آئیےڈرامہ کرتے ہیں ۔۔اورنگزیب وٹو

لافانی انگریز ڈرامہ نگار اور شاعر شیکسپئر نے کہا تھاکہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہر انسان یہاں اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے۔آپ سب نے ضرور سنا بھی ہو گا اور دیکھا بھی ہو گا کہ لوگ کیسے کیسے ڈرامےکرتے ہیں،سو سو ڈھونگ اور سوانگ رچاتے ہیں،کھیل کھیلتے ہیں،تماشے کرتے ہیں،فنکاری دکھاتے ہیں اور ہم اسے حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔ڈرامہ،ناٹک،اداکاری،ڈھونگ، سوانگ،کھیل،تھیٹر ہم برصغیر کے لوگوں کی زبانوں کے روزمرہ استعمال کے الفاظ ہیں۔

ڈرامہ شاعری کی طرح ادب کی قدیم ترین اصناف میں سے ایک ہے۔ انسان کی فطرت میں اختراع پسندی پائی  جاتی ہے اور یقیناً اسی اختراع پسندی کے نتیجے میں ڈرامہ کی ابتدائی  شکل کی بنیاد کہیں جنگلوں اور قبائلی معاشرے میں رکھی گئی۔ڈرامے کی جدید ترین،منظم اور مربوط صورت قدیم یونانی تہذیب میں آج سے تین ہزار سال پہلے سامنے آئی۔قدیم یونان میں ڈائیوناسز دیوتا کے اعزاز میں ایک میلہ منعقد کیا جاتا تھا اور اس فیسٹیول کے دوران مختلف ڈرامہ نگار تھیٹر میں اپنے کھیل پیش کرتے اور سب سے بہترین کھیل پر ڈرامہ نگار کو انعام دیا جاتا۔اس دور کے عظیم ڈرامہ نگاروں نے تکنیکی اور تخیلاتی لحاظ سے ایسے اعلیٰ پائے کے کھیل لکھے جنہیں آج بھی ڈرامہ نگاری کی دنیا میں بہترین نمونہ سمجھا جاتا ہے۔

قدیم یونانی ڈرامہ میں فلسفہ حیات،جبر و قدر،وجودیت اور عدم وجودیت،شعور اور لاشعور سے لے کر انسانی سماج، اخلاق اور سیاست کے بنیادی سوالوں کو سامنے لایا گیا ہے۔ان عظیم ڈرامہ نگاروں میں ایسکلیس،سفوکلیز،یوریپیڈیز نے المیہ ڈرامہ نگاری کے ذریعے دیومالائی داستانوں کے کرداروں کو زمان و مکان کے مختلف مراحل میں دکھاتے ہوئے  انسانی تہذیب کو درپیش مختلف مسائل کو بیان کیا گیا ہے۔ یونانی ڈرامے میں ہمیں دیوتا اور انسان کا تعلق اور اس سے پیدا ہونے والی کشمکش دیکھنے کو ملتی ہے۔Aristophenes اور Menander نے طربیہ ڈرامہ نگاری کے ذریعے انسانی حماقتوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ڈرامہ چونکہ آرٹ کی مقبول ترین صنف تھی اس لیے قدیم یونانی فلسفی اور نقاد ارسطو نے اپنی مشہور زمانہ کتاب(Poetics) بوطیقا میں ڈرامے کی مختلف اشکال،ڈرامے کی ساخت اور لوازمات کے لیے بنیادی اصول وضع کیے ہیں۔مغرب میں ڈرامے کی اس روایت کو رومی ڈرامہ نگاروں نے آگے بڑھایا اور یونانی روایت کی پیروی کی۔رومی تہذیب کے زوال کے بعد کئی سو سال تک مغرب تاریکی میں ڈوبا رہا اور ڈرامے کی یہ عظیم روایت وہیں جامد ہو کر رہ گئی۔یورپی نشاة ثانیہ(Renaissance) ڈرامے کے لیے نئی زندگی لے کر آئی۔

یورپی نشاة ثانیہ کے دور ِاوّل میں بے مثال ڈرامہ تخلیق کیا گیا جو بنیادی طور پر یونانی اور رومی تھیٹر کا ہی تسلسل تھا۔ولیم شیکسپئر، کرسٹوفر مارلو، تھامس کڈ، بین جانسن جیسے فنکاروں نے ڈرامے کو اوج کمال تک پہنچا دیا۔انگریزی ڈرامے کے اس سنہرے دور میں شیکسپئرنے المیہ،طربیہ اور رومانوی کھیل لکھے جو انسانی فطرت میں پنہاں اسرار و رموز کے گرد گھومتے ہیں۔شیکسپیئرکی لکھی گئی المیہ کہانیوں نے عالمی شہرت و مقبولیت حاصل کی اور دنیائے ادب کا سب سے مقبول کردار ” ہیملٹ“ تخلیق کیا۔مغربی تھیٹر کی روایت میں جدیدیت اور حقیقت نگاری کو متعارف کروانے کا سہرا ناروے سے تعلق رکھنے والے ڈرامہ نگار ہینرک ابسن (Ibsen)کے سر ہے جس نے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے کرداروں کو متعارف کروایا اور ان کے تعلقات مسائل اور نفسیات کا ذریعہ اظہار بنایا۔ابسن کے ڈرامے A Doll’s House,Hedda Gabler اور The Wild Duck نے مغربی ڈرامے کی روایت میں ایک نئی جہت متعارف کروائی۔ابسن کے بعد آنے والے ڈرامہ نگاروں نے بھی جدیدیت اور حقیقت نگاری کے فن کو آگے بڑھایا۔جدید ڈرامہ نگاروں میں آئرش ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شا نے بے حد مقبولیت حاصل کی۔

ہندوستانی ڈرامے کی روایت بھی ہزاروں سال قدیم اور انتہائی مضبوط ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ ایک صدی قبل مسیح ہندوستان پر سکندر کے حملے نے ڈرامے یا ناٹک کی افزائش میں اہم کردار ادا کیا۔یقیناً رام لیلا کی صورت ہندوستان میں ڈرامے کی مقامی روایت موجود تھی مگر اس روایت کو تحریک یونانی فوجوں کی ہندوستان آمد سے ملی۔یونانی افواج نے ہندوستان قیام کے دوران اپنے آبائی وطن کے تھیٹر کو مقامی لوگوں میں مقبول بنایا۔یونانی سپاہی اپنی قیام گاہوں کے قریب میدانوں میں ڈرامے پیش کرتے اور یہیں سے مقامی ہندوستانی تھیٹر نے یونانی ڈرامے کے اثرات قبول کیے۔
پہلی صدی سے چوتھی صدی عیسوی کے درمیانی عرصے میں ہندوستانی ڈرامہ نگاری کے سب سے بڑے نام کالی داس نے شاہکار ڈرامہ ”شکنتلا“ تخلیق کیا۔یہ ڈرامہ مہا بھارت میں بیان کی گئی ایک کہانی سے ماخوز ہے جس میں جنگل میں رہنے والی شکنتلا کی ایک راجہ سے عشق کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔یہ ڈرامہ بھی یونانی تھیٹر کی طرح نظم میں لکھا گیا ہے۔ہندوستانی ڈرامے کی تاریخ میں بطور ناقد بھرت منی کو وہی مقام حاصل ہے جو یونانی اور مغربی ڈرامے کی روایت میں ارسطو کو حاصل ہے۔بھرت منی نے ”نتیاشاسترا“ میں ڈرامے اور موسیقی کے تمام اجزائے ترکیبی پر بحث کی ہے۔برصغیر میں اردو ڈرامے کی روایت اس قدر توانا نہیں جس قدر پزیرائی دوسری اصناف ادب یعنی غزل، نظم ،ناول یا افسانے کو ملی۔اردو تھیٹر میں آغا حشر کاشمیری اور امتیاز علی تاج کے نام اہم ہیں۔

مغربی اور ہندوستانی ڈرامے کی مختصر روداد کے بعد پاکستانی ڈرامہ ہے جو کہ تھیٹر کی بجاۓ قسطوں کی صورت ٹیلی وژن پر نشر کیا جاتا ہے۔بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں سینما اور ٹیلی وژن کےعام ہونے سے تھیٹر کی مقبولیت میں بڑی حد تک کمی آئی۔ٹیلی وژن تفریح کے تمام لوازمات کو شائقین کے ڈرائنگ روم تک لے آیا تو ڈرامہ کی نئی شکل وجود میں آئی۔ارسطو بوطیقا میں قسط وار ڈرامے کی سخت مخالفت کرتا ہے اور ڈرامہ نگار پر زور دیتا ہے کہ کھیل زیادہ سے زیادہ سورج کے ایک چکر کے دوران مکمل ہو جانا چاہیے۔ارسطو کے مطابق قسط وار ڈرامے سے ڈرامہ نگار تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔لیکن ارسطو کی یہ رائے موجودہ دور کے ٹی وی ڈراموں بالخصوص پاکستانی ڈراموں نے غلط ثابت کر دی ہے۔

پاکستانی ڈرامہ نگاروں کا کمال ہے کہ وہ کہانی کا ربط ٹوٹنے دیتےہیں اور نہ ہی شائقین کی دلچسپی کم ہوتی ہے۔1964 میں پاکستان ٹیلی وژن کے قیام سے لے کر آج تک ڈرامہ نہ صرف بے حد مقبول رہا ہے بلکہ میڈیا انڈسٹری کا سب سے طاقتور حصہ بھی بن چکا ہے۔1969 میں ٹیلی کاسٹ ہونے والے ڈرامے ”خدا کی بستی“ نے نہ صرف پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا بلکہ اس کی شہرت و مقبولیت پوری دنیا میں پھیل گئی۔1970 اور 80 کی دہائیوں میں پی ٹی وی کے ڈراموں نے مختلف النوع کہانیوں ،بے مثال کردار نگاری،لازوال اداکاری اور مقصدیت کی بنا پر عالمگیر شہرت حاصل کی۔ان ڈراموں میں انکل عرفی،وارث،تنہائیاں،دھوپ کنارے اور اندھیرا اجالا جیسے شاہکار ڈرامے شامل ہیں۔ان کلاسک ڈراموں کی مقبولیت کئی دہائیوں بعد بھی مسلسل قائم و دائم ہے۔جدید پاکستانی ڈراموں نے بھی عالمگیر شہرت حاصل کی اور مختلف ممالک میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ہم سفر،شہر ذات،میری ذات ذرہ بے نشاں،خدا زمیں سے گیا نہیں،من مائل جیسے ڈراموں نے تہذیبی، اخلاقی، سماجی، سیاسی اور معاشی سوالات سے پردہ اٹھایا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج اکیسویں صدی کی دو دہائیوں کے اختتام پر ٹیلی وژن ڈرامہ کی رسائی کروڑوں ذہنوں تک ہے اور مختلف ممالک کی حکومتیں ڈرامے کو سیاسی اور ثقافتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ٹیلی وژن ڈرامہ سینما سے بھی زیادہ متاثر کن میڈیم کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ترکی نے ڈرامے کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کے شاندار ماضی کو پوری دنیا اور بالخصوص مسلمانوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔سلطان سلیمان کی زندگی پر بننے والے طویل سیریل نے پوری دنیا کو ترکی کی تاریخ اور ماضی سے روشناس کروایا ہے۔حال ہی میں نشر ہونے والے طویل ڈرامے ”ارطغرل“ کی پوری دنیا میں دھوم ہے۔2020 میں پاکستانی ڈرامے ”میرے پاس تم ہو“ نے مقبولیت کےسارے ریکارڈ توڑ دیےہیں۔اسی طرح فاروق رند نے ”عشق زہے نصیب“ کی صورت اچھوتے خیال،پیچیدہ پلاٹ،بہترین کردارنگاری،بے مثال اداکاری اور پس پردہ موسیقی کے موثر ترین استعمال سے ایک شاہکار تخلیق کیا ہے۔ٹیلی وژن ڈرامے کی اس قدر افادیت اور اہمیت کے پیش نظر ضروری ہے کہ اسے یکسانیت اور اندھی تقلید سے بچایا جاۓ۔اچھوتے خیالات اور مضبوط کہانیوں کے ذریعے انسان کو درپیش تہذیبی،سیاسی،معاشرتی،معاشی اور نفسیاتی چیلنجز کو سامنے لایا جاۓ۔ڈرامے کی کامیابی اس حقیقت کا ادراک بھی ہے کہ انسان ابھی تک فنون لطیفہ کا دلدادہ اور امن پسند ہے۔اگر یہ میڈیم بھی اپنی افادیت کھو بیٹھا تو عدم برداشت شدت پسندی اور آمریت کی بدترین شکلیں نمودار ہوں گی جو ہر تخیلاتی ذہن کو ختم کرنے کے درپے ہوں گی۔

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”آئیےڈرامہ کرتے ہیں ۔۔اورنگزیب وٹو

Leave a Reply to Iram Cancel reply