زندگی کا دائرہ ۔ تین اصول ۔ جین (12) ۔۔وہاراامباکر

نیوٹن سے پہلے فزکس میں فورس، ایکسلریشن، رفتار، ماس وغیرہ کے تصورات تو موجود تھے۔ نیوٹن جیسے نابغے کا کارنامہ یہ تھا کہ ان اصطلاحات کو ایک دوسرے سے مساوات کے جال کے ذریعے باندھ دیا۔ اس سے مکینکس کی سائنس لانچ ہو گئی۔ اسی طرح جین سے پروٹین کا تصور (سنٹرل ڈوگما) وہ مرکزی خیال تھا جس نے جینیات کی سائنس کو باقاعدہ طور پر جنم دیا۔ جس طرح نیوٹن کی مکینکس ایک ابتدا تھی جو بعد میں بہت ریفائن ہوئی، تبدیل ہوئی اور بہتر ہوئی لیکن یہ سائنس کے نوزائیدہ شعبے کا انکوبیٹر تھی۔ وہی حیثیت جین کے مرکزی ڈوگما کی تھی۔ وہ بنیاد جس پر جینیات کی سائنس لانچ ہوئی۔

لیکن انفارمیشن کا یہ بہاوٴ پورے جاندار کو کیسے تعمیر کرتا ہے؟ ہیوموگلوبن بنانے کی ایک ایبنارمل کاپی سرخ خلیے کی شکل بدل دیتی ہے۔ یہ کاپی تو جسم کے ہر خلیے میں ہے (ہر خلیہ ایک ہی جینوم رکھتا ہے)۔ لیکن اس سے صرف خون کے سرخ خلیے کیوں متاثر ہوتے ہیں؟ نیورون یا جگر یا گردے یا پٹھوں پر کوئی بھی فرق کیوں نہیں؟ یہ ایکشن صرف ایک ہی جگہ پر کیوں نہیں؟ ہیموگلوبن آنکھوں یا جلد میں کیوں نہیں؟ یہ انفارمیشن تو وہاں پر بھی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری آنتوں میں ایک خوردبینی، کیپسول کی شکل کا سادہ سا بیکٹیریا ای کولائی بستا ہے۔ اس نے 1940 میں ایک تجربے کے دوران اس سوال کے جواب کا پہلا اہم سراغ دے دیا۔

ای کولائی دو طرح کی شوگر پر زندہ رہتے ہیں۔ گلوکوز اور لیکٹوز۔ اگر ان کو لیکٹوز پر بڑھایا جائے تو یہ تیزی سے بڑھتے ہیں۔ ہر بیس منٹ کے بعد دگنا ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کو گلوکوز پر بڑھایا جائے تو بھی یہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور تیزی سے دگنا ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کلچر دھندلا ہو جاتا ہے اور شوگر ختم ہو جاتی ہے۔

شاک مونود اس وقت پیرس میں تھے۔ پیرس پر نازی فوج کا قبضہ تھا۔ رات کو کرفیو ہوتا تھا۔ مونود اپنی لیبارٹری میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک تجربہ کرنے کا سوچا۔ اگر ہم بیکٹیریا کو خوراک میں گلوکوز اور لیکٹوز ملا کر دیں تو پھر کیا ہو گا؟ شوگر تو شوگر ہی ہے۔ لیکٹوز سے بھی وہی میٹابولزم ملنا چاہیے جو گلوکوز سے تو ان کا بڑھنا ویسا ہی ہونا چاہیے۔ ٹھیک؟ لیکن نتائج ایسے نہیں تھے۔ بیکٹیریا شروع میں اسی رفتار سے بڑھے، پھر درمیان میں وقفہ آ گیا۔ اور اس وقفے کے بعد انہوں نے پھر ویسے ہی بڑھنا شروع کر دیا۔

جب مونود نے اس کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ ای کولائی دونوں شوگر یکساں مقدار میں نہیں کھا رہے تھے۔ پہلے وہ گلوکوز کی دعوت اڑاتے تھے۔ جب یہ ختم ہو جاتی تھی تو پھر یہ بڑھنا بند کر دیتے تھے۔ پھر اپنی ڈائٹ تبدیل کرتے اور بڑھنا شروع کرتے۔ مونود نے اس کو ڈیا آکسی کہا یعنی ڈبل گروتھ۔

یہ کیا تھا؟ یہ سوال مونود کو چبھ رہا تھا۔ بیکٹیریا کو کیسے معلوم ہوا کہ شوگر کا سورس بدل گیا ہے؟ اور پہلے ایک شوگر کیوں استعمال کی گئی ہے؟

اگلے برسوں میں مونود نے دریافت کیا کہ یہ میٹابولک ایڈجسٹمنٹ تھی۔ جب بیکٹیریا ایک سے دوسری خوراک کی طرف منتقل ہوئے تھے تو ان کی انزائم بدل گئی تھیں۔ جب واپس گلوکوز آیا تھا تو اس کو ہضم کرنے کی انزائم دوبارہ نمودار ہو گئی تھیں۔ یہ تبدیلی ویسے تھی جیسے کھانے کے ایک کورس کے بعد آپ اپنی کٹلری تبدیل کر لیں۔ نیا چمچ، کانٹا اور چھری۔ اس میں چند منٹ لگتے تھے اور اس دوران ان کا بڑھنا تھم جاتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا مطلب یہ نکلا کہ انفارمیشن کا بہاوٗ یکطرفہ نہیں۔ جاندار کی ماحول سے آنے والی فیڈبیک سے جین ریگولیشن ہوتی تھی۔ اگر پروٹین تبدیل ہو رہے ہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ جینز آن اور آف ہو رہی ہیں۔ جیسے کوئی مالیکیولر سوئچ لگے ہوں۔ مونود کی ٹیم میں 1950 کی دہائی میں فرانسوئے جیکب اور پارڈی کا اضافہ ہو گیا۔ ان کے ای کولائی کی ریگولیشن پر کئے جانے والے تجربات نے جینیات میں بہت کچھ کھول دیا۔

جین کی ریگولیشن کے تین اصول تھے۔

پہلا یہ کہ جب کوئی جین آن یا آف ہوتا ہے تو ڈی این اے کی ماسٹر کاپی تبدیل نہیں ہوتی، یہ ویسے ہی محفوظ رہتی ہے۔ اصل ایکشن آر این اے کا ہے۔ جب ایک جین آن ہوتی ہے تو آر این اے کے پیغامات پر فرق پڑتا ہے اور وہ شوگر ہضم کرنے کی انزائم بناتے ہیں۔ جب لیکٹوز کی خوراک میسر ہوتی ہے تو لیکٹوز کے انزائم والے آر این اے کی بہتات ہوتی ہے۔ جب گلوکوز کی خوراک ہو تو گلوکوز والے۔

دوسرا یہ کہ آر ان اے کے پیغامات کی ریگولیشن ہوتی ہے۔ جینز کے پورے ماڈیول ہی آن یا آف ہوتے ہیں۔ کئی جینز اکٹھے ہی۔ مثال کے طورپر لیکٹوز کے لئے وہ پروٹین جو ٹرانسپورٹ کا کام کرتی ہے اور لیکٹوز کو بیکٹیریا کے اندر لے کر جاتی ہے۔ ایک اور انزائم کو اس کو حصوں میں توڑتی ہے۔ اور یہ جینز ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔ ویسے جیسے لائیبریری میں ایک مضمون کی کتابیں اکٹھی رکھی ہوں۔ ایک ہی ماسٹر سوئچ سے سب بدل جاتا ہے۔ (اس سوئچ کا نام مونود نے آپرون رکھا)۔  پروٹین کی پروڈکشن اپنی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ تھی۔ جس طرح کی شوگر، اس طرح کے پروٹین۔ ارتقا کی اکانومی خوفناک حد تک لطیف تھی۔ کوئی جین، کوئی پیغام کوئی پروٹین بے کار نہیں تھی۔

تیسرا یہ کہ ہر جین کے ساتھ خاص ریگولیٹری ڈی این اے سیکوئنس اس کو پہچاننے کے ٹیگ کی طرح لگا ہوا تھا۔ شوگر پہچاننے والی پروٹین نے ماحول میں خوراک کو اس ٹیگ کا پتا لگا کر ٹارگٹ جین آن یا آف کر دئے تھے۔ یہ جین کے لئے سگنل تھا کہ زیادہ آر این اے پیدا کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر یہ کہ جین نہ صرف پروٹین بنانے کی انفارمیشن رکھتی ہے بلکہ یہ بھی کہ پروٹین کب اور کہاں بنائی جائے۔ اس کی ریگولیشن کا سیکوئنس اور اس کی پروٹین بنانے کا سیکوئنس جین کی تعریف کرتا ہے۔ جین کے ساتھ لگے اس کی ایکٹیویٹی کنٹرول کرنے والا یہ کوڈ اس کے پیغام میں کوما، فُل سٹاپ، انڈرلائن کرنا، نشان لگانا، اضافی نوٹ لگانا جیسے کام کرتا ہے۔ پڑھنے والے کو بتاتا ہے کہ کس حصے کو پڑھنا ہے، کس کو نہیں اور کب اگلے جملے کا انتظار کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان تین اصولوں کو بیان کرنے والا پارڈی، جیکبز اور مونود کا یہ اہم پیپر 1959 میں شائع ہوا اور اپنے مصنفین کے ناموں کے ابتدائی حروف کے حساب سے پاجامہ پیپر کہلایا۔ “جینز صرف بلیوپرنٹ نہیں ہیں۔ ہر خلیے میں ایک ہی جیسے جین ہوتے ہیں لیکن کب کس نے کہاں پر منتخب ہونا ہے، یہ ہر خلیے کو ماحول کے لحاظ سے ایڈجسٹ کرتا ہے۔ یہ ایک متحرک بلیوپرنٹ ہے، جو حالات کے مطابق عمل میں آتا ہے”۔

پاجامہ پیپر نے ایک سوال کا جواب تو دے دیا تھا کہ لیکن ایک اور بہت اہم سوال کا سراغ بھی اسی میں موجود تھا جو ایمبریوجینیسس کا مرکزی سوال تھا۔ ایک خلیے سے جاندار کا آغاز ہوتا ہے۔ ہزاروں طرح کے خلیے جین کے ایک ہی سیٹ سے کیسے برآمد ہو جاتے ہیں؟ خاص وقت اور جگہ پر کھلنا اور بند ہونا ۔۔۔۔  پیچیدگی کی اہم تہہ کا جواب بائیولوجی انفارمشن کی ضدی نیچر میں تھا۔ یہ جواب جین ریگولیشن تھا۔

“جین ایک کوآرڈینیٹ ہونے والا پروگرام ہے۔ ایک تتلی اور ایک سنڈی کے جین میں کوئی فرق نہیں لیکن جین ریگولیشن اس تبدیلی کا باعث بنتی ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسے کسی مشہور کہانی میں ایک “کاسمولوجسٹ” سے کسی نے پوچھا تھا کہ زمین کس پر کھڑی ہے تو وہ کہتا ہے کہ “کچھوے پر”۔ سوال ہوا کہ “یہ کچھوا کس پر ہے؟” تو جواب آیا کہ “دوسرے کچھووں پر”۔  “تو یہ کچھوے کس پر ہیں؟”۔ کاسمولوجسٹ جھلا کر بولا، “آخر تک کچھوے ہی کچھوے ہیں”۔

ایمبریوجینیسس ایک خلیے سے شروع ہونے والی رفتہ رفتہ کھلتی ہوئی جین ریگولیشن ہے۔ جین سے کوڈ ہونے والا میسج، میسج سے بننے والی پروٹین، پروٹین سے ریگولیٹ ہونے والی جین۔ماہرِ جینیات کے لئے جاندار کی ڈویلپمنٹ جین اور جینیاتی سرکٹ میں ہے۔ جین پروٹین بناتے ہیں جو جین کو آن کرتے ہیں جو پروٹین بناتے ہیں جو پروٹین کو آن کرتے ہیں۔ پہلے ایمبریولوجیکل خلیے تک اسی طرح جین ہی جین ہیں۔ یہ زندگی کا دائرہ ہے۔

ڈی این اے کی دو لڑیاں ایک دوسرے کا عکس ہیں اور یہی اس کا اپنی کاپی بنانے کا مکینزم ہے۔ لیکن یہ اپنی کاپی خود بخود نہیں بنا سکتا۔ بے قابو نہیں، طریقے سے۔ اس کو سیلف کنٹرول کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے والی انزائم کونسی ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب لینے میں ای کولائی بیکٹیریا نے مدد کی۔ ان کی تیزرفتار تقسیم اس عمل کو ڈھونڈنے کی سب سے بہترین جگہ تھی۔ اس کو 1958 میں کورنبرگ نے معلوم کیا۔ یہ اینزائم ڈی این اے پولیمریز تھی۔ ڈی این اے میں خالص انزائم کے اضافہ سے انہوں نے ڈی این اے کی تقسیم دیکھ لی تھی۔ ڈی این اے نیا ڈی این اے اپنی ہی شکل کا بناتا ہے۔

یہاں پر نوٹ کرنے والی ایک بڑی خاص چیز ہے۔ ڈی این اے پولیمریز ایک پروٹین ہے۔ یہ وہ انزائم ہے جو ڈی این اے کی تقسیم ممکن کرتی ہے۔ یہ خود جین کی پراڈکٹ ہے۔ ہر جینوم میں اس کو بنانے کی ہدایت لکھی ہوئی ہے۔ اس کا کوڈ موجود ہے۔ اور پیچیدگی کی یہ اضافی تہہ ریگولیشن کے لئے اہم ترین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈی این اے کی تقسیم کو دوسرے ریگولیٹر اور سگنلز کے ذریعے ۔۔۔ جیسا کہ عمر یا خوراک کی دستیابی وغیرہ ۔۔۔ کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ کب تقسیم ہونا ہے، کب نہیں۔ یہ بڑا باریک توازن ہے۔ اور اگر یہ ریگولیٹر خود قابو سے باہر ہو جائے تو کوئی چیز خلیے کی تقسیم در تقسیم نہیں روک سکتی۔ اور یہ جین کے فنکشن میں ہونے والی سب سے بڑی خرابی ہے۔ اس کو کینسر کہتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جین پروٹین بناتی ہیں جو جین ریگولیٹ (regulate) کرتے ہیں۔ جین پروٹین بناتی ہیں جو جین کو ریپلیکیٹ (replicate) کرتے ہیں۔ جین کی فزیولوجی کا ایک اور اہم کام جو ہماری بقا کے لئے ضروری ہے وہ ری کمبی نیشن (recombination) کا ہے۔ یہ کیا ہے؟ اس کی کہانی کا تعلق ڈارون اور مینڈیل سے ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)

Screenshot%2B2020-02-17%2Bat%2B3.45.07%2BPM

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply