ہماری دنیا۔۔رمشا تبسم

ہمارے لئے بہت مشکل ہے کہ  ہم عام انسان کی طرح جی سکیں۔آپ جو یہاں سامنے بیٹھے ہیں۔یا جو گھروں میں بیٹھے مجھے اس وقت دیکھ رہے ہیں ان کے لئے یہاں تک آنا بہت آسان رہا ہو گا۔مگر میں جو یہاں ہوں، میں ہی جانتا ہوں کہ  کس قدر ضربیں میرے وجود پر موجود ہیں۔کتنی تکلیفیں میرے دامن میں ہیں۔اور کتنے تکیے میرے آنسوؤں سے تر ہو چکے ہیں”۔

وہ درد بھری مگر خوبصورت آواز میں بول رہا تھا۔اسے گولڈ میڈل حاصل کرنے کے لئے سٹیج پر بلایا گیا تھا۔مگر گولڈ میڈل حاصل کرنے سے پہلے اس نے کچھ بات کرنے کی اجازت چاہی،اور اس کو یہ موقع فراہم کیا گیا۔ سامعین خاموشی سے سن رہے تھے۔کچھ کی نگاہوں سے حقارت سی جھلک رہی تھی،اور کچھ کے چہرے شرارت لئے ،  آوازیں کسنے کو تیار تھے۔

“میرا وجود ایک گالی نہ ہو کر بھی گالی بنا دیا گیا۔میری جائز پیدائش کو ناجائز ہونے سے زیادہ بڑا گناہ سمجھ کر مجھے کسی گٹر میں پھینکنے کی  کوشش  بھی کی گئی۔میری آنکھ کھلتے ہی میرے اپنے مجھے دیکھ کر آنکھیں بند کرنے کو تیار تھے۔شاید کوئی ایک خوشی کی مسکراہٹ یا نظر میرے وجود پر نہ پڑی ہو گی۔ورنہ کہیں , ہاں کہیں تو ضرور میرے دل کا ایک حصہ ایسا ہوتا جہاں محبت کا ایک ذرہ موجود ہوتا اور مجھے لگتا ،ہاں میں بھی تو ضروری ہوں۔مگر میں ضروری نہ تھا۔کسی کے لئے نہیں۔۔حتی کہ میرے خود کے لئے بھی نہیں۔”

اُس نے مائیک سے منہ ہٹا کر آنکھوں پر ہاتھ رکھا ,روتے ہوئے سسکیاں لیں اور پھر مخاطب ہوا۔

“مجھے بھی درد ہوتا ہے۔یہاں دل میں ۔۔جب لوگوں کی نظریں ہر لمحے میرے وجود کو مذاق بنا رہی ہوں۔یہاں بھی بیٹھے بہت سے لوگ مجھ پر ہنس رہے ہیں۔سرگوشیاں کر رہے ہیں۔کچھ کی آنکھوں میں میرے لئے  تمسخر  اور حقارت جھلک رہی ہے, تو کچھ کی نظروں میں ہمدردی اور ترس ہے،مگر یہ سب چیزیں ہی میرے لئے تکلیف کا باعث ہیں۔ہر وقت لوگوں کی آوازیں اور انکی نظریں میری تذلیل کرتی آئی ہیں۔تنہا رہنا بہت اذیت دیتا ہے۔میں دنیا میں ،دنیا والوں کے ہوتے ہوئے بھی تنہا رہا۔۔۔ تنہا صرف ایک رشتہ تھا  میرے پاس ,جو مجھے دیکھ کر جی رہا تھا اور اسکا اس طرح اذیت بھری زندگی ،صرف میری وجہ سے جینا ،مجھے خود سے مزید نفرت کرواتا رہا۔۔۔ ہاں! میں اُس اپنے ایک رشتے کا بھی مجرم ہوں۔۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرا جائز وجود ہونا اُس کے لئے ناجائز سزا بن گئی”۔اب اسکی آنکھوں میں بہتے آنسو اس کا ہر منظر دھندلا کر چکے تھے۔

سامعین میں  سے اکثر کی نگاہیں بس یک ٹک اسے دیکھ رہی تھیں۔کچھ کی آنکھوں میں آنسو  تھرا رہے تھے،اور کچھ کا دکھ ان کے حلق میں پھنس چکا تھا،اور کچھ ابھی بھی شرارت بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے, ہونٹوں کو دانتوں سے چبا رہے تھے۔

اسکی آواز میں موجود اداسی ہر طرف پھیلنا شروع ہو چکی تھی۔۔ وہ بولنا چاہتے ہوئے بھی بول نہیں پا رہا تھا۔اسکی آواز ،اسکی ہمت کا ساتھ دینا چھوڑ رہی تھی۔۔۔مگر وہ یہ جنگ جیتنا چاہتا تھا۔۔وہ بولنا چاہتا تھا۔۔وہ چیخنا چاہتا تھا۔۔وہ اپنا ہونا دنیا کو بتانا چاہتا تھا۔۔

“میں ہوں ،کیونکہ مجھے ہونا ہی تھا۔۔میرے ہونے میں میرا قصور نہیں ،مگر مجھے قبول نہ کرنے میں معاشرے کا قصور ہے۔میرا واحد سہارا اس وقت مجھ سے چھینا جا رہا ہے۔میں بتانا چاہتا ہوں ،وہ میرا ایک رشتہ آج زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔۔ یہاں سے جا کر مجھے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ  اس کو وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا جائے۔۔ اُسکی زندگی میرے ہونے کی وجہ سے ساری عمر وینٹی لیٹر پر رہی اور اب اس کا وجود وینٹی لیٹر سے آزاد کر کے میں اُس کی اذیت کا خاتمہ کرنے والا ہوں۔۔ ہاں میں میرے واحد رشتے کو بھی موت کے گھاٹ اتارنے پر مجبور کر دیا گیا ہوں”۔

وہ روتا ہوا, سسکتا ہوا گھٹنوں کے بل ڈائس کے نیچے بیٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“فاریہ مجھے بیٹا ہی چاہیے”۔وہ چائے پیتے ہوئے اکڑ کر بولا۔آج باپ بننے کی خبر سن کر وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔
“مگر ارحم بیٹا ہی کیوں؟اولاد تو اولاد ہوتی ہے۔۔ بیٹا ہو یا بیٹی۔ ہاں بس صحت مند اور صالح ہو” ۔وہ شوہر کی بیٹے کے لئے شدید خواہش دیکھ کر بے چینی سے بولی۔

“مجھے تمہاری فضولیات میں دلچسپی نہیں۔۔ میں نے کہہ دیا کہ  بیٹا ہی ہونا چاہیے  تو بس بیٹا ہی ہو”۔اس نے غصے سے کپ میز پر  پٹخا۔

“ہاں تو بیٹا ہی ہو گا۔ تم کیوں پریشان ہوتے ہو۔۔ اِس گھر کا وارث پیدا ہو گا۔اس کو جتنی عقل ہے, اتنی ہی بات کرے گی نا”۔ارحم کی ماں سلطانہ غصے میں بہو کو گھورتی ہوئی بیٹے سےمخاطب تھی۔
“مگر ماں جی میں تو بس اتنا کہہ رہی تھی کہ  بیٹا ہو یا بیٹی، کیا فرق پڑتا ہے ۔بس صحت مند۔۔۔”
“رہنے دو تم تو چپ ہی  رہو”۔سلطانہ نے اسکی بات کاٹ دی۔

وقت گزر رہا تھا۔دن رات ارحم اور سلطانہ کی بیٹے کی خواہش شدت اختیار کر رہی تھی۔ ہر گزرتا لمحہ فاریہ کی  پریشانی میں اضافہ کر رہا تھا۔فاریہ کو بیٹی یا بیٹا دونوں صورت میں اپنے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد کو ہاتھوں میں تھامنے کی خواہش تھی مگر گھر کا ماحول اسکی اس خوشی اور خواہش کو برباد کرتا رہا۔۔

آخر وہ لمحہ آگیا ۔۔فاریہ کو ہسپتال داخل کرواتے ہی اس کو تنبیہ کر دی گئی  کہ  بیٹا ہی ہو۔۔ فاریہ تکلیف کی اس گھڑی میں دو بول ہمدری اور محبت کے شوہر اور گھر والوں سے سننے کو ترس رہی تھی۔
ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آئی۔اور گھر والوں کو اطلاع دے دی۔۔ سب کے چہرے بے یقینی سے سفید پڑ گئے۔۔ کسی کو یقین نہیں ہو رہا تھا ۔۔ بالآخر ارحم اور سلطانہ غصے سے لال پیلے ہو گئے۔

“ہم اس بچے کو نہیں رکھ سکتے۔۔ہمارے خاندان کا نام برباد کر دیا اس عورت نے۔ ۔ہمیں دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا”۔سلطانہ غصے سے ارحم سے مخاطب تھی۔”اب تم مرد بنو اور ہماری عزت کی خاطر اس بچے کو کہیں پھینک آؤ۔۔ یا جان سے ہی مار دو ۔”وہ دانت پیستے ہوئے غصے سے بول رہی تھی۔

ارحم اب تک بے یقینی کی کیفیت میں خاموش کھڑا تھا۔

“میرا بچہ ڈاکٹر صاحبہ۔” فاریہ نے ہوش میں آتے ہی بچے کے بارے میں سوال کیا۔ڈاکٹر نے اس کو سب بتانے کے بعد حوصلہ دیا کہ”جو اللہ کی مرضی ،بچے تو اللہ کی دین ہیں۔وہ جو چاہے ہمیں عطا کر دے ۔آپ حوصلہ رکھیں۔”فاریہ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔اسے ایک بھیانک مستقبل نظر آ رہا تھا۔۔ اس کے دل و دماغ میں بے شمار سوچیں امڈ آئیں۔۔ وہ زارو قطار منہ ہاتھوں میں چھپائے رونے لگی۔

نرس نے خوبصورت نیلے کمبل سے لپٹا ہوا ننھا بچہ اسکی طرف بڑھایا۔فاریہ نے روتے ہوئے, لرزتے ہاتھوں سے اس بچے کو پکڑا ۔اسکی آنکھیں بند تھی۔اس کے گلابی ہونٹ ,سرخ رنگ, اسکا نرم جسم دیکھ کر فاریہ نے اسے سینے سے لگا لیا۔

“میرا بچہ۔ماں صدقے جائے۔۔ تم تھے۔۔ جسے نو مہینے میں نے پیٹ میں رکھا۔۔ تمہاری دھڑکن سے میری دھڑکن جڑی تھی۔۔ تم حرکت کرتے تھے تو میں تکلیف کی بجائے خوش ہوتی تھی۔۔ تمہیں محسوس کرنے کو بار بار اپنا پیٹ چھوتی تھی۔۔ کبھی جو تمہاری حرکت محسوس نہ ہوتی تو ڈر کر سانس لینا بھول جاتی تھی۔۔ ہاں میرے بچے تم میری زندگی کی پہلی خوشی ہو”۔

اس نے بچے کو سینے سے ہٹا کر سامنے کیا۔کمبل میں سے اسکا ہاتھ نکالا،اسکی انگلیوں کو چوما۔۔ بچے کی انگلیاں کھول کر اپنا انگوٹھا اس میں دیا۔۔ بچے نے مٹھی بند کر لی۔۔ فاریہ روتے ہوئے اسکا ہاتھ چوم رہی تھی۔وہ ہاتھ جس کو بچے نے بھی اب تھام لیا تھا۔اور فاریہ نے اسکا ننھا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبا لیا۔۔ فاریہ کے چہرے پر اب سکون تھا۔۔ وہ یہ طے کر چکی تھی کے اس ہاتھ کو اب کبھی نہیں چھوڑے گی۔اور وہ جانتی تھی یہ ہاتھ تھام کر اسے دنیا سے ایک طویل جنگ لڑنی پڑے گی۔مگر ماں تھی ,ماں شاید اولاد کا لمس پا کر ایسے ہی بہادر ہوتی ہے جیسی اب فاریہ نظر آ رہی تھی۔ وہ فاریہ جو ساس اور شوہر کو ایک بات کا جواب تک دینے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھی۔اب اس بچے کو قابل قبول بنانے کو تیار تھی۔

فاریہ بچے کے ہاتھوں کو چوم رہی تھی کہ ایک دم ارحم کمرے میں غصے سے داخل ہوا۔

“شرم کرو تم غلیظ ترین عورت۔۔ گھٹیا عورت۔۔ شرم سے مر جاؤ تم ،یہ جو تم نے ہماری زندگیوں پر لعنت پیدا کی ہے۔۔ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔۔ کہا تھا میں نے مجھے صرف بیٹا چاہیے، صرف بیٹا اور تم نے کیا پیدا کیا۔۔ اور پھر اس گندے وجود کو گود میں لئے چوم رہی ہو۔۔ ذلیل عورت”

فاریہ کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔وہ سفید پڑ چکی تھی۔اسکی انگلی اب بھی بچے نے تھامی ہوئی  تھی۔ فاریہ نے بچے کا چہرہ دیکھا،اور پھر اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر دل سے لگا لیا۔

“تمہیں سمجھ نہیں آ رہی ؟۔۔تم یہ بچہ نہیں رکھ سکتیں۔۔ ہمیں اسکو کسی کو دینا ہو گا۔یہ ہماری بربادی ہے۔۔ ہماری ذلت ہے”۔ارحم فاریہ سے بچہ چھیننے کو آگے بڑھا۔اور فاریہ نے دھکا دے کر بچہ سینے سے لگا لیا

“تم پاگل ہو گئی ہو”۔وہ چیخا
“ہاں۔ہاں میں پاگل ہوں۔یہ میرا نہیں تمہارا اور میرا بچہ ہے۔۔ کس طرح تم اپنے بچے کے ساتھ ایسے کر سکتے ہو۔بیٹا نہیں تو کیا ہوا ہے تو ہمارا بچہ۔خبردار جو اس کی طرف ایک بھی  قدم بڑھایا۔”

“تم بے وقوف جاہل عورت سمجھ کیوں نہیں رہی۔یہ ہماری ذلت کا سامان ہے۔۔ تمہیں ابھی فیصلہ کرنا ہو گا یہ بچہ چاہیے یا میں؟” وہ ہاتھ سینے پر باندھے پُر اعتماد مگر سرخ چہرے سے کھڑا تھا۔
فاریہ نے بچے کو دیکھا۔۔ وہ سویا ہوا مسکرا رہا تھا۔۔ فاریہ مسکرائی۔ ۔بچے نے ہاتھ کھولا، فاریہ کی انگلی آزاد تھی۔۔ وہ فیصلہ کر سکتی تھی۔وہ فیصلہ جس سے اسکی اذیت اور تکلیفیں کم ہو سکتی تھیں ۔ایک خوش و خرم زندگی اسکے سامنے تھی اگر وہ ارحم کا ساتھ دیتی۔

فاریہ نے بچے کا ہاتھ تھاما آنکھوں سے لگایا۔ ہونٹوں سے لگایا۔ارحم غیر یقینی سے دیکھ رہا تھا۔
“آپ جا سکتے ہیں ارحم”۔وہ سکون سے بولی۔

“تم،تم بالکل پاگل ہو گئی ہو۔جاہل عورت۔”

بچے نے رونا شروع کردیا۔

“میں نے کہا آپ جا سکتے ہیں۔۔ میرا بچہ پریشان ہو رہا ہے”۔ وہ اب غصے سےمخاطب ہوئی۔

ارحم اِدھر اُدھر دیکھ کر غصے سے باہر کی طرف نکلنے لگا۔پھر رُک کر بولا “ٹھیک ہے چند دن میں تمہیں طلاق کے کاغذ مل جائیں گے”۔فاریہ بچے کو تھام کر چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی۔مگر وہ اب کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔

“ٹھیک ہے،جیسے  آپ سب کی مرضی۔۔ جاتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کر دیجیے گا۔”وہ نم آنکھوں سے ارحم کو دیکھ رہی تھی۔۔وہ غصے سے باہر نکل گیا۔

“تم نے یہ کیا کر دیا؟ فاریہ میری بچی ۔تم کیسے اِس بچے کے ساتھ تنہا زندگی گزارو گی”۔فاریہ کی ماں حمیدہ بی بی روتے ہوئے فاریہ سے مخاطب تھی۔وہ فاریہ کو گھر لے آئی تھیں۔۔ بچے کی پیدائش کے تین دن بعد ارحم نے فاریہ کو طلاق دے دی۔۔

فاریہ کے والد اس کے بچپن میں فوت ہو چکے تھے۔فاریہ کی ماں ایک فیکٹری میں باورچی کا کام کرتی تھی۔ان پیسوں سے بمشکل اس نے فاریہ کو پرائمری تک تعلیم دلوائی۔ایک دن فاریہ فیکٹری میں ماں کے ساتھ کام کر رہی تھی کہ وہاں ارحم کسی کام سے آیا۔اسکو فاریہ اچھی لگی۔اور اس نے رشتہ بھیج دیا۔ارحم کی ماں رشتے پر نہ چاہتے ہوئے بھی راضی ہو گئی  کہ  کہیں بیٹا اس کے انکار کرنے کے بعد بغیر اجازت شادی نہ کر لے اور الگ نہ رہنا شروع کر دے۔شادی کے شروع میں سب اچھا تھا پھر رفتہ رفتہ سلطانہ نے بیٹے کو بہو کے خلاف کر دیا۔اور پھر ہر لمحہ فاریہ کے لئے تکلیف دہ ہوتا گیا۔۔ عزت نفس مجروح ہوتی مگر فاریہ کبھی آ کر اپنی ماں سے شکایت نہ کرتی۔
اور اب بھی مجبور نہ ہوتی تو کبھی ماں کے دروازے پر نہ آتی۔۔

“ماں میرے لئے پہلے بھی بہت مشکل وقت تھا۔کہا تھا میں نے بڑے لوگوں میں شادی نہ کرو مگر تم نے کر دی۔۔ میں نے نبھائی بھی۔۔کبھی شکایت نہ کی۔نو مہینے میں نے دن رات کس کرب میں گزارے  ہیں، تم نہیں جانتیں۔ہر وقت بیٹا بیٹا۔۔ بس جیسے یہ سب میرے ہاتھ میں تھا۔۔ قدرت کی مرضی منظور ہی نہیں تھی ان کو۔۔ بس وارث چاہیے تھا۔”وہ کانپتی آواز سے بول رہی تھی۔
“کیا کروں میں ماں؟ بیٹا نہیں ہے تو مار دوں اسکو؟ لو تم مار دو، ہے ہمت تم میں؟۔یا لو پکڑو دے آؤ کسی کو”۔ وہ بچہ کانپتے ہاتھوں سے ماں کی طرف کر رہی تھی۔
“نہ میری بچی نہ۔” حمیدہ بی بی نے بچہ پکڑا اس کو چوما اور فاریہ کو واپس کر دیا۔

“میری بچی میں ہوں تمہارے ساتھ۔مگر مجھے فکر ہے جب میں نہ رہوں گی تو تم”۔اسکی ہچکی بندھ گئی۔

“بس کرو ماں تم جیو ہمیشہ۔۔ میری ہمت نہ توڑو ماں۔۔ میں ٹوٹ گئی تو میرا بچہ ختم ہو جائے گا۔۔ اور اب میری زندگی کی جنگ میں خود اکیلی ہر صورت لڑنے کو تیار ہوں۔”

“تم نے دیکھے ہیں اسکے ہاتھ؟ انہی ہاتھوں کو تھام کر میں تمام عمر ہر مشکل سہنے کو تیار ہوں۔۔ میں اِسکی بہترین پرورش کرو ں گی،پڑھاؤں گی۔۔ میں اس کو معاشرے پر بوجھ نہیں بناؤں گی۔بلکہ معاشرہ اس پر فخر کرے گا۔میں بتاؤں گی دنیا کو، بیٹا نہیں تو کیا ہوا، میرا بچہ قابلِ عزت ہے۔”

وقت گزرتا گیا ،فاریہ نے ماں کے ساتھ فیکٹری میں کپڑے پیکنگ کا کام کرنا شروع کیا۔۔ دونوں صبح جاتیں  اور شام کو آتیں۔ فاریہ اپنے بچے کو ساتھ لے کر جاتی۔۔ ہر ممکن کوشش کرتی کہ  لوگ اس سے اور بچے سے دور رہیں۔۔ اسے ہمدری یا ترس دونوں ہی رویوں میں تذلیل محسوس ہوتی۔۔ وقت تیزی سے بدل رہا تھا۔۔ بچے کے بڑے ہوتے ہوتے فاریہ کے لئے ہر چیز مشکل ہوتی جا رہی تھی۔۔ لوگ اس کو وقتا فوقتا اس کے فیصلے پر غلط ثابت کرنے کی کوش کرتے۔۔ بچے کو بار بار لوگوں کی طرف سے طنز, بُری نظریں, مذاق سہنا پڑتا۔۔ اس سے دوستی کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔مگر فاریہ ہر لمحے اپنے بچے کے ذہن میں پلتے سوالات کے جوابات دے کر اس کی شخصیت کو پُر اعتماد بنانے کی جدو جہد کرتی۔اور اکثر بچے کی اداسی فاریہ کو توڑ دیتی۔مگر وہ پھر بھی ہارنا نہیں چاہتی تھی۔وہ اپنے ہاتھ میں اسکا ہاتھ تھام کر ہمیشہ کہتی۔۔

“دیکھو ماما ہے نا تمہارے ساتھ۔۔ تمہاری دوست تمہاری ساتھی ،اب اور دوست بنا کر تم اپنی ماما کو تنہا کرنا چاہتے ہو۔”اس پر بچہ ہمیشہ ہنس کر ماں کے گلے لگ جاتا اور کچھ دیر کے لئے پر سکون ہو جاتا اور اگلے ہی لمحے پھر سے ٹوٹ جاتا۔۔ اس کے بار بار بکھرنے سے فاریہ بکھر جاتی مگر اپنا بکھرنا بس تنہائی میں آنسو بہا کر سمیٹ لیتی۔

جس رات فاریہ کی ماں کی موت ہوئی۔اس رات فاریہ جی بھر کر روئی تھی۔وہ جانتی تھی اب زندگی میں اسکا سہارا کوئی نہیں۔۔ وہ ٹوٹ گئی۔اسی لمحے بچے نے ماں کا ہاتھ تھاما اور کہا
“میں ہوں نا  ماں۔۔آپ مت رو۔۔ ہم ہیں ایک دوسرے کے ساتھ۔” فاریہ کی ذات میں جو تھوڑا بہت یقین تھا اب وہ پہلے سے زیادہ ہو گیا۔اسکی ساتھی اسکی اولاد تھی۔۔ فیکٹری کی مالکن  نے فاریہ کو مَری میں اپنی دوسری فیکٹری میں بھیجنے کی آفر کی۔۔ فاریہ پہلے گھبرائی۔پھر مان گئی  کہ اسی بہانے اس کو اور اسکے بچے کو تھوڑی سی معاشرے میں عزت ملے گی اور اپنے علاقے سے باہر جا کر وہ تھوڑا سکون محسوس کرے گی۔

فاریہ پھر کبھی کسی کے سامنے نہیں روئی نہ ہی ہمدردی کی بھیک مانگی۔ اس دن بھی نہیں روئی جس دن فاریہ کو سکول سے فون آیا کہ  آپ کا بچہ یہاں نہیں پڑھ سکتا۔دوسرے بچوں کے والدین اس بات کو برداشت نہیں کرتے۔اس دن بھی نہیں جب محلے کے ہر بچے نے اس کے بچے کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا۔اس دن بھی نہیں جب اس کو ٹیوشن سینٹر سے نکال دیا گیا۔اس وقت بھی نہیں جب اس کے بچے پر اکثر لوگ فقرے کستے۔اس کو چھیڑتے۔اس نے گورنمنٹ سکول میں جیسے تیسے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔اور اس بچے نے کبھی لوگوں کی طنز اور تذلیل کا ذکر ماں سے نہ کیا کیونکہ وہ اپنی ماں کو اب مزید تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔۔گورنمنٹ کالج میں ایف اے میں بہترین پوزیشن حاصل کی۔گریجوایشن میں نمایاں کارکردگی پر تمغہ حاصل کیا۔اسکا تعلیمی  سفر تنہائی کا شکار رہا مگر کامیاب رہا۔اس کا نہ کوئی ساتھی، نہ کوئی ہمدرد۔وہ لوگوں سے بات کرنے سے گریز کرتا، مگر لوگ پھر بھی اسکے وجود کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ڈائس کے نیچے سے اٹھا اور آنسو صاف کر کے پھر مخاطب ہوا۔۔
“آج مجھے ایم۔فل میں گولڈ میڈل مل رہا ہے وہ میڈل جس کے لئے میری ماں نے دن رات محنت کی۔۔ دن رات میرا حوصلہ بڑھایا۔میرا کوئی خاندان نہیں۔۔ کوئی دوست احباب نہیں۔۔ میری تو کل کائنات میری ماں ہے۔۔ وہ ماں جو زمانے کے رویوں کی ٹھوکریں سہتے سہتے کبھی اس لئے نہیں تھکی کہ اسکی تھکاروٹ مجھے نہ تھکا دے۔۔ وہ ا س لئے نہیں روئی کہ اسکا رونا مجھے کمزور نہ کر دے۔وہ کمزور ہوتے ہوئے بھی مضبوط چٹان بنی کھڑی رہی ،تاکہ میں کھڑا رہ سکوں۔۔ وہ سوتی نہیں تھی کہ  کہیں میں رات کو زمانے کے رویے سے تنگ آ کر خود کو نقصان نہ پہنچا لوں”۔اسکے آنسو جاری تھے۔

“میری ماں میرا واحد سہارا تھی۔یہ سہارا اس وقت بھی نہیں ٹوٹا جب لوگ میری ماں کوگھٹیا  پیشکش کرتے تھے۔اس وقت بھی نہیں بکھری میری ماں، جب لوگ میرے والد کے بارے میں غلط باتیں کرتے۔وہ  اس وقت بھی مضبوط سہارا ثابت ہوئی جب لوگ مجھ سے   غلیظ باتیں کر تے، غلط حرکات کی پیشکش کرتے اور میں خود کو جان سے مارنے کو تیار ہو جاتا۔ ”

“میرا وجود قدرت کا فیصلہ تھا۔۔ اس وجود کو اس مقام تک پہنچانا میری ماں کا فیصلہ تھا۔۔ وہ فیصلہ جب اس نے میرا ہاتھ تھام کر دنیا کے تمام ہاتھ جھٹک دیئے تھے۔۔ تمام سہاروں سے منہ موڑ لیا۔ وہ ماں جو تکلیفیں سہتی  مردہ دل کے ساتھ بھی میری خاطر جیتی رہی۔۔ اور آج وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی۔ ماں کہتی تھی تم تسلیم کرو، تم جو ہو۔۔ لوگ کچھ بھی کہیں مگر تم جو ہو سو ہو۔۔ اس حقیقت کو تسلیم کر کے جیو تا کہ تم ماحول, حالات اور انسانوں کے رویوں سے لڑ سکو۔۔ تاکہ تمہاری ذات تمہارے لئے قابلِ  قبول بن سکے”۔

“تو دیکھو میں اپنے لئے قابل قبول ہوں۔۔ ہاں ماں میں خود کو قبول کرتا ہوں”۔اسکی ہچکی بندھ گئی۔۔

“اب لوگوں کا خوف نہیں مجھے”۔ تم جو وہاں بیٹھے میرے اسٹیج پر آتے ہی ہنس رہے تھے”وہ اب ہال میں بیٹھے لوگوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔”اور تم جو اب بھی شرارت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہے ہو۔۔اور تم سب جنہوں نے مجھے قبول نہیں کیا۔۔ ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ  میں خود کے لئے قابل قبول ہوں”۔

“تم سب کہتے ہو میں نہ لڑکا ہوں نہ لڑکی ،میں خواجہ سرا ہوں۔۔ تو ہاں میں خواجہ سرا ہوں۔۔ میں خود کو اب قبول کرتا ہوں۔۔ میں اس وجود کو لے کر خوش ہوں جو قدرت نے مجھے عطا کیا۔۔تم مکمل ہو کر بھی سب نامکمل ہو، کیونکہ تمہارے دل چھوٹے ہیں۔۔ تمہاری سوچ چھوٹی ہے۔ہوس کے پجاری ہو۔۔ انسانوں کو اذیت دیتے ہو۔۔ مگر میں تم سا نہیں ہوں،کیونکہ میں مرد نہیں۔۔ میں عورت نہیں۔۔ میں جو ہوں، وہ تم کبھی ہو نہیں سکتے، میں قدرت کی خاص تخلیق ہوں۔اور مجھے خود سے اب محبت ہے۔۔ میں خود کے لئے قابل قبول ہوں۔۔ یہ میڈل میری ماں کی جیت ہے۔

مجھے تم لوگوں کی ہنسی اب تکلیف نہیں دیتی، کیونکہ میں ہر تکلیف کی شدت سہہ چکا ہوں۔۔ میں نفرتوں میں جوان ہوا ہوں۔۔تنہائیوں کا مسافر رہا ہوں۔۔ تمہارے رویوں کے تھپڑ کھا کھا کر اب میرا وجود مکمل طور پر تکلیفوں سے سیر ہو چکا ہے۔ میں تمہاری دنیا کا نہیں ہوں، تو سمجھو تمہاری دنیا میرے لئے اہمیت ہی نہیں رکھتی کیونکہ میری دنیا میری ماں ہے۔”اب اسکی آواز لرز نہیں رہی تھی۔وہ میڈل لینے آگے بڑھا پھر سٹیج سے اترتا ہوا آنکھیں صاف کرتا رہا۔

کچھ دیر بعد وہ ہسپتال کے کمرے میں موجود تھا۔جہاں میڈل ماں کے ہاتھ میں رکھ کر وہ اسکا بے جان ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔۔ اسکی واحد دوست واحد دنیا مسلسل کچھ ہفتوں سے بے ہوش تھی۔اچانک رات کو طبیعت خراب ہونے پر فاریہ کو ہسپتال داخل کیا گیا۔بے ہوشی کی حالت میں بار بار طبیعت بگڑتی رہی۔بالآخر اس کو وینٹی لٹر پر شفٹ کردیا گیا۔

“سر آپ کی والدہ کو اب مزید وینٹی لیٹر پر رکھنا انکے لئے اذیت کا باعث ہے۔انکی مصنوعی سانسیں انکی مصنوعی زندگی، ان کے  لئے شدید تکلیف دہ ہے۔آپ اب فیصلہ کر لیں اور حقیقت تسلیم کر لیں۔”

وہ ماں کا ہاتھ تھامے  سلسل  رو رہا تھا، وہ ہاتھ جو اسکا واحد سہارا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب اس ہاتھ کو تھام کر وہ اس ہاتھ سے الگ ہونے  کو کیسے تیار ہوتا۔۔ڈاکٹروں کی تسلی اور سمجھانے کے بعد اس نے ہاں کر دی۔۔اور فاریہ کو وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا گیا۔ اور ایک مہینے کی بظاہر مگر تمام عمر ایک مسلسل اذیت سہنے کے بعد فاریہ کا وجود اب سکون میں تھا۔اسکا ہاتھ تھامے وہ زارو قطار رو رہا تھا۔۔ اس نے فاریہ کا انگوٹھا اپنے ہاتھ میں لیااور مٹھی بند کرلی اور اس پر ہونٹ ثبت کر کے بیٹھ گیا۔۔ وہ جانتا تھا اسکی تکلیف کا سفر اسکی ماں کے ساتھ ختم نہیں ہوگا۔بلکہ اسکی رہتی سانسوں تک جاری رہے گا۔اور وہ اب جینے کو تیار تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply