سائنس کیا ہے؟(قسط1)۔۔محمد علی شہباز

آج کی دنیا میں سائنس کو جس قدر فضیلت اور اہمیت کا مقام حاصل ہوا ہے وہ تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتا۔ سائنس کا نام لیتے ہی ذہن میں ایک خاص تصور جنم لیتا ہے، جس میں کسی بات کی پائیداری اور حقیقی ہونے کی تسلی پائی جاتی ہے۔ عام انسانوں کی سطح سے لے کر انتہائی پڑھے لکھے طبقات تک سائنس اپنا ایک خاص معتبر مقام رکھتی ہے۔ اب تو دنیا کے اکثر مذاہب بھی اپنے سچ ہونے کی دلیل سائنس کے نتائج پر قائم کرنے لگے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں مختلف موضوعات جیسے “اسلام اور سائنس” اور “تاؤازم اور سائنس” اور اسی  طرح “بائبل اور سائنس” کے نام سے بے بہا لٹریچر مل جائے گا۔ اسی طرح وہ تمام علمی میدان جو کل تک بنیادی سائنسزیعنی فزکس، کیمسٹری یا بائیولوجی سے مختلف سمجھے جاتے تھے آج انکے دعویداروں نے “سوشل سائنس” کی اصطلاح ایجاد کرلی ہے۔ برٹرینڈ رسل نے اپنے فلسفے کا نام ہی ‘سائنسی فلسفہ’ رکھا ہے۔ سائنس کی اس قدر کامیابی کی وجہ کیا ہے؟ اور سائنس کو اس قدر معتبر علم کیوں سمجھا جاتا ہے؟ ان سوالات پر مختصر بحث اس مضمون کا مقصد ہے۔

سائنس کی اہمیت بطور علم اس لئے معتبر قرار دی جاتی ہے کیونکہ سائنس کسی بھی علم کے حصول میں ‘حقائق’ کو بنیادی حیثیت دیتی ہے۔ ان حقائق کا حصول سائنسدان اپنے حواس خمسہ سے کرتا ہے۔ اور اسکے بعد ان حقائق کو مرتب کر کے کسی خاص نظریے تک پہنچتا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں تجربیت اور منطقی اثباتیت کی تحریکیں اس انداز فکر کی واضح مثالیں ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنسی طریقہ کار میں دو بنیادی عوامل کارفرما ہیں جنہیں ہم ‘حقائق’ اور’تشریح’ کا نام دے سکتے ہیں۔ آئیے ان دونوں عوامل کا بغور جائزہ لیتے ہوئے پہلے حقائق کی تعریف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب بھی کوئی انسان اپنے اردگرد موجود فطرت پردھیان لگاتا ہے تو اسے کچھ حقائق موصول ہوتے ہیں۔ ان حقائق کے موصول ہونے میں اس کے حواس خمسہ اسکی مدد کرتے ہیں۔ آنکھ اس کو کچھ رنگ اور حرکات کا مشاہدہ کرواتی ہے۔ اسی طرح کان، ناک، جلد اور زبان بھی کچھ حقائق مہیا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اس دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں کے بطن میں جب حواس اپنی ارتقائی منازل پوری کر لیتے ہیں تو ان کا کام حقائق کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں یہ عام مشاہدہ بھی سامنے آیا ہے کہ مختلف مشاہد ان حقائق کو مختلف طور پر وصول کرتے ہیں۔ اگر دو شخص ایک ہی شئے کو ایک ہی وقت میں اور ایک ہی سمت سے مشاہدہ کر رہے ہوں تو لازمی نہیں کہ وہ ہمیشہ ایک جیسے نتائج پر پہنچیں گے۔ اسی طرح اگر سمت، وقت اور جگہ میں سے کسی بھی حالت کو تبدیل کردیا جائے تو دونوں اشخاص ایک ہی شئے کو مختلف انداز سے دیکھیں گے۔ مثال کے طور پر موسم گرما کے دوران عین وقت ِ دوپہر کسی صاف سڑک کو دور سے دیکھیں تو وہ گیلی محسوس ہوگی جبکہ ایک قریبی شخص اس کو خشک محسوس کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حقائق اپنے آپ میں کوئی مطلق حیثیت نہیں رکھتے؟ اور کیا حقائق کا حصول دیکھنے والے کے مشاہدے یا خواہش پر منحصر ہے؟ جیسا کہ بچپن میں ہم بادلوں میں کسی ہاتھی یا اونٹ کی شکل دیکھ لیتے تھے۔ یا یہ کہ ہمارے ذہن سے آزاد کسی دنیا کا وجود ہے بھی کہ نہیں؟ اگر ہے تو وہ دنیا کیسی ہے اور کیا ہم اسے جان سکتے ہیں؟

اس کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان حقائق کو وصول کر لینے کے بعد ہم انکا اظہار کیسے کریں گے۔ اسکے لئے ہمیں زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ جب بھی ہم کچھ اشیاء کا مشاہدہ کررہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس شے سے متعلق کوئی لفظ یا جملہ ترتیب پانا چاہتا ہے۔ اگر تو دیکھی گئی شے کو ہمارا ذہن پہلے سے پہچانتا ہوا تو ہم فوری طور پر اس شے کے لئے وہی لفظ تیار کریں گے جو ہمیں باہر اپنے ماحول سے ملا ہے لیکن اگر یہ کوئی نئی شے ہوئی تو ہمیں اسکے لئے نیا لفظ ترتیب دینا ہوگا۔اور پھر مزید یہ کہ دو مختلف اشخاص جو الفاظ ترتیب دیتے ہیں وہ اگر آپس میں مترادف ہوئے تو ان سے ایک مربوط تصور جنم لے گا۔ لیکن اگر دو اشخاص کا مشاہدہ انکا ذاتی فعل ہے اور اسکا کسی دوسرے شخص کو علم نہیں تو وہ ایک ہی واقعہ کو حقیقت میں مختلف سمجھیں گے اور مختلف الفاظ کا چناؤ کریں گے۔ لہٰذا ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے کہ سائنس محض حقائق کو اکٹھا نہیں کرتی بلکہ وہ الفاظ یا معنی بھی ترتیب دیتی ہے۔ یہی الفاظ سائنس کی بنیاد بنتے ہیں۔ حواس اکیلے کافی نہیں ہیں۔ اسکا واضح مطلب یہ ہوگا کہ ایک مشاہدہ کرنے والا حقائق کا بیان کرتے وقت پہلے سے موجود الفاظ یا پھر بجا طور پر کہنا چاہیئے کہ وہ پہلے سے موجود کسی زبان کا سہارا لے گا۔ یہ وہ زبان ہے جو اسکو بچپن میں اسکے والدین یا معاشرے نے سکھائی ہوگی۔

یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ انسانی شعور میں اس زبان کا وجود کیسے پیدا ہوا؟ اور انسان کے شعور میں ایسی کیا خوبی ہے کہ وہ حقائق کو محض مشاہدہ کرنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ان کو آپس میں مربوط کر کے نیا علم دریافت کرتا ہے؟

پہلے سوال کے جواب میں اگرچہ مختلف نظریات موجود ہیں جیسے کہ ارتقائی نقطہ نظر کے ماننے والے کہتے ہیں کہ ماضی میں انسان کے ارتقائی عمل کے دوران حادثاتی طور پر جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے کچھ لوگوں نے زبان ایجاد کی ہوگی مگر انکا یہ ماننا کسی بھی تجربے یا تاریخی شواہد سے خالی ہے۔اسی طرح دوسرے سوال کا تعلق اس بات سے ہے کہ انسان میں عقلی استدلال کی موجودگی بجائے خود ایک معمہ ہے۔ کچھ فلسفی کہتے ہیں کہ انسان میں عقلی اصول دراصل مادے ہی کی اعلیٰ  شکل ہیں جبکہ  دوسرے یہ مانتے ہیں کہ انسان میں عقلی اصول اسکی فطرت کا لازمہ اور خاصہ ہیں اور مادے میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ خودبخود عقلی استدلال پیدا کر سکے۔ بہرحال یہاں ہمارا یہ موضوع نہیں ۔

گزشتہ بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ کسی بھی واقعہ کی حقیقت کا ادراک ہمارے مشاہدات پر منحصر ہے اور یہ مشاہدات کسی فرد واحد یا کسی بے مثال اور ناقابل دید واقعات پر مشتمل نہیں ہوسکتے۔ مختلف مشاہد مل کر مختلف انداز سے کسی ایک ہی واقعہ پر جو تبصرہ کریں گے وہ سب ملکر ایک خاص اندازفکرکو جنم دے گا اور یہی سائنسی سوچ کا آغاز ہے۔ یعنی سائنسی حقائق مشترکہ انسانی مشاہدات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ نیوٹن کا قانون حرکت صرف نیوٹن ہی کا نہیں بلکہ میرا اور آپکا بھی قانون ہے جبکہ اسکے برعکس امیرخسرو کے بنائے ہوئے سُر اور تال صرف امیرخسرو کے ہیں نہ کہ میرے اور آپکے۔ اسی طرح سائنسی قوانین کسی ایک فرد کی مرضی اور خواہش کے تابع نہیں ہوتے جیسا کہ کوئی شخص اقبال اور شیکسپیئر میں سے کسی کوبھی پسند یا ناپسند کر سکتا ہو بلکہ یہ قوانین حقیقت کے تابع ہوتے ہیں۔ بہرحال اس فکر سے حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے سائنس ایک اور قدم اٹھاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ اور نظریے کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھیں۔

دنیا میں ہمارے اردگرد بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ہر واقعہ کے پیچھے بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک شخص ان تمام وجوہات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتا۔ اور اگر ہم کسی واقعہ کو مکمل طور پر جانچنا چاہیں تو اسکی تمام وجوہات کو ایک ساتھ رکھ کر جاننا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ مثال کے طور پراگر کوئی جاننا چاہتا ہے کہ بارش کیسے ہوتی ہے؟ تو اسکے پیچھے بہت سے عوامل جیسے سورج کی حرارت سے بخارات بننا، بخارات کا آپس میں اکٹھا  ہونا، پانی کے مالیکیولز کا جڑنا اور پھر کسی سرد علاقہ میں پہنچ کر پانی کے قطرے بننا اور قطروں کا ہوا کی مخالف قوت کو عبور کر کے گریوٹی کے زیر اثر نیچے آنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک سادہ سا مشاہدہ ہے۔ اس کو مزید مشکل بھی کیا جاسکتا تھا۔ لہٰذا ہمیں مجبور ہو کر کوئی ایسا طریقہ اپنانا پڑتا ہے کہ جس میں ہم کسی ایک واقعہ کے صرف اہم اور لازمی عوامل کی بجائے باقی تمام عوامل کے اثرات رد کردیتے ہیں اور اس سادہ سے نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی سادہ قسم کے مشاہدات پر تجربہ کیا جاتا ہے۔

یہاں یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو کسی تجربہ میں وہی کچھ دیکھ پائیں گے جسکے لئے وہ تجربہ ترتیب دیا گیا ہے۔ یہ وہ شک ہے جو اکثر میرے طلباء پریکٹیکل امتحان میں مجھ پر کررہے ہوتے ہیں کہ میں ان سے وہی نتیجہ نکالوں گا جو پہلے سے میرے ذہن میں ہے۔ لیکن ایسا ہرگز درست نہیں ہے۔ میرے تجربات میری چاہت کے تابع نہیں ہیں بلکہ قوانین فطرت کے تابع ہیں اور اسی لئے کبھی مجھے اپنے تجربے میں ایسے نتائج بھی مل جاتے ہیں جو میرے ذہن میں نہیں ہوتے۔

آئیے اب ہم سائنس کے دوسرے بڑے اہم مسئلے یعنی حقائق کی تشریح کے بارے میں کچھ گذارشات پیش کرتے ہیں۔اگر منطق کی تعریف کی جائے تو وہ محض ایک قاعدہ ہے جو دئیے گئے بیانات میں ایک ربط پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:
الف) تمام انسانوں کی دو ٹانگیں ہیں۔
ب) سقراط ایک انسان ہے۔
ج) سقراط کی دو ٹانگیں ہیں۔
گزشتہ مثال میں الف اور ب کو مقدمات کہا جاتا ہے جن کا لازمی نتیجہ ج کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں منطق کے استعمال سے ایک نئی معلومات ملی ہے یعنی یہ کہ سقراط کی دو ٹانگیں ہیں۔

اب ایک اور مثال لیجیے:
الف) تمام انسان جھوٹے ہیں۔
ب) سقراط ایک انسان ہے۔
ج) سقراط جھوٹا ہے۔

اب اگر اس دوسری مثال کو دیکھیں تو یہ بھی منطقی طور پر صحیح کام کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن چونکہ اس میں پہلا مقدمہ مبہم اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہے لہٰذا نتیجہ بھی مشکوک اور غلط ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف منطق کافی نہیں ہے۔ مختلف حقائق کا اکٹھ جوڑ کرنے سے اگر کوئی منطقی نتیجہ برامد ہو بھی جائے تو لازمی نہیں کہ وہ درست علم مہیا کرے۔

اس حوالے سے جو عام تاثر پایا جاتا ہے وہ یہ کہ سائنس حقائق سے نظریات کو اخذ کرنے میں استقرائی طریقہ کار کا استعمال کرتی ہے۔ اس طریقہ میں کچھ محدود اور مخصوص حقائق کی بنیاد پر ایک ایسا نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے جو عمومی ہوتا ہے اور ان تمام حقائق یا ان جیسے دیگر ناقابل دید واقعات پر یکساں نافذ ہوتا ہے۔ مثلاً چند ایٹموں کی جوخاصیت ہمارے تجربے میں سامنے آتی ہے وہ کائنات کے تمام ایٹموں پر لاگو کر دی جاتی ہے۔استقرائی طریقہ کار کے کچھ مسائل ہیں جنہیں مختلف فلاسفہ جیسے ڈیوڈ ہیوم اور برٹرینڈ رسل وغیرہ نے واضح کیا ہے۔ ان میں بڑے اعتراضات دو ہیں: ایک یہ کہ چند حقائق کیسے ایک عمومی بیان کی بنیاد بن سکتے ہیں؟ اور پھر یہ کہ ان حقائق کی تعداد کتنی ہو۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ استقرائی طریقہ کار کو ثابت کرنے کے لئے استقرائی طریقہ کار ناکافی ہے۔ اسی طرح سائنسی قوانین جو کہ عالمی نوعیت کے بیانات پر مشتمل ہوتے ہیں انکا انحصار بھی حقائق کی ایک خاص تعدادپرہوتا ہے۔ ان قوانین کو منطقی استدلال سے ثابت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ اپنے مقدمات کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی بنتی ہے کہ ہم کسی ایک قوم یا قبیلے کے چند افراد کے رویے کی بنا پر ساری قوم یا قبیلے کو برا نہیں کہہ سکتے۔ اس مسئلے کا حل یہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ سائنسی طریقہ کار میں تینوں عوامل یعنی حقائق پر مبنی بیانات، استقراء کے ذریعے عمومی قوانین کا اخذ کرنا اور پھر ان عالمی و عمومی قوانین سے منطقی استدلال یا استخراج شامل ہیں۔

حقائق سے نظریات کو اخذ کرتے وقت یہ خیال لازمی رکھا جاتا ہے کہ ان حقائق کی تعداد کافی زیادہ ہو اور ان حقائق کو مختلف حالات و واقعات میں دہرایا گیا ہے اور ان سے اخذ کردہ قانون آئندہ بھی کسی مشاہدہ سے تضاد نہ رکھتا ہو۔ جب قوانین قائم ہوجائیں تو ہم منطقی استدلال یعنی استخراجی طریقہ کار استعمال میں لا کر مزید انکشافات کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply