ہائے یہ افلاطون۔۔ذیشان نور خلجی

اگلے دن ایک تحریر لکھی اور پھر خود ہی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اسے ادب کی کون سی صنف میں شمار کیا جاسکتا ہے،۔ تحریر بھی عجیب سے بے ڈھنگے خیالات پر مشتمل تھی۔ راہنمائی کے لئے چند اہل علم دوستوں سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی نگارش پیش کی۔ جس کے بعد مختلف آراء سامنے آئیں۔ کسی نے کہا اسے ایک کالم ہی سمجھا جائے گا جیسا کہ تم بھی یہی لکھنا چاہ رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ یہ کالم نہیں بلکہ ایک رپورتاژ ہے۔ کسی نے رائے دی کہ ادب پارہ ہے کسی نے اسے نثر پارہ کہا۔ اور ایک نے تو حد ہی کر دی، جب میری رائے جانے بغیر ہی، ایک افسانے کے طور پر اسے  پبلش بھی کروا دیا۔

قارئین ! آپ تو جانتے ہیں جب رائٹر کو خود اندازہ نہ ہو رہا ہو کہ آخر اس نے کیا لکھ مارا ہے تو اسے افسانے کے طور پر پڑھتے ہوئے کیسا ردعمل سامنے آسکتا ہے،۔ افسانہ عموماً کسی کردار پر مشتمل ہوتا ہے اور قاری کے لئے اس میں ایک سبق بھی چھپا ہوتا ہے جو اکثر ‘ آکھاں دھی نوں، سناواں نوہ  نوں’ جیسا ہی ہوتا ہے یعنی سرراہ چلتے چلتے بات کانوں میں ڈال دی جاتی ہے۔ جب کہ نہ تو اس تحریر میں ایسا کوئی کردار تھا اور نہ ہی اس میں ایسا کوئی پوشیدہ سبق تھا کہ لوگ جس سے راہنمائی لے کے، اپنی باقی ماندہ زندگی سنوار سکتے۔ بلکہ میرا تو ماننا ہے ایسا نیک کام تو کسی موٹیویشنل  سپیکر کے بس کی بات بھی نہیں ہے، چہ جائے کہ میرے۔۔۔

کردار تخلیق کرنے کی بات ہو تو میرے مستقل ریڈرز کو اندازہ ہے کہ اپنی تحریروں میں میرے پیش نظر صرف میری ہی ذات ہوتی ہے۔ ایک غریب کے ‘ بال ‘ کو صرف اس کی پیدائش اور شادی پر ہی اہمیت ملتی ہے اور میں ایسا قیمتی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کہ یہ صفحہ مجھے مل رہا ہے۔ سو اپنا ہی کردار تخلیق کر کے اور اپنے ہی چرچے کر کے یہ صفحہ کالا کرتا رہتا ہوں۔ اور رہی بات سبق کی، تو قارئین ! آپ بھی جانتے ہیں میرے کالمز عموماً لا یعنی اور بے معنی قسم کے ہی ہوتے ہیں۔ گو شروع میں کوشش کی تھی کہ ان کے ذریعے کچھ ڈیلیور بھی کیا جائے۔ لیکن پھر جلد ہی ہاتھ کھینچ لیا۔ ایک تو مجھے اپنی نا اہلی کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ میں اس قابل نہیں کہ کسی کو نصیحت کر سکوں۔ دوسرا، مجھے یہ بھی پتا لگ گیا تھا بلکہ لگ پتا گیا تھا جنھیں میں عوام سمجھتا رہا ہوں وہ سب کے سب خواص میں شمار ہوتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیں، بندہ خواص کو نصیحت کرتا اچھا لگتا ہے۔ اور جب خواص بھی اللہ کے فضل سے بقراطوں اور سقراطوں جیسے نابغوں پر مشتمل ہوں۔

اور یہاں صرف قلم برادری کو مخاطب کر کے کہوں گا آپ لوگوں کو بھی اس بات کا مشاہدہ ہوا ہوگا کہ کمنٹس میں یہ افلاطون قسم کے لوگ ہم غریبوں کو ‘ مت ‘ دینے کے لئے ایسے ایسے زریں اقوال ارشاد فرما رہے ہوتے ہیں کہ ہماری ‘مت ہی وج’ جاتی ہے۔ اور دل بے اختیار عش عش کر اٹھنے کو کرتا ہے بلکہ کبھی کبھی اٹھ ہی جانے کو کرتا ہے، بھلا ان جیسے دانشوروں کے بیچ ہم جہلا کا کیا کام۔ ویسے اب ان جغادریوں کو بھی قلم اٹھا کے آگے آنا چاہیے اور اگر یہ آگے آنے کو مان نہیں رہے  تو میرے خیال میں یہ لوگ ماضی کے مشاہیر کی طرح کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔ ورنہ انہیں دیکھتے ہوئے مجھے اپنی کم مائیگی اور ان کے علمی مرتبےکا بخوبی اندازہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اب یہی دیکھیے نا، ہم لوگ سات آٹھ سو الفاظ میں بمشکل اپنا مدعا بیان کر پاتے ہیں۔ بلکہ پھر بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آدھی باتیں بیچ میں ہی کہیں دب کے رہ گئی ہیں۔ اور یہ نابغہ روزگار ہستیاں چند ذاتی قسم کے القابات جو کہ اب شاید ہمیں مخاطب کرنے کے لئے ہمارے گھروں میں بھی رائج نہیں رہے کہ ہم بڑے ہو چکے ہیں اور ایک دو گالیوں کی صورت میں کمال خوبصورتی سے کوزے میں دریا بند کر دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قارئین ! پھر وہی اوپر بیان کیا گیا مسئلہ درپیش ہے یعنی جگہ کی کمی مانع آ گئی ہے اور اصل بات کہیں بیچ میں ہی رہ گئی ہے۔ میں آٹھ سو لفظوں میں بھی اپنا مدعا بیان نہ کر سکا لہذا مجھے اجازت دیجئے۔ اب آئندہ کالم میں ہی مذکورہ تحریر کی بابت کچھ عرض کروں گا۔ اور میرا آج کا کالم،
ان پیارے افلاطونوں کے نام !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply