کام دیو (کیوپڈ) کے تیر۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(روی شنکر کی ستار دُھنوں کے صوتی انسلاکات پر ایک نظم)

برلن میوزک فیسٹیول میں ستار نواز روی شنکر کے لیے ایک ہال تین گھنٹوں کے لیے مخصوص تھا۔ اس عالمی شو میں اس بے بدل کلا کار نے صرف دس منٹ کا ایک قلیل وقفہ لے کر تین گھنٹوں تک لگاتار اپنی ستار نوازی کا مظاہر ہ کیا۔اس میں’’وِلامیت گت‘‘ سے ’’دُرت گت ‘‘اور پھر وہاں سے ’’مدھیم‘‘ اور آخر میں’’جھالا‘‘ تک کا صوتی سفر ہے ۔ یہ گیت نما نظم اس طویل شو کے درمیان کے کچھ
صوتی انسلاکا ت پر انحصار رکھتی ہے۔ (’مدھیم‘ کا ٹکڑا اس قدر سست رفتار تھا ، کہ میں اسے الفاظ کا جامہ نہیں پہنا سکا)۔۔۔ آخر میں ایک ٹکڑا امیر خسرو سے مستعار ہے، جو ایک روئی دھننے والے (دھُنیا) کی دھنکی کی آواز پر امیر خسرو کا فی البدیہہ’لفظ جال‘ ہے ۔اسے محمد حسین آزاد کی ’’آب ِ حیات‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ (س۔پ۔آ)
۰۰۰۰۰۰۰۰۰
پہلی سُر لہری(ولامیت گت)
تن تن تن ۔۔۔ تن تن تن
کیوپڈ اک اندھا لڑکا ہے
دیکھ نہیں سکتا، تن تن
سُن سکتا ہے، تن تن تن
دھنُش میں اپنا تیر لگائے
ٹوہ میں رہتا ہے دن رات
درد بھری اک پریم کی کوتا
یا اک برہ گیت کی گاتھا
جب سُنتا ہے، تن تن تن
اندھے پن کی تاریکی میں
تن تن
تن تن
جانے بنا ہی، تن تن تن
تیر چلاتا ہے، تن تن
کھُب جائیں جن کے بھی دلوں میں
ہائے
مارے گئے بے چارے دونوں
ہائے
تن تن تن تن!

دوسری سُر لہری، ’ہائے‘ کے ورلاپ کے ساتھ
(دُرت گت)
تن تنا تن، تن تناتن، تن
تن تناتن، تن تناتن، تن
کون بجھائے؟
کون بجھائے، پریم کی اگنی، ہائے
تیر کھبے سینوں میں لیے
یہ دونوں، ہائے
رُدن کرت ہیں
چپکے چپکے
چھپ چھپ کر دنیا سے، ہائے
اندھا لڑکا کچھ بھی نہ جانے
کچھ بھی نہ جانے
کیا اندھیر رچا ہے اس نے، ہائے
ہائے، ہائے، ہائے!
کون بتائے تیروں کی بھاشا میں اس کو
تیر چلا کر
گھائل کر کے
پیچھے نہ دیکھا، ہائے
کیا اندھیر رچا ہے اس نے
دو معصوم دلوں پر
کتنا ظلم کیا ہے۔۔۔۔ہائے
ہائے، ہائے، ہائے!

تیسری سُر لہری (جھالا)۔۔۔
سَمِشرَن(امتزاج) تین سُروں کا
یہ  بارش کی بوندیں
بھگوتی رہی ہیں ۔۔۔۔مرے جسم کو
جو کہ پہلے سے ڈوبا ہوا ہے
کہیں مُردہ ساگر* کے اندر ! Dead Sea
کیسے پہچانو گے مجھے، پیتم
اب مرا چہرہ وہ نہیں ہے جسے
دیکھتے تھے سُروں میں ڈوبے ہوئے
اور خود اس میں ڈوب جاتے تھے!

دھنیہ سَمِشرَن۰ سُروں کا جس میں ۰امتزاج
وِش اور امرِت ساتھ ملے ہیں
دھنیہ۰ یہ جھالا سُرلہری کا ۰ مبارک
دھنیہ دھنیہ ہے، دھنیہ دھنیہ ہے!
(بِسرام)

امیر خسرو (نیچے نوٹ دیکھیں)
در پئے جاناں جاں ہم رفت
جاں ہم رفت، جاں ہم رفت
جاں ہم رفت
رفت رفت جاں ہم رفت
ایں ہم رفت و آں ہم رفت
آں ہم رفت، آں ہم رفت
ایں ہم، آں ہم، ایں ہم، آں ہم رفت
رفتن، رفتن، رفتن
دہ دہ، رفتن دہ، رف، رفتن دہ
(امیر خسرو)

Advertisements
julia rana solicitors london

(کتنی دھُنکی، کتنی دُھنکنی باقی ہے؟)
روئی سے پوچھیں، یا دُھنُکی سے؟
تھک گئے ہاتھ
نتھنوں میں گھس گئی ہے روئی
نتھنے، نتھنے، نتھنے ، نتھنے
روئی روئی، روئی، روئی
روئی تت آخر، انت کال میں
جیت گئی ہے، جیت گئی ہے
تھک تھک، تھک تھک
ہار گیا میں ،ہار گیا میں
(یہ بند امیر خسرو کی فی البدیہہ سُر بندی کا اردو ترجمہ نہیں ہے۔میری اپنی کاوش ہے۔ (س۔پ۔آ))
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مورخ لکھتا ہے، امیر خسرو اپنے ایک مرید کے ہمراہ گلی میں جا رہے تھے۔ مرید کے ہاتھ میں اکتارہ تھا۔ یکایک رک گئے۔ گلی کے ایک جانب روئی دھُننے والے جلاہے کا گھر تھا جہاں سے روئی دُھننےکی آواز اپنے مترنم ’’دُھن دُھن دُھن ۔۔۔دھُن دھنا دھُن۔۔۔۔دھُن دھُن دُھن‘‘ سے آ رہی تھی۔ اوپر دی گئی دس سطور اس کلام کا حصہ ہیں جو فی البدیہہ وارد ہوا۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply