• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا کیا نہ ڈھونگ رچائے تمھاری پذیرائی کیلئے۔۔آصف جیلانی

کیا کیا نہ ڈھونگ رچائے تمھاری پذیرائی کیلئے۔۔آصف جیلانی

امریکی صدر ٹرمپ پہلی بار ہندوستان کے دورہ پر پیر 24فروری کو احمد آباد پہنچنے والے ہیں۔ احمد آباد کا انتخاب اس لئے کیا ہے کہ یہ ٹرمپ کے جگری دوست نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کا دارالحکومت ہے۔ ٹرمپ اس دورہ پر اپنے پورے پریوار کو لے کر جارہے ہیں۔ ان کی اہلیہ ان کی صاحب زادی اور داماد جارڈ کُشنر بھی ساتھ ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ٹرمپ کا دورہ گو صرف 36گھنٹے کا ہوگا لیکن ہندوستان میں اس کی ایسی تیاریاں ہورہی ہیں کہ جیسے کوئی اوتار ہندوستان آرہا ہے۔ احمد آباد میں زیر تعمیر کرکٹ اسٹیڈیم میں جو دنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم بتایا جاتا ہے، نمستے ٹرمپ کے نام سے امریکی صدر کے استقبال کی تقریب ہوگی۔اس تقریب پر بتایا جاتا ہے 120کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ ہوائی اڈہ سے اسٹیڈیم تک راستہ کے دونوں طرف عوام امریکی مہمان کا خیر مقدم کریں گے۔ ٹرمپ ابھی سے خوشی کے مارے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ راستہ میں 70لاکھ عوام ان کا استقبال کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے کہ ٹرمپ کو مایوسی ہو، احمد آباد کے حکام نے وضاحت کردی ہے کہ استقبال کرنے والے عوام کی تعداد زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ہوسکتی ہے ۔
ہوائی اڈہ سے اسٹیڈیم کا راستہ جھگی بستیوں سے اٹا پڑا ہے چنانچہ کہیں امریکی مہمان کی نگاہیں ان گندگی بستیوں کی طرف نہ چلی جائیں اور ہندوستان کا امیج داغدار ہو، حکام نے ان بستیوں کو فصیلوں کے سلسلہ سے ڈھانپ دیا ہے۔ ان فصیلوں کو ٹرمپ فصلیں کہا جا رہا ہے۔ حزب مخالف کانگریس پارٹی نے ٹرمپ کے 36گھنٹے کے دورہ کے لئے ان شاہ خرچیوں پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور کہا کہ اتنی بڑی رقم احمد آباد کے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے خرچ کی جانی چاہیے تھی۔
ٹرمپ اور ان کا خاندان احمد آباد سے تاج محل دیکھنے آگرہ جائے گا۔ آگرہ میں حکام کو پریشانی ہے کہ سپریم کورٹ نے تاج محل کے قریب کار وں کے جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے کیونکہ اس کے دھویں سے تاج محل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لئے ٹرمپ اور ان کے خاندان کے افراد کاروں کے قافلہ میں تاج محل کے قریب نہ جا سکیں گے۔ حکام نے امریکی مہمانوں کو پیدل چلنے کی تکلیف سے بچانے کے لئے خاص طور پر بجلی سے چلنے والی کاروں کا اہتمام کیا ہے۔
ایک اور مشکل یہ ہے کہ تاج محل کے عقب سے گزرنے والی جمنا کا پانی بہت گندہ ہے اور اسکےکناروں پر گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جمنا کی صفائی کا بڑے پیمانہ پر کام کیا گیا ہے اور گنگا کا صاف پانی جمنا میں چھوڑا گیا ہے۔
ٹرمپ کے لئے یہ بات نہایت خوشی کی ہوگی کہ وہ تاج محل دیکھ سکیں گے جب کہ ان کے پرانے حریف صدر اوباما یہ سعادت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
آگرہ کے بعد ٹرمپ دلی جائیں گے جہاں نریندر مودی سے بات چیت ہوگی۔ گذشتہ آٹھ مہینوں میں نریندر مودی اور ٹرمپ کے درمیان یہ پانچویں ملاقات ہوگی۔
ٹرمپ ہندوستان کے دورہ سے کیا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ واضح ہے۔ ٹرمپ کو توقع ہے اس دورہ کے پھل سروپ نومبر کے صدارتی انتخاب میں امریکا میں آباد دس لاکھ سے زیادہ ہندوستانی ان کو جتانے کے لئے بھاری چندہ دیں گے اور ووٹ بھی ڈالیں گے۔
لیکن ہندوستان کو ٹرمپ کے اس دورے سے جو توقع تھی اس نے امریکی صدر کی آمد سے پہلے ہی دم توڑدیا ہے۔ ہندوستان کو توقع تھی کہ اس دورہ کے دوران امریکا اور ہندوستان کے درمیان وہ تجارتی سمجھوتہ طے پا جائے گا جس کے لئے گذشتہ تین سال سے مذاکرات ہورہے ہیں لیکن امریکی حکام نے ہندوستان کی اس توقع پر پانی پھیر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس دورہ میں تجارتی سمجھوے پر دستخط کا امکان نہیں ہے البتہ امریکا سے ۳ ارب ڈالر کی مالیت کے ہیلی کاپٹروں اور دوسرے طیاروں کی خریداری کے سودے طے پا سکتے ہیں۔
دلی کی ملاقات میں دیکھنا یہ ہے کہ آیا صدر ٹرمپ کشمیر میں تالا بندی کی صورت حال پر نریندر مودی سے کوئی بات کریں گے؟ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ پچھلے دنوں ٹرمپ نے کشمیر کے تنازعہ کے حل کے لئے ہندوستان اور پاکستان میں مصالحت کی جو پیش کش کی تھی آیا اس ملاقات میں ٹرمپ کو یہ پیشکش یاد رہے گی اور وہ اس بارے میں نریندر مودی سے بات کریں گے۔ بلا شبہ ٹرمپ کے لئے یہ کڑی آزمائش ہوگی۔ ہندوستانی حکام اس بات چیت سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ اہم مسئلہ جس پر مذاکرات ہوں گے وہ بر صغیر میں دہشت گردی اور اس پر قابو پانے کا مسئلہ ہے مقصد پاکستان کو دہشت گردی کے الزام کے جال میں پھانسنے کا ہے۔علاوہ ازیں افغانستان میں طالبان سے صلح کے مذاکرات کی کامیابی کے بعد افغانستان میں ہندوستان کے رول پربھی بات چیت ہوگی۔ اور بحر ہند اور بحر الکاہل میں چین کے خلاف دفاعی اقدامات زیر غور آئیں گے۔

Facebook Comments

آصف جیلانی
آصف جیلانی معروف صحافی ہیں۔ آپ لندن میں قیام پذیر ہیں اور روزنامہ جنگ اور بی بی سی سے وابستہ رہے۔ آپ "ساغر شیشے لعل و گہر" کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply