• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایغور مسلمان، مغربی میڈیا اور پاکستانی لکھاریوں کی ذمہ داری۔۔عزیر خان

ایغور مسلمان، مغربی میڈیا اور پاکستانی لکھاریوں کی ذمہ داری۔۔عزیر خان

میں کوئی لکھاری نہیں ہوں نہ ہی مجھے لکھنے کے داؤ پیچ آتے ہیں، مگر کوشش کروں گا کہ اس موضوع پر اپنی بات سمجھا سکوں۔
ایغور مسلمانوں کی چین میں موجودہ حالت پر گفتگو کرنے سے پہلے ذرا اس مسئلے کے پسِ منظر میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ چین کے خودمختار علاقے سنکیانگ میں موجود ایغور ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کا رہن سہن زبان اور ثقافت سنٹرل ایشائی ممالک سے میل کھاتی ہے۔ ایغور نسل کے لوگ سنی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے چینی مسلمانوں کی نسبت زیادہ مذہبی رجحان رکھتے ہیں۔ انفراسٹرکچر کے حوالے سے سنکیانگ کوئی خاص ترقی یافتہ نہیں ہے اور نوجوانوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا رجحان کم ہے جس کی وجہ مواقع ہونا نہیں  ہے۔ اس کی وجوہات سی  بہت ہیں، جن میں سرِفہرست ماضی میں چینی حکومت کی اس خطے سمیت اندرونی منگولیہ اور تبت میں عدم توجہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ انقلابِ چین کے بعد تمام انڈسٹری اور کارخانوں کا ساحلی علاقوں میں موجود ہونا تھا جس کی وجہ مشرقی علاقوں میں موجود بندرگاہوں کی بدولت تجارتی سرگرمیوں میں آسانی تھا۔

دوسری بات کہ یہ چین میں موجود علیحدگی کی واحد تحریک نہیں بلکہ اندرونی منگولیہ، تبت اور ہانگ کانگ اس کے ساتھ سرِفہرست ہیں۔

سنکیانگ میں آزادی کی تحریک امریکہ کی خطے میں آمد سے پہلے موجود تھی مگر اس میں شدت پسندی کا عنصر شامل نہ تھا۔ امریکہ کی افغانستان آمد کے بعد یہاں کے نوجوانوں نے جہادی تحریکوں سے متاثر ہوکر کاروائیاں شروع کیں مگر اس میں شدت اس وقت آئی جب نسلی بنیاد پر گوانگ دونگ شہر میں ایغور اور ہان نسل کے لوگوں کا تسادم ہوا اور اس کے بعد دو ہزار نو میں سنکیانگ میں ایک نسلی تصادم میں 200 کے قریب لوگ مارے گئے ،جن میں دو تہائی تعداد ہان نسل کے لوگوں کی تھی اور ایغور نوجوانوں کا ایک گروپ تیز دھار تلواروں کے ساتھ کارروائیوں میں سرگرم رہا۔ اس سانحے نے القاعدہ نامی جہادی تنظیم کی توجہ حاصل کی ،جن کے سنکیانگ کی آزادی کے حوالے سے کچھ بیانات نے چینی حکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی کہ خطے میں اب مذہبی بنیاد پر وہ کھیل شروع ہونے جارہا ہے جو پاکستان میں ٹی ٹی پی نے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا ،وہ ہم سب جانتے ہیں۔ مگر یہاں چین کی حکومت سے ایک بھیانک غلطی ہوئی کہ انہوں نے اس شدت پسندی کو کنٹرول کرنے کا ایک نہائیت بھونڈا طریقہ اختیار کیا، وہ یہ کی مذہبی سرگرمیوں پر لگی پابندی میں شدت لائی گئی، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس سارے عمل میں ہم ان کاروائیوں کے پیچھے امریکہ کا کردار فراموش کر دیتے ہیں، جس نے اس تحریک سے جڑنے والی مختلف جہادی تنظیموں کی مالی امداد کی اور اس شدت پسندی کے لیے ایندھن کا کام کیا ،جس میں مالی امداد اور وسطی ایشیائی ممالک میں عسکری تربیت میں معاونت شامل تھی، جیسا کہ پاکستان کے معاملے میں ٹی ٹی پی کی پشت پناہی کی جارہی تھی۔ یہاں ہم امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کا اثر پاکستان کے اندر عسکری تنظیموں کی کاروائیوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں، مگر چین میں ہونے والی کاروائیوں میں ان کا کردار فراموش کر دیتے ہیں یا آنکھیں چراتے ہیں۔

سنکیانگ میں چینی حکام کی یہ پابندیاں صرف ایغور نسل تک محدود ہیں ،جبکہ دوسرے کروڑوں مسلمانوں کو اس کا سامنا نہیں ہے، اس کا مطلب یہ کہ چین خاص کر ایک مذہب کو ہرگز نشانہ نہیں بنا رہا۔

دوسری طرف پاکستان سے کچھ عناصر  نے ان کاروائیوں میں مصروف لوگوں کی معاونت شروع کی، جسے چینی حکام نے پاکستان کو بریف کیا اور اس کو پاکستان کی طرف سے روکا گیا۔

چینی زبان سے واقفیت کی بدولت میری کافی دفعہ وہاں کے مقامی لوگوں سے بات چیت ہوئی، لوگ واقعی اذیت میں مبتلا ہیں اور دوسرے پہلو بھی کھل کر سامنے آئے۔ کئی بار پاکستان نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

ایک مقامی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ایک ایغور نوجوان نے چینی حکومت کی حالیہ سرگرمیوں کے حوالے سے بات کی  کہ حکومت اس وقت تعلیمی اداروں کے ساتھ انفراسٹرکچر اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کر رہی ہے ،تاکہ نوجوان نسل کی توجہ شدت پسندی سے ہٹ کر بہتر طرزِ زندگی کی طرف ہو۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ میں نے نوجوان نسل میں جدت پسندی کے ساتھ ساتھ مذہبی رجحان میں کمی دیکھی ،مگر چینی حکومت کو اس خطے کو مشرقی علاقوں کی طرح ترقی میں لانے کی ضرورت ہے اور سی پیک کے ساتھ جڑے پروجیکٹس میں وہ اسی پر کام کر رہے ہیں کہ اس علاقے کو بہتر انفراسٹرکچر مہیا کیا جاسکے۔

اب تصویر کے دوسرے رخ پر بات کی جائے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر مغربی میڈیا کے کچھ اردو پیجز مسلسل ایغور مسلمانوں کی حالت کے بارے میں رپورٹ کرتی رہتی ہے جو کہ میرے نزدیک پاکستانی عوام کی چین کے خلاف ذہن سازی کرنا ہے۔ ان میڈیا گروپس میں جرمنی کا ڈوئچے (ڈی ڈبلیو) وائس آف امریکہ اور بی بی سی اردو شامل ہیں۔ نہائیت اہم بات کہ ان اردو پیجز پر کبھی فلسطین اور کشمیر کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو دنیا کے دوسرےخطوں میں درپیش مسائل اور ہونے والے مظالم پر بات نہیں کی جاتی، نہ ہی سنکیانگ میں ان حالات کے پسِ منظر پر بات کی جاتی ہے بلکہ تصویر کا ایک رُخ دکھا کر صرف چینی حکومت کے  مظالم کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ سنکیانگ کے مسلمانوں کو آزادی جیسی نعمت سے محروم کیا جا رہا ہے اور ان کا یہ بنیادی حق سلب کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستانی  عوام  کی تصویر کے اس ایک رُخ کو دیکھتے ہوئے مسلسل چین کے ساتھ نفرت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

یہاں پر میں پاکستان میں موجود سوشل میڈیا اور میڈیا سے جڑے لکھاریوں کی ذمہ داریوں پر بات کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلی بات کہ مغربی میڈیا کے  اس پروپیگنڈے کے جواب میں آپ کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہر صاحب قلم کی وال پر میں ان ون سائیڈڈ خبروں کے لنک دیکھتا ہوں ،مگر آپ نے اس اہم مسئلے پر ابھی تک اپنا کیا کردار ادا  کیا ہے، جس کو بنیاد بنا کر ایک دوست ملک کے خلاف نفرت پیدا کی جارہی ہے۔ یا آپ نے کتنی بار اس مسئلے پر تحقیق کی کہ ان  مسائل کی بنیادی وجوہات کیا ہیں ،یا اس خطے کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے ،تاکہ آپ اپنی عوام کو تصویر کا بہتر رُخ دکھا سکیں۔ شدت پسندی کی بھٹی سے اٹھنے والی آگ آپ کو ٹی ٹی پی کی صورت میں جلا چکی ہے، چین میں اس شدت پسندی اور اس کے مسلمانوں پر اثرات اور پاکستان میں پائی جانے والی بے چینی اور نفرت پر آپ نے اپنا کیا کردار ادا کیا۔

یہاں ہر صاحب قلم گاہے بگاہے ایغور لوگوں کی حمایت میں یا دبے لفظوں ان کی آزادی کے حق میں بات کرتا دکھائی دیتا ہے مگر اس بات کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے کہ اگر اس خطے کو آزاد کر دیا جائے تو پورے ایشیاء پر اس کے کیا اثرات ہونگے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ایسا خطہ جہاں نہ کوئی انڈسٹری ہے نہ انفراسٹرکچر ،نہ ہی مضبوط معیشت، آزادی کے بعد عوام خصوصاً نئی نسل کو زندگی کے کون سے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں گے، مغربی ممالک خاص کر امریکہ کا کردار کیا ہوگا اور یہاں کے لوگوں کو چین اور دوسرے ممالک کو کس حد تک استعمال کیا جائے گا۔ ہم صرف جذبات میں آکر ان کی آزادی کا نعرہ لگا دیتے ہیں جبکہ نہ ہی پسِ منظر دیکھتے ہیں نہ ہی مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں۔ دوسری طرف مغربی میڈیا ہے جو پاکستانی عوام کی مسلسل ذہن سازی کیے جا رہا جبکہ اہل قلم اس دبے لاوے پر خاموش ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply