رقص کی آفت ۔ جین (17) ۔۔وہاراامباکر

زندگی کے تیس سال سے چالیس سال تو ٹھیک گزرتے ہیں۔ پھر کبھی کبھار ہونے والی موڈ کی تبدیلی۔ لوگوں سے الگ رہنے کی خواہش۔ رفتہ رفتہ کسی عضو کا پھڑکنا۔ پھر یہ بڑھتے جانا، یہاں تک کہ کوئی چیز پکڑنا بھی مشکل ہو جائے۔ گلاس یا گھڑی انگلیوں کی گرفت سے نکل کر درمیان سے پھسل کر گر جائیں۔ جسم کی یہ حرکات جھٹکوں میں بدل جائیں اور پھر غیرارادی رقص۔ جیسا کسی شیطانی موسیقی پر کوئی کٹھ پُتلی رقصاں ہو۔ بازو اور ٹانگیں اپنے قابو میں نہ رہیں۔ ذہنی طور پر انحطاط ہونے لگے۔ جسم کے اعضاء کہا ماننا چھوڑ دیں۔ یادداشت جانے لگے۔ مریض کا انتقال بھوک اور انفیکشن سے ہوتا ہے۔ رقص آخری وقت تک ساتھ رہتا ہے۔ یہ ہنٹنگٹن بیماری ہے جو 1870 میں دریافت ہوئی۔ اسکو رعشہ مزمن بھی کہا جاتا ہے۔ ہر رقص خوشی کا نہیں ہوتا۔

یہ وراثتی بیماری اپنے ساتھ ایک ظالم حربہ لے کر آتی ہے۔ تیس سے چالیس سال کی عمر میں اس کے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس بیماری کی شناخت ہونے سے پہلے ہی جین اگلی نسل کو منتقل کی جا چکی ہوتی ہیں۔ یہ بیماری اگرچہ عام نہیں اور دس ہزار میں سے ایک فرد کو ہوتی ہے لیکن چلی آ رہی ہے۔ اگلی نسل کے فرد کو وراثتی طور پر اس کے منتقل ہونے کا پچاس فیصد امکان ہے۔ ایسے بچوں کے لئے زندگی ایک مستقل دھڑکے کی صورت میں گزرتی ہے۔ کہیں تاریک مستقبل میرے لئے تو نہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملٹن ویکسلر نے اپنی دونوں بیٹیوں کو یہ خبر سنائی کہ ان کی والدہ کو یہ بیماری ہے۔ نینسی اور ایلس دونوں کے لئے پچاس فیصد امکان ہے کہ یہ بیماری لاحق ہو جائے اور اگر ہو گئی تو پچاس فیصد امکان ہے کہ وہ اسکو آگے اگلی نسل میں منتقل کر دیں گی۔ سسکیاں لیتی بیٹیاں یہ خبر سن رہی تھیں۔ اس سال ملٹن ویکسلر نے وراثتی بیماریوں کی نان پرافٹ فاونڈیشن قائم کر دی۔ “ہمیں اس بیماری کی جین ڈھونڈنی ہے تا کہ مستقبل میں اس کی تشخیص، روک تھام اور علاج ہو سکے”۔ یہ ادارہ اس بنیاد پر قائم کیا گیا۔

بچیوں کی والدہ پر اس بیماری کے شکنجے کی گرفت کڑی ہوتی گئی۔ بولنا مشکل ہو گیا۔ “ان کے جوتے جلد ہی گھس جاتے۔ وہ نرسنگ ہوم میں ایک کرسی پر بیٹھی تھیں۔ اس قدر زور سے جھٹکے لگتے تھے کہ ان کا سر دیوار سے جا لگتا۔ جہاں پر بھی انہیں بٹھایا جاتا، وہ کرسی پیچھے لے جاتیں۔ کسی نے کہا تھا کہ اگر انکو موٹا کیا جائے تو شاید اتنی زور سے نہ حرکت کریں۔ میں انہں مٹھائی دیتی لیکن ان کا وزن کبھی نہیں بڑھا۔ میرا بڑھ گیا۔ میں انہیں کمپنی دینے کے لئے کھانے میں ان کا ساتھ دیتی۔ میں اس لئے بھی کھاتی کہ رونا نہ آئے”۔ یہ ان کی بیٹی کا کہنا تھا۔ والدہ کا انتقال 14 مئی 1978 کو ہو گیا۔

نینسی ویکسلر نے اکتوبر 1979 میں جین کے بارے میں ہونے والی ورکشاپ میں شرکت کی، جہاں پر جین کو میپ کرنے کی تکینک کا بتایا گیا لیکن ابھی یہ طریقہ تھیوریٹیکل تھا۔ کوئی بھی جین میپ نہیں ہوئی تھی۔ اس تکینیک کو استعمال کرنے کے لئے پہلے ان افراد کی ضرورت تھی جن کو یہ بیماری ہو۔ پھر ان کے جینیاتی میٹیریل کے تجزیہ سے کروموزوم اور جین تک پہنچنے کی تکنیک بوٹسٹین نے پیش کی تھی۔

ہنٹگٹن کے مریض امریکہ میں بہت کم تھے۔ پورے ملک میں چند ہزار۔ انہوں نے سنا تھا کہ وینیزویلا کی جھیل میراسیبو کے کنارے دو دیہاتوں میں یہ مرض عام ہے۔ اگر اس تکنیک کے کامیاب ہونے کا امکان تھا تو ان دیہاتوں میں جانا تھا۔ نینسی ویکسلر نے یہاں جا کر سیمپل اکٹھے کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مقامی زبان میں اس بیماری کو “رقص کی آفت” کہا جاتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلدلی علاقے میں مچھیروں کی بستی میں ویکسلر کشتی پر پہنچیں۔ اور انہیں سامنے ہی نظر آ گیا۔ کچی سڑک پر چلنے والے شخص میں۔ ایک شادی شدہ جوڑے اور ان کے بچوں میں۔ چند مہینوں میں علاقے کے لوگوں کے کوائف اکٹھے ہونے کے ساتھ لائنیج کی انفارمیشن بھی مل گئی۔ سینکڑوں لوگ اس کا شکار تھے۔ ان سے خون کے سیمپل اکٹھے ہوئے اور بوسٹن میں ماہرینِ جینیات کو بھجوا دئے گئے۔ تین سال بعد تجزیہ کرنے والی ٹیم نے کروموزوم 4 پر ایک ویری انٹ پہچان لیا۔ جینوم کا ایک خالی سا علاقہ تھا جس میں کچھ غیرمتوقع نظر آ گیا تھا۔ اب مزید گہرائی میں جایا جا سکتا تھا۔

یہ طویل اور احتیاط سے کرنے والا کام تھا۔ کروموزوم کے مشکوک ٹکڑے کے حصے کئے جاتے تھے، ان کو ییسٹ یا بیکٹیریا کے کروموزوم میں ڈالا جاتا تھا۔ اس کو کلون کر کے کئی ملین کاپیاں بنائی جاتی تھی۔ اس سے پتا لگتا تھا کہ اس میں کونسی جین ہے۔ اس عمل کو دہرایا جاتا تھا اور بہتر کیا جاتا تھا۔ ہر حصے کو دوبارہ چیک کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جین ہونے کا امیدوار سامنے نہ آ جائے۔ آخری ٹیسٹ یہ تھا کہ نارمل شخص اور بیمار شخص کے اس حصے کا موازنہ کیا جائے جس سے تصدیق ہو سکے کہ یہ حصہ بیماروں میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہ کسی بڑے شہر میں مجرم کو ڈھونڈنے کے لئے گھر گھر تلاشی کرنے جیسا کام تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فروری 1993 کی ایک صبح بہت مختصر سا پیغام موصول ہوا “مل گیا”۔ دس سال میں 58 سائنسدانوں کی ٹیم نے طرح طرح کے طریقے آزما کر دیکھے تھے۔ نتیجہ نہیں مل رہا تھا۔ آخر کار، ایک ایک جین کو کنگھالتے ہوئے وہ ایک جین تک پہنچ گئے تھے جس کو IT15 کا نام دیا گیا (بعد میں اس کا نام ہنٹگٹن پڑ گیا)۔ یہ ایک بہت بڑا پروٹین بناتی تھی جس میں 3144 امینو ایسڈ تھے۔ جسم کے سب سے بڑے پروٹین میں سے ایک۔ (انسولین میں 51 امینو ایسڈ ہوتے ہیں)۔

ہنٹگٹن پروٹین کرتی کیا ہے؟ یہ ابھی نامعلوم ہے۔ لیکن یہ دماغ اور ٹیسٹیکل کے ٹشو میں ہوتی ہے۔ اور یہ میوٹیشن بھی پرسرار سی ہے۔ نارمل جین میں CAGCAGCAGCAG… دہرایا جاتا ہے۔ نارمل شخص میں 17 سے 35 بار۔ میوٹیشن میں یہ سیکونس بدلتا نہیں لیکن دہرائے جانے کی تعداد چالیس سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس کی دہرائی کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ مالیکیول زیادہ بڑا بنتا ہے اور یہ نیورون میں جا کر گزر نہیں پاتا۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اعصابی خلیوں میں اس کے جال اکٹھے ہونے لگتے ہیں۔ ان میں خرابی آنے لگتی ہے اور خلیوں کی موت واقع ہونے لگتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ایک اور بیماری سسٹک فائیبروسس کی جین کی شناخت ہوئی جو پھیپھڑوں، لبلبے اور آنتوں کو متاثر کرتی ہے۔ جینوم کی ایک جگہ پر تین حروف کی عدم موجودگی اس ایک امینو ایسڈ بننے سے روک دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے نمک جسم میں جذب نہیں ہوتا۔ اور انسان اس خطرناک عارضے کا شکار ہو جاتا ہے۔ 1990 کی دہائی میں جینیاتی کِٹ بن گئیں جو ان میوٹیشنز کا پتا بچے کی پیدائش سے پہلے ہی لگا سکتی تھیں۔ ہائی رسک خاندانوں میں والدین کی سکریننگ کی جا سکتی تھی کہ ان میں سے کون ان بیماریوں کا ممکنہ کیرئیر ہو سکتا ہے تا کہ وہ بچہ کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ سمجھ لیں۔ اس کی مدد سے سسٹک فائبروسس کے مرض میں تیس سے چالیس فیصد کمی آ چکی ہے۔ اشکینازی کی آبادی میں یہ عارضہ عام تھا۔ ان پر کی جانے والی تشخیص کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان میں یہ مرض ختم ہونے کو ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برگ اور جیکسن جینیاتی مالیکول کی ری کمبی نیشن پر پہلی بار کام کر رہے تھے، اس سے بیس برس کے اندر اندر کئی بیماریوں کی شناخت ہو چکی تھی، کئی کیمیکل بن چکے تھے۔ بائیوٹیکنالوجی کا لفظ ڈکشنری میں داخل ہو چکا تھا۔ جین کو میپ کرنا آ گیا تھا، کلون کرنا آ گیا تھا، بیکٹیریا میں ڈالنا آ گیا تھا، اس سے ادویات کی تیاری کا پتا لگ گیا تھا۔ روایتی نقطہ نظر یہ رہا تھا کہ تربیت بدلی جا سکتی ہے، فطرت نہیں۔ پہلی بار فطرت قسمت نہیں رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم بائیوٹیکنالوجی کے انقلاب کے دور میں ہیں۔ بہت سے لوگ بہت امید بھی رکھتے ہیں اور دھڑکا بھی۔ ماہرِ جینیات رابرٹ سنیشیمر لکھتے ہیں، “ہم ایک نامعلوم دنیا میں داخل ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس پر مسکرا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ انسانی پرفیکشن کا پرانا خواب ہے۔ لیکن یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ کلچرل پرفیکشن کی تمنا میں ہمیشہ بائیولوجیکل رکاوٹ رہی۔ اب ایک اور راہ کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ دو ارب سال کے ارتقا کے حیران کن تجربات کی شاندار پراڈکٹ انسانی شعور ہے۔ اب یہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ ارتقا کے تجربے کا ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں لینے کی کوشش میں ہے۔ کیا اب کچھ بھی محفوظ رہ پائے گا؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جین کو پہچاننے کی کامیابی نے ایک سوال چھیڑ دیا تھا۔ کیوں نہ انسان کو پورا کا پورا ہی پڑھ لیا جائے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply