سونا کوش۔۔عزیز خان

میری کوٹ سبزل کی تعیناتی کو ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا تھا۔جرائم تقریباََ نہ ہونے کے برابر تھے میں اکثر اپنی رہائش گاہ پر رہتا،شام کو اکثر باہر نکل کر  سامنے بنے سرسبزلان میں بیٹھا کرتا ،جس کاگھاس بھی میں خود کاٹا کرتا تھا ،اوریہیں بیٹھ کر لوگوں کی شکایات بھی سنتا اور فیصلے بھی کرتا تھا۔یہ لان راؤ سلیم اختر انسپکٹر SHOنے بنایا تھا جو بعد میں SSPریٹائرڈ ہوئے۔راؤسلیم صاحب دلیراور فرض شناس پولیس ٓآفیسر تھے پولیس میں آنے کے بعد میں اُن کو کاپی کرنے کی کوشش کرتا تھا۔میں اکثرچار، پانچ بجے شام ٹریک سوٹ پہن کر جوگنگ کے لیے بھی نکل جاتا تھا۔میرے گن مین نذیر نیازی، غلام قاسم بھی مجبوراً  میرے ساتھ جوگنگ کیا کرتے تھے۔سرکاری گاڑی بھی ہمراہ ہوتی تھی اور اس طرح میں اپنی فٹنس کا خیال بھی کرتا تھا۔

ایک صبح میں صادق آبادASPکی میٹنگ میں جانے کے لیے اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلاتو باہر لان میں ایک بوڑھی خاتون جس کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہوگی ،بیٹھی ہوئی تھی ۔مجھے دروازے سے باہر آتا دیکھ کر لاٹھی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میرے قریب آگئی۔اتنی دیر میں سرکاری گاڑی میں بیٹھ چکاتھااسے اپنے قریب آتا دیکھ کر گاڑی سے اتر کر نیچے آگیا، بوڑھی خاتون بولی کہ تم SHOہو؟۔۔میں نے جواب دیا! جی ہاں! میں ہی SHOہوں۔۔۔اس پر بوڑھی خاتون نے بتایا کہ وہ ایک سرکاری  سکول کی ہیڈمسٹرس تھی، اب ملازمت سے ریٹائرڈ ہوچکی ہے۔اس نے اپنے گھر میں اپنے گزراوقات کے لیے ایک بھینس پال رکھی تھی اسکی بھینس ایک ماہ قبل نامعلوم  افراد  نے گھر سے چوری کرلی۔اپنے طور پر تلاش کرتی رہی، کچھ دن قبل اسے معلوم ہوا کہ اس کی بھینس سوناکوش کے پاس ہے۔جب وہ سونا کوش کے پاس گئی تو اس نے اسکی بھینس کی واپسی کے لیے دس ہزار بھونگا مانگاہے۔وہ غریب عورت ہے اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ دس ہزاربھونگا دے کر اپنی بھینس واپس لاسکے اسکی کوئی اولاد بھی نہیں  ہے۔اس نے سونا کوش کی بڑی منت سماجت کی، مگر اس کے دل میں رحم نہ آیا ،اس نے مجھے دھمکی دی ،جوکرنا ہے کرلو،اگر تم پولیس کے پاس گئی تو تمہاری بھینس میں نے ذبح کردینی ہے۔اب میں آپکے پاس آئی ہوں، آپ اس علاقہ کے SHOہیں ،آپ کا فرض ہے کہ سونا کوش سے میری بھینس واپس لے کر دیں۔میں نے ساتھ کھڑے ہوئے محمد عاشق محررتھانہ کو کہا کہ اس بوڑھی خاتون کا  بیان لے کر ایک درخواست لکھ لے، واپسی پر اس خاتون کی درخواست پر کارروائی کریں گے۔

شام کومیں تھانہ پرواپس آیااور دیگر کاموں میں مصروف ہوگیا۔محرر تھانہ نے بھی مجھے بوڑھی خاتون کی درخواست کے بارے میں یاد نہ کروایا۔اگلے دن شام کو میں حسب معمول جوگنگ کے لیے اپنی رہائش گاہ سے باہر نکلا تو وہ بوڑھی خاتون میرے رہائشی کوارٹر کے درواز ہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔میں اس کے قریب چلا گیا،خاتون لاٹھی کے سہارے کھڑی ہوئی اور بولی “میں نے کہیں اور نہیں جانا میں نے یہ بھینس تم سے لینی ہے”۔

دوران سروس بہت سے مدعی مجھے، ملے جن کی چوریاں ہوئیں تھیں یاان سے زیادتی ہوتی تھی، لیکن پتہ نہیں اس بوڑھی خاتون کے لہجے میں کیا بات تھی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔میں نے  بوڑھی خاتون سے وعدہ کیا کہ ہرصورت میں آپکی بھینس واپس کرواؤں گا۔اس دن میں جوگنگ کے لیے بھی نہیں گیا۔میں نے محررتھانہ عاشق کو کہا کہ کل سونا کوش کو تھانہ پر بلوالے۔

سونا کوش تھانہ احمد پورلمہ کا رہائشی تھا۔چوری، ڈکیتی اور رسہ گری اسکا محبوبہ مشغلہ تھا۔علاقہ کے زمیندار اور وڈیرے اکثرایسے لوگوں سے جن کا مال مویشی چوری ہوجاتا تھابھونگا لے کرسونا کوش کو دیتے تھے اور وہ ان کا مال مویشی واپس کردیتاتھا۔یہ وڈیرے اور زمیندار سوناکوش کی سرپرستی بھی کرتے تھے۔جب کبھی پولیس اسے تنگ کرتی تو یہ سارے زمیندار اسکے سفارشی ہوتے تھے۔

بوڑھی خاتون نے بھی شاید قسم اٹھا رکھی تھی کہ میرے دروازے سے نہیں ہٹنا۔جب بھی میں اپنے رہائشی کوارٹر سے باہر نکلتا اسے موجود پاتا۔میں نے دو تین دفعہ کوشش کی کہ وہ اپنے گھر چلی جائے اسے اس بات کی یقین دہانی بھی کروائی کہ ہرحال میں اسکی بھینس سونا کوش سے واپس لے کردوں گا۔مگر وہ روزانہ صبح میری رہائش گاہ کے باہر آکر بیٹھ جاتی اوردن ڈھلے واپس  جاتی۔

سونا کوش بہت چالاک اور شاطر آدمی تھا جوں ہی اسے میرا پیغام ملا اپنے گھر سے غائب ہوگیا۔باوجود کوشش کے وہ میرے پاس نہ آیا۔اب میرے پاس اور کوئی طریقہ نہ تھا میں نے بوڑھی خاتون کی درخواست پرسوناکوش کے خلاف FIRدرج کردی اور تفتیشی افسر کو کہا کہ مجھے ہر صورت میں چوری شدہ بھینس کی برآمدگی اور سونا کوش کی گرفتاری چاہیے۔روزانہ اس کے گھر اور ہر اس ٹھکانا پر ریڈ کیا جاتاتھاجہاں سونا کوش مل سکتاتھا۔لیکن سونا کوش توپتہ نہیں کہاں غائب ہوگیا تھا۔

ایک دن مجھے رحیم آباد سے لغاری صاحب کی کال آئی کہنے لگے “آپ سوناکوش سے ناراض ہیں ،اس کو معافی دے دیں “میں نے اُنہیں کہا “سونا کوش نے بزرگ ریٹائرڈ ہیڈ مسٹریس خاتون کی بھینس چوری کی ہے اور اسکا دس ہزاربھونگامانگارہاہے ،آپ اسے کہیں کہ مظلوم عورت کی بھینس واپس کردے ،میں اسے کچھ نہیں کہوں گا،اور مقدمہ بھی خارج کردونگا”۔ لغاری صاحب کہنے لگے “بھینس سونا کوش کے پاس نہیں ہے عورت جھوٹ بولتی ہے “۔میں نے جواباََکہا کہ آپ سونا کوش کو میرے پاس بھجوادیں، میں اسے بوڑھی خاتون کے آمنے سامنے کراکے اس بات کی تسلی کرلیتاہوں کہ کون جھوٹ بول رہا ہے لیکن لغاری صاحب اس بات پر آمادہ نہ ہوئے۔

اب میرے لیے یہ ایک چیلنج تھا، بوڑھی خاتون تھی کہ صبح سے شام تک میرے رہائشی کوارٹر کے باہر بیٹھی رہتی اور اس کا ایک ہی جملہ تھا “یہ بھینس میں نے تم سے لینی ہے ” اور ہر دفعہ اس جملہ سے میں خوف زدہ ہوجاتااور سوچتا کہ پولیس میں SHOہونا کتنا آسان ہے لیکن اگر ہر مجبور انسان کے جائز کام نہ ہوسکیں تو اسکی جواب دہی بھی اتنی ہوتی ہے۔میں سونا کوش کے گھر مسلسل ریڈ کرواتا رہا مخبروں کو بھی معمور کیاایک دن مجھے معلوم ہوا کہ سونا کوش اب لغاری صاحباََن کے ڈیرہ پر موجود ہوتا ہے اور وہیں رہتاہے۔میرےان ریڈز کی وجہ سے لغاری صاحباً ن مجھ سے سخت نالاں ہوگئے۔مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور فاروق احمد لغاری صدر پاکستان تھے۔جوکہ ان لغاری صاحبان کے قریبی عزیز تھے۔

ایک دن مجھے ASPڈاکٹر مجیب الرحمان کی کال بھی آئی اور مجھ سے پوچھا کہ لغاری صاحبان سے  آپ کا مسئلہ ہے وئی  ؟وہ آپکی شکایت کررہے ہیں کہ آپکا تبادلہ تھانہ کوٹ سبزل سے کہیں اورکردیا جائے۔میں نے انھیں ساری حقیقت بتائی کہ سونا کوش چور اور رسہ گیر ہے جس کو لغاری صاحبان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔میری اس وضاحت کے بعد ASPصاحب مطمئن ہوگئے۔ڈاکٹرمجیب الرحمان صاحب نیک اور ایماندار آفیسر تھے۔سیاسی مداخلت کے باوجود کبھی وہ غلط کام نہ خود کرتے اور نہ ہمیں کہتے تھے۔

اب میں نے یہ فیصلہ کرلیاتھاکہ ہرصورت میں بوڑھی خاتون کی بھینس سونا کوش سے واپس کرواؤں گا ،چاہے مجھے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔اگر میرا تبادلہ بھی ہوتا ہے تو ہوجائے ،میں نے خود سونا کوش کے گھر ریڈ کیا،مجھے معلوم ہوا کہ اس نے اپنا مال ومویشی کہیں اور کھڑاکیاہواہے۔اس اطلاع پر میں نے خود وہاں ریڈ کیا اور سونا کوش کا مال مویشی قبضہ میں کرلیا۔اس میں سے ایک بھینس میں نے بوڑھی خاتون کو دینے کی بہت کوشش کی مگر وہ بضد تھی کہ اس نے اپنی اصل بھینس لینی ہے۔مجھے بوڑھی خاتون کی اس ضد پر غصہ بھی آیا مگر اس کی ایمانداری دیکھ کر یہ غصہ ٹھنڈا ہوگیا ،کہ اب بھی اس دنیا میں ایسے ایماندار لوگ موجود ہیں۔میرے سونا کوش کے گھر ریڈ کرنے اور مال مویشی قبضہ میں لینے کے بعد لغاری صاحبان میرے سخت خلاف ہوگئے۔انھوں نے میری شکایات SSPملک اعجاز اور DIGبہاولپور کو بھی کی، کہ میرا تبادلہ تھانہ کوٹ سبزل سے کہیں اورکردیا جائے۔لیکن میری محنت اور کارگزاری کی وجہ سے میرے افسران نے میرابھرپور ساتھ دیا ۔

میرا کوٹ سبزل سے تبادلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کوٹ سبزل تھانہ کی تعیناتی بہت مشکل تھی۔ سنگین جرائم کے زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ تھانہ بہت مشکل تھا اور آج بھی ہے۔اس تھانہ پرآج بھی راؤسلیم اختر انسپکٹر، چوہدری ارشاد اختر گلاب انسپکٹر، چوہدری صاوق گجر انسپکٹر اور مجھے اپنے کام کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔میں نے سونا کوش کی گرفتاری کے لیے اپنی کوششیں تیز کردیں۔

اسی طرح لغاری صاحباََن نے بھی میرا تبادلہ کرانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردیں۔بالاخر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے۔لاہور میں شادی کی ایک تقریب تھی جہاں صدر فاروق لغاری بھی آئے ہوئے تھے۔جہاں میری شکایت کی گئی، شادی کی اس تقریب میں IGصاحب پنجاب بھی موجود تھے۔دوسرے دن IGصاحب نے میرا تبادلہ ضلع رحیم یارخان سے ضلع  بہاولنگرکردیااورمجھے فوری طورپر چارج چھوڑ کر بہاولنگر حاضری کرنے کا کہا گیا، میں نے فوری طور پرحکم کی تعمیل کی۔محکمہ پولیس میں ایسے سیاسی تبادلے بہت اہم ہیں، افسران اعلیٰ اپنی ملازمت بچانے اور سیاست دانوں کی خوشامد میں اپنے ملازمین کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔میں اس سیاسی تبادلے کی وجہ سے ضلع بدر ہوگیا۔میرے SSPاور DIGبھی میرا تبادلہ نہ رکوا سکے۔ انھوں نے بھی مجھے فوری چارج چھوڑنے کا کہا۔اور اس طرح سونا کوش اپنے سیاسی آقاؤں کی وجہ سے نا صرف گرفتاری سے بچ گیا بلکہ اس غریب بوڑھی عورت کی بھینس بھی برآمد نہ ہوسکی مجھے ۔اس بات کا ہمیشہ دکھ رہا کہ میں خاتون ہیڈمسٹریس کی اصل بھینس سونا کوش سے برآمد نہ کرسکا۔۔۔۔لیکن مجھے اُس خاتون کی ایمانداری پر بھی فخر رہا کہ اس نے کوئی اور بھینس نہ لی۔بعد میں مجھے معلو م ہوا کہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے آنے والے SHOنے جوکہ لغاری صاحبان  کا خاص آدمی تھا، سونا کوش کو بے گناہ قرار دے  دیا  اورمثل مقدمہ عدم پتہ کردی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کبھی کبھی مکمل اختیارات ہونے کے باوجود انسان وہ کام نہیں کرسکتا جو اسے کرنے  چاہئیں ۔ ہمارے سسٹم میں ایسی خرابیاں ہیں جس میں غریب آدمی در بدر ہوتا ہے، جبکہ پیسے والا یا برسراقتدار شخص بڑے آرام سے قانون کے شکنجے سے بچ جاتا ہے۔ سیاست دانوں کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں۔ ووٹ کی خاطر وہ بعض دفعہ جرائم پیشہ افراد کی مدد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر وہ ان جرائم پیشہ افراد کی مدد نہ کریں تو قانون کے شکنجے سے شاید ہی کوئی جرائم پیشہ فردبچ سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply