ہم کدھر جا رہے ہیں۔رانا اورنگزیب

 ذرائع ابلاغ انسان کی ابتداۓ آفرنیش سے ہی ایک انتہائی اہم ضرورت رہی ہے۔قبل از تاریخ کے واقعات و حالات کا میں واقف نہیں کہ میں ایک کند ذہن بندہ ہوں۔ہوسکتا ہے غاروں میں رہنے والا انسان بھی ایک دوسرے کو کسی خطرے کسی خبر سے مطلع کرنے کے لیے کوئی  ذریعہ استعمال کرتا ہو۔پھر جیسے جیسے انسان نے شعور کی منزلیں طے کرنا شروع کیں تو ایک دوسرے سے رابطے کے لیے بھی جدید خطوط پر سوچنا شروع کر دیا۔ تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوۓ آپ کو انسان کہیں کبوتروں کےذریعےسے پیغام رسانی کرتا نظر آتا ہے تو کہیں تیزرفتار گھوڑے دوڑاتادکھائی  آتا ہے۔پھر چرخ کہن نے ریل کے ذریعے خبروں کو اِدھر سےاُدھر ہوتے دیکھا۔بھلا ہو گراہم بیل(یہ بیل گاۓ والا ہے یا گھنٹی والا مجھے نہیں علم)کا کہ اس نے کھیل کھیل میں ٹیلی فون ایجاد کر لیا۔کوئی زیادہ پرانی بات نہیں بس یہی کوئی سو ڈیڑھ سو سال پیچھے کا واقعہ ہے۔

اس کے بعد مارکونی نام کے بندے نے ریڈیو دنیا میں پیش کردیا۔ جیسے جیسے ذرائع ابلاغ نے ترقی کی ویسے ویسے انسان نے مختلف تہذیبوں کو سمجھنا شروع کیا۔پھر ٹیلی ویژن آگیا جو لوگ آواز کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے انہوں نے اپنے معاشرے سمیت دوسرے خطوں کے معاشرتی نظام اور تہذیب کو تصویروں میں دیکھ کر ایک دوسرے سے متاثر ہونا شروع کیا۔ آخر کار انسان اکیسویں صدی میں داخل ہوتے ہی خطوں علاقوں اور معاشروں کی حدود سے نکل گیا۔ اب دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی علاقے معاشرے یاتہذیب میں ہونے والی معمولی سے معمولی تبدیلی بھی ساری دنیا کی نظروں میں فوراً آجاتی ہے۔میڈیا اتنا تیز ہے کہ چند لمحے پہلے ہونے والا واقعہ ،حادثہ یا سانحہ فوراً اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں پہنچ چکا ہوتا ہے۔

ٹی وی چینلز کی بھر مار کے بعد اور بہت سے ذرائع ابلاغ انسان کے ہاتھ لگے جن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا ہتھیار فیس بک ہے۔فیس بک نے جہاں بہت سی آسانیاں اور سہولیات فراہم کیں ، نئے لوگوں سے متعارف ہونے کے  مواقع فراہم کیے میرے جیسے بے مایہ لوگوں کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا، وہیں بہت سی خرابیاں بھی وجود میں آئیں ۔۔ خرافات کا طوفان ہے جو فیس بک استعمال کرنے والوں کو اپنے ساتھ اڑاۓ پھرتا ہے۔فیس بک پر جہاں اہل علم ودانش کے افکار سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے وہیں آپ کو ذہنی مریضوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔جہاں شائستہ اور باعزت لہجے دیکھنے سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں ،وہیں  لچر بازاری اور پھکڑ پن سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔ جہاں قرآن پاک کے تراجم وتفسیر احادیث نبوی سیکھنے سمجھنے کی آسانی موجود ہے ،وہیں توہین مذہب بھی ذہن کو پراگندہ کرتی ہے۔جہاں آپ سنجیدہ موضوعات پر مباحثہ و مکالمہ دیکھتے ہیں، وہیں انتہائی غیر متعلق موضوعات پر سر پھٹول بھی ہوتی ہے۔

غرضیکہ فیس بک مثبت ومنفی رویوں اور رجحانات کا ایک ایسا مرقع ہے جہاں آپ اپنی علمی پیاس بھی بجھا سکتے ہیں اور ذہنی عیاشی بھی کرسکتے ہیں۔ بہت سے پیجز فیس بک پر ایکٹو ہیں جہاں سے دن رات مذہب کیخلاف پراپیگنڈہ جاری ہے۔اوربہت سے لوگ ایسے ہیں جو دن رات مذہب کا دفاع کر رہے ہیں۔کہیں سیکولرازم اور لبرل ازم کے خلاف جہاد ہورہا ہے تو کہیں قدامت پرست مصروف عمل ہیں۔کہیں سیاسی نابغے اپنا چورن بیچنے میں لگے ہیں تو کہیں معاشی ماہرین عوام الناس کو اپنے افکار سے سیراب کر رہے ہیں۔ ایک عجیب قسم کی مچھلی منڈی سجی ہے ہر بندہ اپنی ہی آواز بلند کرنے کے چکر میں شور کو بڑھانے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔دانشوروں کی دانش علیحدہ بھوت ناچ پیش کررہی ہے۔

مگر اس سب سے قطع نظر اسی بازار میں کچھ لوگ معصوم ذہنوں کو مسموم کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دے رہے ہیں۔مشرقی اور اسلامی اقدار سے نئی نسل کو بیزار کیا جارہا ہے۔ شاہین بچوں کو خاکبازی کے اسباق پڑھاۓ جا رہے ہیں جبکہ ہمارے ارباب بست کشاد اور اہل علم اپنے فرائض سے مکمل غفلت برتنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔جو فسوں نئی نسل کے ذہنوں پر پھونکا جارہا ہے اس کا توڑ کرنے کے لیے کوئی  عامل چلہ کشی نہیں کررہا ،جو زہر بھرا جا رہا ہے اس کے خلاف کوئی ماندری منکا لیے نہیں کھڑا۔ کل فرینڈ لسٹ میں موجود کسی صاحب کی غلطی یا چالاکی کی وجہ سے فیس بک پر موجود اک ایسی دنیا میں جا نکلا جہاں ٹین ایجرز کو بہن ،بھائی،  ماں، بیٹے، باپ ،بیٹی اور دوسرے انتہائی قریبی اور محترم و محرم رشتوں کے ساتھ جنسی ملاپ کی ترغیب وترہیب دی جارہی تھی۔کہیں بہن بھائی کے ساتھ ملاپ کے قصے سنارہی تھی تو کہیں بھائی  اپنی بہنوں کے جسمانی خدوخال بیان کر رہا تھا۔

صرف دو کہانیوں کو بنظر غائر دیکھ کر مجھے اپنےمعاشرتی نظام کی بنیادیں زلزلے کی زد میں محسوس ہوئیں۔میں نے جب ان کہانیوں کا تجزیہ کیا تو جو پہلی بات معلوم ہوئی  وہ یہ تھی کہ یہ کہانیاں جو بظاہر لاہور اور کراچی سے متعلق تھیں اور ان میں کرداروں کے نام بھی مسلمانوں والے تھے مگر وہ تخلیق ہمارے ازلی دشمن کے ہاتھوں ہوئی  تھیں۔دوسری چیز جس نے مجھے زیادہ خوف زدہ کیا وہ ان کہانیوں کا اسلوب تھا جو کسی بھی میٹرک یا سیکنڈری سکول کے ناسمجھ بچوں کو اپنے سحر میں جکڑنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ میری تمام اہل قلم سے گزارش ہے کہ اس موضوع کو سمجھیے اور اس زہر کا تریاق ڈھونڈنے کی کوشش کیجیے۔تمام والدین اور میچور بہن بھائیوں سے دست بستہ اپیل ہے کہ اپنے نیٹ استعمال کرنے والے بچوں پر بھر پور نظر رکھیں۔اپنے بچوں کے موبائل اور فیس بک اکاٶنٹ پر نظر رکھیں ،یہ مرض کی ابتدائی حالت ہے، اس کے جراثيم کو شروع میں روکنے کی کوشش کریں۔

محبت کے لیے کچھ دل مخصوص ہوتے ہیں

یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بالکل ایسے ہی فحاشی بھی ہر ذہن ودماغ پر اثر نہیں کرتی مگر جن جن پر اثر کرتی ہے ان کا انجام بہت عبرتناک ہوتا ہے!

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply