیاسی راہ نما کے خلاف اتنی نفرت پھیلائی جاتی ہے کہ اللّٰہ کی پناہ ۔۔ ایسے میں عوام اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ کٹھ پتلی کو مسیحا سمجھنے لگتے ہیں ۔۔ اور معاشرہ نفرت و محبت کی دو انتہاؤں پر پہنچ جاتا ہے ۔۔ امریکہ میں ٹرمپ ایسے ہی جیتا ۔۔ بھارت میں مودی صرف نفرت کی بنیاد پر دوسری مدت کے لیے وزیراعظم بن چکا ہے ۔۔ اسرائیل میں بھی نفرت ہی کی سیاست کامیاب ہے ۔۔ مہاتیر بھی کچھ ایسا ہی کردار ہے جو اپنے ملک میں سیاسی مخالفین کے لیے نفرت پھیلا کر حکومت میں ہے ۔۔ مہاتیر عالمی فورمز میں تقاریر بہت اچھی کرتے ہیں ۔۔ عالم اسلام کے اتحاد، معیشت کی مضبوطی، اور مظلوم مسلمانوں کی بھرپور حمایت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں ۔۔ چنانچہ ملائیشیا سے باہر کے مسلمان انھیں ہیرو سمجھتے ہیں ۔۔ لیکن خود ملائیشیا میں کیا صورت حال ہے ، وہ مہاتیر کی اصل پہچان ہے ۔۔ ملائیشیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ 10 جولائی 1925 کو پیدا ہونے والے، دنیا کے معمر ترین حکمران مہاتیر محمد سیاسی ریشہ دوانیوں کے ماہر ہیں ۔۔ 1964 میں وزیراعظم تنکو عبد الرحمٰن ، 1998 میں نائب وزیراعظم انور ابراہیم ، 2006 میں وزیراعظم عبداللّٰہ احمد بداوی اور 2015 میں وزیراعظم نجیب رزاق کے خلاف سیاسی سازشوں میں مہاتیر کا کردار نمایاں رہا ۔۔ اقتدار میں آ کر ججز کو دبانے ، سیاسی مخالفین پر کرپشن اور سکیورٹی کے نام پر مقدمات قائم کرنے اور دباؤ کے ذریعے عدالتوں سے سزائیں دلوانے جیسے الزامات ان پر ہیں ۔۔ 2018 میں انور ابراہیم نے جیل میں رہ کر ایک سیاسی اتحاد قائم کیا۔۔ اس کی سربراہی ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت صرف اس شرط پر مہاتیر کو دی گئی کہ الیکشن میں کامیابی کی صورت میں انور ابراہیم وزیر اعظم ہوں گے ۔۔ اتحاد الیکشن جیت گیا لیکن اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی وجہ سے انور ابراہیم رہا نہ ہو سکے تو عارضی طور پر مہاتیر کو وزیراعظم بنایا گیا۔۔ مہاتیر نے وعدہ کیا کہ انور ابراہیم کی رہائی پر وہ استعفیٰ دے کر اقتدار ان کے حوالے کر دیں گے ۔۔ لیکن پھر انور ابرہیم کی رہائی پر جب مہاتیر کو وعدہ یاد دلایا گیا تو انھوں نے الٹا انور کے خلاف سازشیں شروع کر دیں ۔۔ پہلے تو استعفیٰ دینے سے ہی انکار کیا ۔۔ پھر اب اچانک استعفیٰ دے کر بادشاہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے غیر معینہ مدت تک کے لیے نگران وزیراعظم بن گئے ہیں اور اب اقتدار اور اسٹیبلشمنٹ ہی کی مدد سے انور ابراہیم کو سیاست سے بے دخل کرنے ، اور پارلیمنٹ میں نیا سیاسی اتحاد قائم کر کے ایک بار پھر منتخب وزیراعظم بننے کی راہ پر ہیں ۔۔ مجھے انور ابراہیم سے کچھ لینا دینا نہیں۔۔ البتہ میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص اپنے وعدے کی پاس داری نہیں کرتا ، یا جھوٹے وعدے کرتا ہے ، وہ راہ نما نہیں ، بلکہ راہ زن ہوتا ہے ۔۔
یاد رکھیے کہ نبی آخر الزماں سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ جو اپنے وعدے کا نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں ۔۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply