سوشل میڈیا کی طاقت اور میڈیا ہاؤسز ۔۔مجاہد خٹک

جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں الیکٹرانک میڈیا کا آغاز ہوا تو پاکستانی عوام کے لیے یہ ایک منفرد مظہر تھا جس نے انہیں پوری طرح اپنے سحر میں جکڑ لیا، کئی دہائیوں سے سرکاری ٹی وی پر ہونے والا یکسانیت زدہ پراپیگنڈہ اپنا اثر کھو چکا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا حبس سے بھری اس بوجھل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا اور اس قدر تیزی سے مقبول ہوا کہ حکومت، اس کے ادارے اور خود میڈیا ہاؤس مالکان بھی حیران و پریشاں رہ گئے۔

یہ صورتحال ایک دہائی سے زیادہ قائم رہی۔ اس دوران میڈیا ہاؤسز کے مالکان نے خود کو کنگ میکرز سمجھنا شروع کر دیا جبکہ ٹی وی اینکرز نے طاقت کا پُرسرور نشہ چکھ لیا۔ عوام نے کئی سالوں پر محیط وہ دور بھی دیکھا جب حکومتی وزرا ءٹی وی پروگرام کی عدالت میں بھیگی بلی کی طرح گھگھیا رہے ہوتے تھے اور میزبان خدائی لہجے میں ان پر برس رہے ہوتے تھے۔ اگر کوئی مصیبت کا مارا مہمان اپنی مسلسل بے عزتی پر احتجاج کی جسارت کرتا تو میزبان کا غیظ و غضب دیکھنے لائق ہوتا تھا۔ سیاست دانوں کو گالیاں تک دی گئیں اور اینکرز نے ذاتی عناد پر مبنی بے شمار پروگرام کیے جن میں ضمیر کی خلش کے بغیر سچائی کا قتل عام ہوا۔

سب سے پہلے جماعتی سطح پر پیپلز پارٹی نے اس صورتحال پر ردِعمل کا اظہار کیا۔ آصف علی زرداری نے اینکرز کو سیاسی اداکار قرار دیا اور اپنی جماعت کے رہنماؤں کو ٹی وی شوز میں شرکت نہ کرنے کی تجویز پیش کی۔ تاہم یہ سیاست دانوں کی جانب سے مزاحمت اور اپنا کھویا ہوا وقار واپس حاصل کرنے کے عمل کا آغاز تھا، جسے ابتدائی طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور پیپلز پارٹی کو اس کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنی پڑی کیونکہ مسلم لیگ ن نے میڈیا اور پیپلز پارٹی کے درمیان خلیج سے فائدہ اٹھایا اور کھل کر میڈیا کے حق میں کھڑی ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں وہ اگلا انتخاب تو جیت گئی تاہم جس عفریت کو وقتی سیاسی فائدے کی خاطر نون لیگ نے تقویت دی تھی وہی آخرکار خود اسے ہڑپ کر گیا۔

اس تمام تر پیش رفت کے دوران ایک اور کردار خاموشی سے، جھجھکتے ہوئے میدان میں اترا اور دھیرے دھیرے میڈیا ہاؤسز کی جڑیں کاٹنے لگا۔ یہ نیا کردار سوشل میڈیا کا تھا جس نے ایک بار پھر اپنی انفرادیت اور نئے پن کی بدولت عوام کے ایک بڑے حصے کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ پاکستانی سیاست کو جس طرح ایک دور میں الیکٹرانک میڈیا متاثر کیا کرتا تھا اب وہی کردار سوشل میڈیا کو مل گیا۔ پی ٹی آئی نے سب سے پہلے اس سیلاب رواں کی موجودگی کو سمجھا اور اس کا رخ مسلم لیگ ن کے خلاف کر دیا۔ اگرچہ مریم نواز نے سوشل میڈیا سیل پر بھاری سرمایہ کاری کر کے اس کی حمایت خرید کرنے کی کوشش کی لیکن ایک تو اس میدان پر ان کی مخالف قوت بہت پہلے قابض ہو چکی تھی، دوسرے نون لیگ کے بیانئے کو پانامہ لیکس  سکینڈل بُری طرح متاثر کر چکا تھا۔ سوشل میڈیا پر نوجوان طبقے کی حکمرانی ہے، نون لیگ نے اس بات کا ادراک کرتے ہی نوجوانوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے لیکن اس کا بھی زیادہ فائدہ نہ ہوا اور زیادہ تر یہی لیپ ٹاپ خود ان کے اپنے خلاف اور پی ٹی آئی کے حق میں استعمال ہوئے۔ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے اور پی ٹی آئی خود سوشل میڈیا کا گلہ گھونٹنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ٹی وی اینکرز وہ طاقت اور اثر کھو چکے ہیں ،جو ماضی قریب میں انہیں حاصل تھی۔ اس کی زیادہ تر ذمہ داری بھی انہی  پر عائد ہوتی ہے، کیونکہ جو اختیار انہیں حاصل ہوا تھا اسے ذمہ داری کے ساتھ استعمال کرنے کے بجائے اندھا دھند استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ نے اپنی باہمی کشمکش کے دوران میڈیا ہاؤسز اور ٹی وی اینکرز کو خوب استعمال کیا جس کی وجہ سے ان کی ساکھ شدید متاثر ہوئی۔ کتنے بڑے بڑے نام جن سے حکومتیں خائف رہتی تھیں اور آج وہ گوشہ گمنامی میں جا چکے ہیں۔ صرف وہی اینکرز اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہیں جن کے پاس خبر ہوتی ہے اور ان کے غیر جانبدار ہونے کا تاثر برقرار ہے۔

ٹی وی چینلز کی ریٹنگ کے بوسیدہ اور جعلی نظام پر اب کوئی کمپنی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے، ایڈورٹائزمنٹ کا رخ تیزی سے ڈیجیٹل شعبے کی جانب مڑ رہا ہے۔ اینکرز کی ایک نئی کھیپ میدان میں آ چکی ہے جو چبھتے ہوئے سوال بھی مہذب انداز میں پوچھتے ہیں اور سیاست دانوں کی عزت نفس کو ٹھیس نہیں پہنچاتے۔ ان کی تنخواہیں تین چار لاکھ سے اوپر نہیں ہیں اور ان کے پاس وہ طاقت بھی موجود نہیں ہے جو ماضی کے اینکرز کے پاس ہوا کرتی تھی۔

اس وقت میڈیا ہاؤسز میں روایتی نیوز روم سکڑتے جا رہے ہیں اور ڈیجیٹل کا شعبہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ اگر صرف یوٹیوب کا تجزیہ کیا جائے تو ہزاروں ایسے چینلز سامنے آتے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی پاکستانی میڈیا ہاؤسز سے بھی زیادہ ہے۔ اور یہ ٹرینڈ بڑھتا جا رہا ہے۔

عوام کے لیے چینلز سے زیادہ سوشل میڈیا خبروں کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ سیٹیزن جرنلزم مختلف شکلوں میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ایک دور تھا جب ٹی وی چینلز پر کوئی خبر چلتے ہی حکومتی ادارے متحرک ہو جایا کرتے تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ موبائل اور سی سی ٹی وی کیمروں سے بنی ہوئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں تو ادارے فوراً ردعمل دکھاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ٹی وی چینلز کی وہ خبریں اداروں کو متحرک کرتی ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشل میڈیا کی اسی طاقت سے خوفزدہ اور اپنی سمٹتی اثر پذیری پر پریشان میڈیا ہاؤس مالکان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے مل کر اس کا گلہ گھونٹنے کے لیے ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ لیکن یہ عفریت شاید ان کی گرفت سے باہر نکل گیا ہے۔ اس سیلاب رواں کو اگر بزور قوت روکا گیا تو ریاست پاکستان نہ صرف دنیا میں مذاق کا نشانہ بن جائے گی بلکہ شدید تنہائی کا شکار بھی ہو جائے گی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply