خوشی کیا ہے ؟ (پہلی قسط )۔۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

آغاز میں یہ وضاحت کردینا ضروری ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں(سوائے ایک کے) اور جتنے بھی فلسفہ ہائے زندگی ہیں (سوائے ایک کے)، یہ سب خوشی کی تعریف میں انسان کے احساسات کے قائل نہیں، بلکہ یہ کچھ مخصوص اخلاقی یا نظریاتی دائروں میں زندگی گزارتے رہنے پر حقیقی خوشی کے حصول کے قائل ہیں اور ان کے نزدیک فرد کے شخصی احساسات چونکہ باطل بھی ہوسکتے ہیں اس لیے یہ احساسات خوشی کے جانچنے کا پیمانہ نہیں ہو سکتے۔

مذاہب میں بدھ مت اور فلسفہ ہائے زندگی میں لبرل ازم ہی خوشی کی تعریف اور اس کے سمجھنے میں انسان کے احساسات کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور ان دونوں نظریات کے نزدیک یہی شخصی احساسات ہی خوشی کے ماپنے کا حقیقی اور بنیادی پیمانہ ہیں۔

اگر ثانی الذکر نکتے پر ایمان لایا جائے تو انسانی خوشی کی بابت مادّی ترقی اور مالی استقامت کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، سادہ الفاظ میں پیسہ و زر انسان کی خوشی کا باعث ہیں، ہم بحث مباحثوں میں پیسے کو ہاتھ کی میل، بلکہ فساد کی جڑ کہتے رہتے ہیں مگر یہ رویہ اپنے مخالف پر اپنی روحانیت اور غیر مادیت کا رعب جھاڑنے سے زیادہ کچھ نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ مالی استقامت انسان کی زندگی میں خوشی لانے کا اہم ترین ذریعہ ہے، آپ اپنے اور اپنے اقارب کی بھوک، بیماری اور دیگر الجھنوں کو پیسے کی مدد سے دور کرسکتے ہیں اور زندگی کی بنیادی سہولیات کا دارومدار بھی پیسے ہی پر ہے۔

مگر کیا جن لوگوں کے پاس پیسہ ہے، وہ سب زندگی سے خوش ہیں؟ یا پھر جو مالی طور پر کمزور ہیں، وہ سب کے سب زندگی سے نالاں ہیں؟ یقینا ً ایسا نہیں، غربت کے ماروں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو زندگی سے خوش ہیں مطمئن ہیں، اور امراء کی کثیر تعداد ایسی ہے جو زندگی میں خوشی کو ترستے ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ہمارے اجداد ہماری نسبت زیادہ خوش اور مطمئن تھے اگرچہ ان کے پاس پیسہ نہ تھا، یہاں سے یہ نتیجہ نکالنے میں ہم حق بجانب ہونگے کہ پیسے کا مخصوص کردار انسانی خوشی میں ضرور ہے مگر یہ محدود ہے، ایک مثال دیکھیے۔۔

ایک شخص جس کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار روپے ہے، رہنے کو اپنا گھر نہیں، قرضوں میں گھِرا ہے، بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور بزرگ والدین کے علاج کی سکت نہیں رکھتا، اگر اس شخص کو دو کروڑ روپے اچانک کہیں سے مل جائیں تو اس کی خوشی دیدنی ہوگی، گھر، قرض، بچوں کی تعلیم، والدین کا علاج ،گویا کہ اس کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور ایسے میں جو مسرّت یہ شخص محسوس کرے گا وہ شدید اور طویل المیعاد ہوگی، اس کے برعکس ایک شخص کی ماہانہ آمدن اگر ایک کروڑ روپے ہے اور ایک دن اس کی پچاس کروڑ کی لاٹری نکل آتی ہے تو یہ شخص یقینا ً خوشی محسوس کرے گا مگر یہ خوشی اپنی شدت میں کم اور چند دنوں تک محدود رہے گی، زیادہ سے زیادہ بہتر گاڑی، دوستوں یا فیملی کے ساتھ دوسرے ممالک کی سیاحت اور گھر کی زیبائش وغیرہ پہ رقم خرچ کی جائے گی اور کچھ دنوں بعد اس شخص کی کیفیت وہی ہو گی جو لاٹری نکلنے سے پہلے تھی۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں ہم حق بجانب ہوں گے کہ پیسے اور مالی استقامت کی اہمیت اپنی جگہ ضرور ہے مگر یہ محدود ہے، ایک حد کے بعد پیسہ انسان کو خوشی نہیں دے سکتا۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ سماجی و معاشرتی باہمی تعلقات ہی انسان کی خوشی کا راز ہیں؟

اگر کوئی شخص زندگی میں خوش نہیں حالانکہ اس کے پاس پیسہ بھی ہے، مگر اس کا کوئی دوست یا ہم خیال نہیں تو شاید یہی وجہ ہو اس کی ناخوش رہنے کی، یا پھر اس پیسے کو وہ فلاحی و معاشرتی کاموں کیلئے خرچ نہیں کر رہا تو ناخوش ہے، اسی طرح ایک غریب آدمی صرف اس لیے ناخوش نہیں کہ اس کے پاس پیسہ نہیں، دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پیسے کے بغیر وہ سماج کا فائدہ مند فرد نہیں بن پا رہا، ہر وقت دوسرے ہی اس کی مدد کرتے رہتے ہیں مگر وہ کسی کی مدد کے قابل نہیں اگرچہ اس کی خواہش ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کرے لیکن اس کیلئے اس کے پاس وسائل نہیں، خواہشات اور ممکنات کے درمیان فاصلہ جتنا زیادہ ہوگا، خوشی کے امکانات اتنے کم ہوں گے, سماجیات کا انسان کی خوشی سے بہت گہرا تعلق ہے، مگر اس کی بھی حدود ہیں، ہمارے اجداد ہماری نسبت جن چند جہتوں میں زیادہ خوش تھے ، ان میں سماجیات سب سے اہم ہے، فرد کیلئے معاشرے کا قیمتی اور مفید عنصر بن کے رہنا اس کی فطری طلب ہے۔

لیکن اگر غور کیا جائے تو مالی اور سماجی کیفیات، دو مختلف نہیں بلکہ ایک دوسرے سے جڑے ایک یونٹ کی شکل میں ہیں، مگر رکیے، کیا خوشی کا یہ یونٹ ان دو عناصر پر ہی مشتمل ہے؟

نہیں، ایسا بالکل بھی نہیں، یہ ایک سہہ جہتی یونٹ ہے، ایک تکون ہے، تین کونوں پر مشتمل، تین عناصر سے بنی ایک ترتیب، اور اس تکون کا سب سے اہم کونہ، یا عنصر، صحت ہے۔
برٹرینڈ رسل نے خوشحال زندگی کے اصولوں میں انسانی معدے کی صحت کو اہم ترین قرار دیا ہے، لیکن حقیقت میں معاملہ صرف معدے تک محدود نہیں، ہر عضو و خلیہ اپنی جگہ اہم ہے اور کہیں بھی کوئی بگاڑ انسان کے خوشحال زندگی گزارنے میں رکاوٹ ہے، جان ہے تو جہان ہے، والا محاورہ اپنے اندر گہرے مطالب لیے ہوئے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیاوی نعمتوں میں صحت کی نعمت سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔

ان تینوں عناصر کا ایک دوسرے پر انحصار ہے، اس لیے اسے ایک یونٹ کا نام دیا گیا، قارئین اس سے اختلاف کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ یونٹ اور اس کی تعریف پہلے کبھی نظروں سے نہ گزری ہوگی، یاد رہے کہ ان تینوں عناصر کا ایک دوسرے پہ انحصار اپنی جگہ، اور کسی ایک عنصر کی غیر موجودگی مکمل خوشی کی راہ میں رکاوٹ ہی تصور ہوگی، مگر صحت کی اہمیت باقی دو عناصر سے کہیں زیادہ ہے، صحت ہوتو آپ پیسہ بھی کما سکتے ہیں اور سماجی تعلقات بھی بنا پاتے ہیں۔

اس سہہ جہتی یونٹ تک بات محدود رہتی تو معاملہ اپنی نوعیت میں یقینا ً سادہ اور دوٹوک رہتا، آج جدید طب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ درحقیقت خوشی کا باعث انسانی جسم میں پیدا ہونے والے مخصوص ہارونز ہیں، مختلف اوقات یا سچویشنز میں ان ہارمونز کی تعداد بڑھتی یا گھٹتی رہتی ہے اور اسی کے مطابق انسان اپنے اندر خوشی یا مایوسی کے احساسات کو پاتا ہے، ان ہارمونز میں سیروٹونین، ڈوفامین، اینڈورفین اور آکسیٹوسین زیادہ قابلِ ذکر ہیں۔ ان ہارمونز کی تعداد انسانی زندگی میں وقوع پذیر ہوتے واقعات کے مطابق اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بعض لوگوں میں ان ہارونز کی اوسط تعداد بعضوں سے زیادہ ہوتی ہے اور ایسے افراد زندگی میں زیادہ خوش رہتے ہیں، اس صورتحال کا گھمبیر ترین پہلو یہ ہے کہ ہارمونز کا اوسط لیول انسان اپنے والدین سے ورثے میں لے کر آتا ہے، یعنی کہ جینیاتی طور پر یہ تعین کر دیا گیا ہے کہ حوضِ مسرّت کے یہ ساقی کتنی تعداد میں آپ کو جامِ سعادت پلاتے رہیں گے، ریاضی کے فارمولے سے اس بات کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے، مثلا ً اگر خوشی کے ان یارمونز کی سب سے بلند سطح کو دس نمبر دئیے جائیں تو کچھ لوگ جینیاتی طور پر ان ہارمونز کا سات اور نو کے درمیان لیول لے کر پیدا ہوتے ہیں، یہ لوگ عموما ً زندگی میں خوش رہتے ہیں، مسکراتے ہیں، مثبت سوچ رکھتے ہیں، شدید غم یا مایوسی کی صورت میں بھی ان کا ہارمونز لیول سات نمبر سے نیچے نہیں گرتا، اور چند دنوں بعد ہی ان کا ہارمونز لیول واپس اپنی اوسط پہ آجاتا ہے، ان کے برعکس ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں اپنے والدین سے ورثے میں ہارمونز کی اوسط سطح تین اور پانچ کے درمیانی ملی، ایسے افراد ہر وقت پریشان اور مایوس رہتے ہیں، زندگی میں غیر ضروری سنجیدگی کو اپناتے ہیں، مسکراہٹ کو اپنی سوکن سمجھتے ہیں ، بہت زیادہ خوشی کی صورت میں بھی ان کے ہارمونز کی سطح درجۂ پنجم یا زیادہ سے زیادہ ششم سے اوپر نہیں اٹھ پاتی، اور یہ کیفیت بھی مختصر وقت کیلئے طاری ہوتی ہے، اور یہ جلد ہی ہارمونز اپنی موروثی اوسط، یعنی تین اور پانچ کے درمیان، کو لوٹ آتے ہیں۔
کیا ہارمونز اور خوشی کے اس باہمی تعلق کو دیکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں میڈیکل سٹورز پر ہم ان ہارمومونز کو بِکتا ہوا دیکھیں گے اور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق ہم خوشی خرید سکیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply